جنت کا مسافر
اللہ واکبر کی صداکے ساتھ مستقبل کا ’’شاہین‘‘بستر سے کود پڑا۔نیند سے بیدار ہونے کی دعا پڑھی۔وضو بنایا۔۔۔۔اس کی میم نے کہا تھا۔۔۔۔’’شاہین‘‘کو نیند کبھی شکست نہیں دے سکتی۔۔۔ابو کے ساتھ مسجد روانہ ہوا۔۔۔۔اللہ کے حضور جھکنے میں مزہ آیا۔شاہین اللہ کے سیوا کسی کے سامنے جھکتا بھی نہیں۔مسجد سے واپس آتے ہوئے اس نے اُفق میں روشن ہوتے ہوئے سورج کو دیکھا۔نیلگوں آسمان کی طرف نگاہ کی۔دل دھڑ کنے لگا۔۔۔۔کب فضاؤں میں قلابازیاں کھائے گا۔۔۔ایک دن میم نے سب سے ان کے مستقبل کا پوچھا۔اس نے کہا تھا۔۔۔۔میم میں پائلٹ بنوں گا۔۔۔میم فائیٹر پائلٹ۔۔۔۔میم نے توقف کے بعد اس کی آنکھوں میں اتری چمک اور جذبے کو محسوس کرتے ہوئے کہا تھا۔۔۔۔پائلٹ مت کہو بیٹا ’’شاہین‘‘کہو۔۔۔پرواز اونچی ۔۔۔مقاصد جلیل۔۔۔۔اُمیدیں کوئی نہیں۔۔۔۔خودار۔۔۔فقیر صفت ۔۔۔۔’’شاہین‘‘کو یوں لگا تھا کہ وہ اپنی کرسی پہ نہیں ہے اونچی فضاؤں میں اڑان بھررہا ہے۔۔۔گھر پہنچ کر سیدھاا باورچی خانے میں گئے۔ماں ناشتہ بنارہی تھی۔۔۔۔ماں نے کہا۔۔۔یہاں کیوں آئے جاؤں اللہ کے کلام سے تلاوت کرو۔۔۔پھر تیاری کرو۔۔۔ناشتہ تیار ہورہا ہے۔دوڑ کے اپنے کمرے میں آیا۔قرآن کھولا۔۔۔۔اللہ کی راہ میں قتل ہونے والوں کومردہ مت کہو وہ زندہ ہیں مگر تم شعور نہیں رکھتے۔۔۔۔ایک محسورکن احساس اس کے رگ وپٹے میں سرایت کرجاتا ہے۔۔۔۔اس کا جہاز بموں سے بھرا جاتا ہے ۔اس کو ٹیک اف کا حکم ملتا ہے۔وہ اپنی کاک پٹ میں ہے اس کی آنکھیں فضا کی بلندیوں کے دشمن کا تعاقب کررہی ہیں۔وہ قرآن بھی بند کرتا ہے اور آنکھیں بھی۔۔۔۔یا اللہ مجھے شاہین بنا۔۔۔۔تیاری کرکے ناشتے کی میز پہ آتا ہے۔آج ماں اس کو رہ رہ کے دیکھ رہی ہے۔اس کی پیشانی دمک رہی ہے۔اس کا چاند سا چہرہ پھول کی طرح کھِل گیا ہے اس کے ہونٹوں پر ایک انوکھی مسکراہٹ ہے۔وہ ناشتہ کرتا رہا ماں اس کو دیکھتی رہی ناشتہ کرکے اٹھا۔ماں نے اپنے ہاتھوں سے اس کے بال پھر سے سنوارے اس کو گلے سے لگا کے اس کی پیشانی چومتی رہی۔اس کے دونوں آنکھوں کو بوسہ دیا۔لمحہ بھر اس کو دیکھتی رہی۔۔۔۔پھر100روپے کا نوٹ تھماکے کہا۔۔۔۔میری زندگی یہ پورا رکھو آج ٹوٹے نہیں ہیں۔وہ مسکرا کر پھر ماں کے گلے لگ گیا۔اور بجلی کی چمک کی طرح اس کی آنکھوں سے اوجھل ہوگیا۔۔۔
سکول لگا۔اپنی سیٹ پہ بیٹھا تھا۔میم لکچر دے رہی تھی۔اچانک فائرنگ کی آواز آئی۔فائرنگ میں موت کی آواز تھی۔میم نے کہا کرسیوں کے پیچھے میزوں کے نیچے چھپ جاؤ۔وہ چھپ تو گئے۔پھر ان کو پتہ بھی نہ چلا کہ ان کے ساتھیوں کا کیا بنا۔ان کے کمرے کا کیا بنا ان کی میم کا کیا بنا۔اس کے سکول میں کیا واقعہ ہوا۔میم کو جلایا گیا۔ساتھی ٹکڑے ٹکڑے ہوئے۔گولی آکے سیدھا اس کی پیشانی پہ لگی جس پر ماں نے طویل بوسہ دیا تھا۔خون کے وہ چھنٹے جو وہ اس دین مبین اور اس پاک سرزمین کی حفاظت کے لئے بچا رکھا تھاوہ اسی خاک پہ گرے یہ رگوں میں جوش مارتا خون جو دین خدا اور سرزمین کی حفاظت کے لئے ترو تازہ رہتا تھا۔چھوٹ نکلا اُجلے یونیفارم سرخ ہوگئے۔خون کے قطرے جیب میں گرے 100کا نوٹ تر ہوگیا۔نوٹ بک پہ گرے جس کے اوپر ’’شاہین‘‘نے جلی حروف پہ لکھا تھا۔۔۔۔۔’’اے نگار وطن تو سلامت رہے‘‘خون نے اس جملے کو اور نمایاں کیا۔جنازہ ماں کے سامنے رکھاگیاتھا۔شاہین کی اکھیاں کہہ رہی تھیں۔ماں ہمت نہ ہارنا تم میرے جیسے اور کتنے شاہینوں کی ماں ہو۔ماں دیکھو یہ 100کا نوٹ رنگین ہوگیا ہے۔اس کو دکاندار نہیں لے گا۔یہ رکھو میں جنت الفردوس میں تمہار انتظار کرونگا۔مگر ماں مت رو تم ایک زندہ قوم کی ماں ہو زندہ قومیں آزمائشوں میں رویا نہیں کرتیں۔ مسکراکے آگے بڑھتی ہیں۔مجھ پر فخر کرومیں زندہ ہوں ماں تم ایک شہید کی ماں ہو۔میری قوم چٹان ہے ماں یہ جراٗت سے آگے بڑھے گی۔میری سرزمین کو تم جیسی باہمت ماؤں اور پاسبانوں کی ضرورت ہے۔یہ ملک اللہ کی حفاظت میں ہے اس کے شیردل پاسبان اس کی انچ انچ کی حفاظت کریں گے۔ماں نے پیشانی کی اس جگہ پہ ہونٹ رکھی جس میں اب روئی ٹھونسی ہوئی تھی۔روئی سے عجیب خوشبو آرہی تھی۔یہ شہادت کی خوشبو تھی اور یہ جنت کے مسافر کی پیشانی پر ماں کا آخری بوسہ تھا۔