کالمز

دنیا کی خوبصورت ترین شخصیت

میں نے زندگی میں اتنی خوبصورت شخصیت کبھی نہیں دیکھی۔ان کی آنکھوں میں جو چمک تھی وہ دنیا کے حسین و جمیل لوگوں کے حسن کو مات دیتی تھی۔ دنیا کی بیوٹی انڈسٹری اپنا سارا سرمایہ خرچ کر کے وہ حسن نہیں خرید سکتی تھی۔ ان کی چال ڈھال اور گفتگو میں وہ کمال تھا جو بڑی بڑی یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل لوگوں کو نصیب نہیں تھا ۔ان کی دانش کے آگے دانشوروں کی دانشوری ہیچ لگتی تھی۔ ان کے منہ سے نکلا ایک ایک لفظ بڑے بڑے مفکرین کی زندگی بھر کی تعلیمات کا احاطہ کرتے تھے۔ ان کی مسکراہٹ میں اپنایت اور معصومیت کا وہ امتزاج تھا جو لوگوں کو اپنا گرویدہ بنادیتا تھا۔ بیوٹی پالرز اور برانڈڈ سوٹس میں خوبصورتی ڈھونڈنے والے کتنے بے وقوف لوگ ہوتے ہیں وہ اس ملیشا کے ایک جوڑا کپڑوں میں ملبوس اتنا خوبصورت دکھنے والے ایدھی سے جاکر پوچھ لیتے کی ان کی خوبصورتی کا راز کیا ہے؟وہ عبدلستا را یدھی سے پوچھ لیتے کہ ان کی کی شخصیت میں اس قدر کشش کیسے آئی تھی؟

وہ جب 2010 میں گلگت تشریف لائے تو ان کے آٹھ دس بچے بھی ان کے ہمراہ تھے۔ باقی دنیا کے لئے یہ بچے لاوارث تھے اور ایدھی ہوم میں پرورش پا رہے تھے مگر وہ بچے عبدلستار ایدھی کو ہی اپنا حقیقی مائی باپ مانتے تھے۔ وہ ان کے ساتھ ساتھ یوں چلتے تھے جیسے ایک شفیق باپ کے ساتھ ان کے حقیقی بچے انگلی پکڑ کے چلتے ہیں۔ گلگت پریس کلب میں ان کے ساتھ میری ملاقات میرے لئے نہ صرف متاثر کن تھی بلکہ سبق آموز بھی تھی۔ میں ان کی سادگی میں پائی جانے والی بھلا کی خوبصورتی دیکھ کر دنگ رہ گیا اور جب تک وہ پریس کلب میں موجود رہے میں ان کو تکتا رہا۔ دنیا میں بہت ساری شخصیات انسانی فلاح کا کام کرتی ہیں مگر ان میں سے کوئی بھی شخصیت ایسی نہیں ہے جو وسائل کی بہتات کے باوجود ایسی طرز زندگی اپنائے جو دنیا میں غریب ، مظلوم، بے سہارا اور بے کس لوگوں کو نصیب ہے۔ دنیا کے تمام مخیر لوگ سب سے پہلے اپنی ذات کا اور پھر دوسروں کی خدمت کا سوچتے ہیں مگر عبدلستار ایدھی اپنی ذات کو فراموش کر چکے تھے اور اپنے کام کو وہ اپنی ذات سے زیادہ ترجیح دیتے تھے جس کی مثال ان کی طرز زندگے تھی۔ وہ جن لوگوں کے لئے کام کرتے تھے خود بھی ان کاروپ دھار چکے تھے۔ اس لئے مظلوم اور بے سہارا لوگ ان سے دلی محبت کرتے تھے اور وہ ان کو اپنا نجات دھندہ نہیں بلکہ اپنا ہم نوا سمجھتے تھے۔ ان کے پسے ہوئے طبقات سے دوستی اور پیار کا رشتہ تھا۔ یہ رشتہ ہی تھا جس کی بنیا د پر یہی لوگ ایدھی ہوم سے مدد لینے کے ساتھ بعد ازاں ان کے مشن کا حصہ بنتے تھے ۔ ان کا فلاحی کاموں کا سالانہ بجٹ ڈیڑھ ارب تھا مگر اس میں سے ان کی اپنی ذات پر چند ہزار بھی خرچ نہیں ہوتے تھے۔وہ انسانی ہمدردی کا عملی نمونہ تھے وہ ہر دکھی انسان کے صرف دکھ ہی دور نہیں کرتے تھے بلکہ ان کے دکھ میں برابر کے شریک ہوتے تھے۔ دکھ بانٹناہم نے صرف محاورہ میں سنا ہے مگر عبدلستا ایدھی اس پر عمل کرتے تھے۔ وہ اتنا ہی کرب سے خود کو گزارتے تھے جتنا ہمارے معاشرے کا ایک مظلوم، بے سہارا، مسکین، یتیم، بھوکا ، مفلس اور بے سہارا گزرتا ہے۔ مجھے مدر ٹریسا اور عبدلستار ایدھی میں کبھی کبھی مما ثلت نظر آتی تھی مگر میں نے غور کیا تو عبدلستار ایدھی مدر ٹریسا سے بھی ایک قدم آگے تھے۔ عبدلستار ایدھی انسانوں سے اتنی ہمدردی کرتے تھے کہ وہ گھلی سڑی اور مسخ شدہ انسانی لاشوں کی حرمت کے بھی قائل تھے۔ وہ ان لاشوں کو خود غسل دیتے تھے جن کے پاس کوئی اور انسان نہیں جا سکتا تھا۔ وہ مردہ انسانوں سے بھی اتنی ہی ہمدردی کرتے تھے جتنی وہ زندوں سے کرتے تھے۔ اتنا باکما ل انسان انسانی تاریخ میں ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتا ۔ بنی نوع انسان تو کیا وہ تمام مخلوق کائنات کی محبت میں پوری طرح مبتلا تھے۔ انہوں نے ایدھی اینیمل ہوم بنایا تھا جہاں زخمی جانوروں اور پرندوں کا مفت علاج ہوتا تھا اور ٹھیک ہونے پر ان کو آزاد کیا جاتا تھا۔ ان کے لئے دنیا کی آرم دہ گاڑی ایمبولنس تھی جس میں وہ مریضوں، زخمیوں اور لاشوں کوایک جگہ سے دوسری جگہ لے جاتے تھے۔ ان کا بہترین کھانا وہ تھا جو ایدھی ہوم کے بچے روز کھاتے ہیں۔ وہ ان بچوں یا اپنی بیگم کے ساتھ فرش پر دستر خوان بچھا کر کھانا کھاتے تھے، ان کے لئے آرام دہ گھر ایدھی ہوم ہی تھا جہاں وہ لاوارث بچوں کے ساتھ رہتے تھے اور ان کی سیکورٹی ان کے وہ لاوارث بچے تھے جو کسی کچرے کے ڈھیر سے ان کو ملے تھے یا کسی نے لاکر ایدھی ہوم کے جھولے میں ڈال کر گئے تھے اور وہی پر وہ پلے بڑے تھے۔ یہ بچے ان کی چندہ مہم سے لیکر تمام امدادی سرگرمیوں میں ان کے شانہ بشانہ ہوتے تھے۔

وہ ان تمام اخلاقی اسباق کا عملی نمونہ تھے جو مذہبی واخلاقی علوم کی کتابوں میں درج ہیں۔وہ موجودہ دور کی رسمی تعلیم کے خلاف تھے کیونکہ ان کا کہنا تھا کہ آج کی تعلیم انسان کو انسان بنانے میں ناکام ہوچکی ہے۔ آج کے دور میں تما م غلط کام نام نہاد پڑے لکھے لوگ کرتے ہیں۔ ریاست کا نظم و نسق یہی پڑھے لکھے لو گ ہی تو چلاتے ہیں۔ مقننہ، عدلیہ، انتظامیہ اور میڈیا وغیرہ میں یہی پڑھے لکھے لو گ ہی تو ہیں جو ناانصافی، دھونس دھندلی، غبن، کرپشن، اقرباء پروری، رشوت خوری اور میرٹ کش نظام کو تقویت فراہم کرتے ہیں۔ اگر پڑھے لکھے لوگ ٹھیک ہوتے تو آج نظام اتنا غیر انسانی رویوں کا شکار نہ ہوتا۔ تعلیم اگر لو گوں پر اثر انداز ہوتی تو وہ انسان دوست ہوتے اور ان کی طرز زندگی میں سادگی آجاتی۔

وہ جب گلگت تشریف لائے تو ان کے محبت کے پیغام پر راقم نے کالم لکھا تھا جس کا اختتام ان الفاظ سے ہوا تھا ” محبت کے عمل میں ہم اکثر بے ہودگی اوربے شرمی پراس لئے اترآتے ہیں کیونکہ یہ ہماراسبجیکٹ نہیں ہے۔ ہماراسبجیکٹ تونفرت ،نفرت ، نفرت اور صرف نفرت ہے۔ ہرملک، ہرمذہب اور ہرقوم سے نفرت ہے۔ نفرت کے جذبات میں گھری ہوئی ایک قوم محبت کرنے کی کوشش کرے گی تواس سے غلطیاں توضرورہوں گی۔ نسلوں تک نفرت کی تعلیم پانے والی اس قوم کے اندرمحبت کے بیج بونایقیناًانتہائی مشکل ہے۔لیکن محبت اورانسان دوستی کاایک عظیم داعی اس صدی میں بھی موجودہے وہ خودسراپامحبت ہیں اورمحبت کادرس دیتے ہیں۔ انہوں نے لوگوں کی سوچ میں تبدیلی لانے کابیڑا اٹھایاہے۔ ان سے جب پوچھاجاتا ہے کہ ہمارے تمام مسائل کاحل کیا ہے توان کاجواب ہوتا ہے۔’’سوچ میں تبدیلی‘‘۔ان کاکہناہے کہ لینے والے مت بنو،دینے والے بن جاؤ۔پی ڈبلیوڈی ،تحصیل ،ڈی سی آفس ،ہسپتال ،زراعت ،تعلیم ،صحت ،فنانس سمیت ہرجگہ لینے کا جورواج ہے اس کوترک کرنے کی وہ تلقین کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ دوسروں کی مددکرناسیکھو۔دوسروں کولوٹنا اورنوچنا بند کرو مذہب کے نام پر،سیاست کے نام پر، کاروبارکے نام پر،کمیشن کے نام اور تحفوں کے نام پرانسانوں کاحق مت مارو،وہ بڑی مختصربات کرتے ہیں لیکن دوٹوک بات کرتے ہیں۔انہوں نے کہاکہ مختلف شعبوں کے ٹھیکیدار مت بنو۔انہوں نے کہاکہ انسانوں سے محبت کرواوران کی مددکرو،پھرکسی چیزکی ضرورت نہیں ۔دنیاکے تمام مسائل حل ہوں گے یہ خوبصورت پیغام لیکروہ پچھلے دنوں گلگت بلتستان بھی پہنچ گئے تھے۔’’جیئے عبدالستار ایدھی‘‘ "۔

گویا ان کی خوبصورتی کے دو ہی راز تھے ایک انسانوں سے محبت اور دوسرا سادہ طرز زندگی۔ آج اگر کوئی بھی حکمران، صحافی، وکیل، جج،شاعر،آرٹسٹ، بیوروکریٹ، استاد، انجینئر، عالم دین، لکھاری، ڈاکٹر، ماڈل، طالب علم، جوان، مرد ، عورت غرض معاشرے کا کوئی بھی رکن اگر خوبصورت بننا چاہتا ہے تو وہ عبدلستار ایدھی کے مذکورہ دو گُر اپنا لے اُس کو کسی دھن دولت، اچھا کھانا، فائیو سٹار ہوٹلز، وسیع وعریض بنگلے ، برانڈڈ سوٹس ، مہنگے ترین کاسمیٹکس اور بیوٹی پالر/ سیلون وغیرہ کی ضرورت پیش نہیں آئے گی بلکہ ان کی شخصیت میں قدرتی حسن آجائے گا ایسا حسن جس پر ملکہ حسن بھی رشک کریگی۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

ایک کمنٹ

Back to top button