تھومشلنگ تہوار
قدیم ادوار میں گلگت بلتستان کے کئی علاقوں میں 21دسمبر کو تھومشلنگ نامی ایک تہوار منایا جاتا تھا اس تہوار کے ابتدا کے بارے میں مشہور ہے کہ گلگت پر ایک ظالم حکمران شری بدت کا دور حکومت تھا اور عوام اس ظالم حکمران سے ناخوش تھے۔
شری بدت کے بارے میں ایک لوک روایت یہ بھی مشہور ہے کہ یہ شیر خوار بچوں کا خراج لیتا تھا لیکن بعض مورخین اسے غلط قرار دیتے ہیں۔
جب شری بدت کی ظلم انتہا کو پہنچی تواسے اسکی بیٹی کی مدد سے قتل کیا گیا۔ کہتے ہیں کہ شری بدت کاموت آگ سے ہی ممکن تھا لہذا ایک بڑا کھڈا کھود کر اس میں آگ رکھا گیا اور کھڈے کے اوپر سرکنڈوں کے چھت بنایا گیا۔ جب شری بدت مطلوبہ جگہ پر پہنچ گیا تو کمزور ہونے کی وجہ سے چھت گرگیا اور شری بدت آگ کے کنوے میں جا گرا۔
کیونکہ یہ ایک پہلے سے تیار شدہ پلان تھا لہذا لوگوں نے اس کے اوپر آگ کے مزید جلتے ہوئے لکڑی ڈالے جسے مقامی لوگ تلینو کہتے ہے۔
جب شری بدت آگ میں جل کر ختم ہوا تو گلگت کے عوام نے خوشیاں منانا شروع کردی۔ یہ ایک ظالم حکمران سے آزادی پانے کا دن تھا۔ اسکے بعد گلگت اور دیگر علاقوں کے لوگوں میں یہ تہوار تھومشلنگ کے نام سے 21 دسمبر کو سالانہ منانے کا رواج قائم ہوا۔
بعض مورخین شری بدت کو ہندو اور اس عظیم ریاست کو بلور یا بروشال کہتے ہیں اور شری بدت کو بروشال یا بلور ریاست کا آخری حکمران قرار دیتے ہیں۔ شری بدت کے قتل کے بعد اس ریاست کا شیرازہ بکھر گیا اور چھوٹے چھوٹے خود مختار ریاستوں کا وجود عمل میں آیا ۔
شری بدت کو قتل کرکے گلگت کے اورنگ شاہی پر قبضہ کرنے والا شخص ایران کے کیانی خاندان کے ایک شہزادہ آزر جمشید تھا جس نے شری بدت کی بیٹی نور بخت سے ملکر شری بدت کو قتل کرایا تھا۔ آزر جمشید کے ساتھ اس کے تین اور ساتھی تھے جن کے نسل آج بھی ہنزہ بشمول گلگت بلتستان پائے جاتے ہیں ان میں آزر جمشید کا سپہ سالار عادل کریم کے نسل داتوسنکژ ریلے رمل کے اولاد شکونوٹنگ اور برچہ کے نسل برچہ تنگ آج بھی کثرت سے پائے جاتے ہیں۔
قدیم لوگوں کو یہ وہم لاحق تھا کہ شری بدت دوبارہ زندہ ہوسکتا ہے اس ظالم حکمران کے خوف لوگوں کے دلوں میں ہمیشہ رہتا تھا اسلئے سالانہ تھومشلگ کے موقعے پر رسم تلینو ادا کرتے تھے۔ ان کے خیال میں رسم تلینوادا کرنے سے شری بدت کے دوبارہ زندہ ہونے کے امکان ختم ہوجاتا تھا۔ اسلام کے آمد کے بعد یہ فرسودہ خیال اب تقریبا ختم ہوچکا ہے۔
یہ تہوار گلگت کے علاوہ ہنزہ میں بھی مخصوص انداز میں منایا جاتا رہا ہے۔ ریاست ہنزہ کے والئی میر آف ہنزہ یہ تہوار اپنے سرپرستی میں منایا کرتا تھا جس میں باقائدہ دربار (موجودہ بلتت قلعہ )کے چتق میں روایتی موسیقی کا پروگرام ہوا کرتا تھا اور اس تہوار کے دن مشترکہ طور پر ایک ہی جگہ نئے جوڑوں کااجتماعی شادی بھی ہوا کرتا تھا۔
تھومشلنگ تہوار کے دن نسالو (یوشیس) جو مقامی لوگ سردیو ں میں خوراک کیلئے ایک مویشی کو پالتے ہے اس دن تما م رشتہ دارجمع ہوکر اس مویشی کو زبح کرتے تھے۔ ہر گھر میں درم نامی میٹھی آٹے سے درم فٹی نامی کھا نا تیار کرتے تھے اور دیسی گھی کے ساتھ تناول فرماتے تھے۔ اگر سوچا جائے تو ان پہاڑوں میں بسنے والے لوگوں کیلئے ایک شخصی حکومت سے آزادی کادن تھا جو پورے روایتی جوش خروش سے منایا جاتا رہا ہے۔
وقت کے ساتھ ساتھ گلگت بلتستان کے اکثر روایتی تہوار ختم ہوتے جارہے ہیں ان تہواروں میں علاقے کے لوک کہانیاں اور ثقافت کے عظیم ورثے پوشیدہ تھے۔ بہت سے لوک روایات سینہ بہ سینہ چلے آرہے ہے۔ بدقسمتی سے گلگت بلتستان کے ان تاریخی اثاثوں پر اب تک کوئی کام نہیں ہوا ہے۔ قراقرم یونیورسٹی اور دیگر ادارے اپنی زمہ داری کا احساس کرتے ہوئے علاقے کے ثقافت اور لوک روایات پر تحقیق کریں ۔
شری بدت کے اس لوک کہانی میں کتنا حقیقت ہے اس سے قطع نظر گلگت بلتستان کے لوگوں کو اب بھی ناانصافی ،تعصبات اور فرقہ واریت کی شکل میں ایک شری بدت کا سامنا ہے۔ اس وقت کے شری بدت کو ہم باہمی اتحاد ، یکجہتی اور امن کے زریعے ختم کرکے ایک پرامن اور ترقیافتہ گلگت بلتستان کا بنیاد رکھ سکتے ہے۔