طلبہ اور سیاست
تحریر حسن میر
ایک طالب علم کی بے شمار ذمہ دایاں اور فرائض ہیں جنہیں پورا کرنا ضروری ہوتا ہے۔ سب سے پہلے اس کی زندگی کا مقصد حصول علم ہے اور اسی کے لیے وہ مکتب کی چاردیواری میں قدم رکھتا ہے۔ یہی علم ایک حیوان نما انسان کو انسان اور انسان کو با خدا انسان بنا دیتا ہے ۔اسی لیے اس کی یہ اولین ذمہ داری ہے کہ وہ جس عظیم مقصد کے لیے سکول ،کالج یا یونیورسٹی میں داخل ہوا ہے اسے با احسن طریقے سے پورا کرے۔
حصول علم ایک پاکیزہ مقصد ہے اور یہ ایک دینی فریضہ بھی ہے۔ اگر کوئی طالب علم یہ چاہتا ہے کہ اسے دور حاضر میں اخلاقی عظمتوں،ذہنی اور سائنسی ترقیوں اور کائنات کے بے کراں وسعتوں کے متعلق معلومات حاصل ہوں تاکہ ان کی روشنی میں اپنی زندگی کا لائحہ عمل طے کر سکے تو اس کے لیے اولین ذمہ داری حصول علم ہے۔
علم ہی میراث انبیا ء ہے اور یہی ہمیں گود سے گور تک ہر آگاہی سے نوازنے کے ساتھ ساتھ ہمارا مرتبہ بلند سے بلند کرتا ہے۔
یہ با ت بھی بڑی اہمیت رکھتی ہے کہ جو لوگ کسی مقصد اور اسکے حصول کے لیے زندگی گزارتے ہیں وہ کھبی ناکام نہیں ہوتے اور جو افراد حقیقی مقصد حیات کو بھول جاتے ہیں نامرادی اور ذلت ان کا مقدر بن جاتی ہیں۔ ان کی حیثیت ایک کٹے ہوئے پتنگ کی مانند ہوتی ہے جسے ہوا کا معمولی سے معمولی جھونکا بھی کسی جانب اڑاکر گرا سکتا ہے۔
دور حاضر میں فساد اور شر اپنے کمال پر ہے آج زندگی کی شاہراہ پر چلنا مشکل ہوگیا ہے۔ کانٹے پھولوں کی طرح خوشنما بنے ہوئے ہیں، رہزن راہنما دیکھائی دیتے ہیں، گویا شیطان نے ہر بری بات کو ہمارے لیے خوبصورت بنا رکھا ہے۔
ایک طالب علم اپنے عمر،تجربے اور علم کے اعتبار سے ناپختہ ہوتا ہے۔ وہ ابھی زیر تربیت ہوتا ہے اس لیے وہ ہر چمکتی چیز کو سونا سمجھ کر دھوکے میں آجاتا ہے اور بیرونی قوتیں اس کی سادگی سے فائدہ اٹھاتی ہیں اور اس کی بامقصد زندگی کی بساط الٹ کر رکھ دیتی ہے۔
ایسے حالات میں طلبہ کو بہت محتاط ہونا ہے کہ وہ بے راہ روی کے ان تمام ذرائع کو پہچانے اور ان سے بچے اور اپنے سامنے یہ واحد معیار رکھیے کہ جو بات اسے کتاب اور قلم سے دور کر رہی ہے وہی اس کے لیے زہر قاتل ہے۔
دوستو! آج سیاست تعلیمی اداروں میں اس قدر داخل ہوگئی ہے کہ یہ ادارے تعلیم گاہ کی بجائے ناپختہ سیاست کے اکھاڈے بن گئے ہیں۔
منشیات نے ہماری درس گاہوں کو چرس گاہیں بنا دیا ہے۔ مختلف النوع سیاسی پارٹیوں نے تعلیمی اداروں کو اپنا مرکز بنا رکھا ہے۔ ہمارے تمام درسگاہوں میں تمام سیاسی پارٹیوں کے اسٹین بنے ہوئے ہیں اور طلبہ گروپ کی صورت میں ان اسٹینوں میں بیٹھ جاتے ہیں۔ ان کا کام کسی اجنبی کو کسی ڈیپارٹمنٹ کی ایڈریس، داخلہ، ڈگری نکلوانے سے متعلق معلومات فراہم کرنا اور اپنا وقت ضائع کرنے کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہیں۔ جن کی وجہ سے انکے کلاسیز اور دوسری تعلیمی سرگرمیاں متاثر ہوجاتی ہیں۔
اگر آپ کو ایک اچھا سیاستدان بننا ہے تو یاد رکھو! اسٹین پر بیٹھ کر لوگوں کو انفارمیشن دینے اور اسٹین پر وقت گزارنے سے نامور سیاستدان یا لیڈر نہیں بنتے بلکہ اپنی کلاسسز لے کر سیاسی مفکرین اور دنیا کے مشہور سیاستدانوں کے سیا سی فلسفے ، تبصرے اور انکے خیالات و نظریات پڑھنے، اپنے اساتذہ کے لکچز سننے اور فارغ وقت اسٹین پر گزارنے کے بجائے لائبریری میں کتابوں کا مطالعہ کرنے سے بن جاتے ہیں۔
درسگاہوں کی ان سیاسی سرگرمیوں کی وجہ سے وہ طلبہ جن کا مقصد محض حصول علم ہوتا ہے وہ بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتے۔ اکثر اوقات دو سیاسی پارٹیوں کا جھگڑا ہونا آج کل معمول کی بات ہے۔ بعض اوقات یہ پھڑے اتنے بڑھ جاتے ہیں کہ کئی دنوں تک درسگاہ بند ہوجاتا ہے اور تعلیمی سرگرمیاں متاثر ہوجاتی ہیں۔ ایسے حالات کی وجہ سے نیوٹرل طلبہ اور ان کے والدین بھی ہر وقت ذہنی دبائو کا شکار رہتے ہیں۔
بعض اوقات طلبہ تنظیموں کے درمیان یہ اختلافات اتنی سنگین نوعیت کے ہوتے ہیں کہ جانیں چلی جاتی ہیں اور بہت سارے طلبہ اس قسم کی اختلافات میں شہید ہوئے ہیں اور حیرت کی بات یہ بھی ہے کہ یونیورسٹیوں میں متعین کردہ پولیس اور رینجرز کی تعداد گنجان آباد اور بڑی بڑی مارکیٹوں سے کہیں زیادہ ہیں۔ اسکے باوجود طلباء تنظیموں کے درمیان اختلافات اور جھگڑوں کی شرح کا بڑھ جانا حیران کن بات ہے اس سے آپ خود اندازہ لگاسکتے ہیں کہ ہم کس سمت جارہے ہیں۔
مختصرا ان سیاسی پارٹیوں سے ان طلباء کے لیے کوئی فائدہ نہیں جن کا مقصد صرف حصول علم ہے شاید ان کے لیے کوئی فائدہ ہو جن کا اولین مقصد حصول علم نہ ہو۔ اگر ان تنظیموں کا مقصد طلباء کے حقوق کی دفاع اور خدمت ہے تو تمام طلباء کا صرف ایک طلباء ونگ ہونا چاہیے تاکہ طلبہ کے آپس کے اختلافات نہیں ہوں اور ایک دوسرے کے مد مقابل صف آرا نہیں ہو۔ مگر یہاں تو ہر سیاسی پارٹی کا ونگ ہے جن کے ذریعے وہ اپنے نظریات کی تشہیر کرتے ہیں۔ اس سے طلبہ کو فائدہ نہیں بلکہ سیاسی پارٹیوں کا فائدہ ہے۔ وہ طلباء کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔
بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے بھی طلبہ سے مخاطب ہوکر یوں فرمایا ’’ آپ تعلیم پر پورا دھیان دیں۔ اپنے آپ کو عمل کے لیے تیار کریں یہ آپ کا پہلا فریضہ ہے۔ آپ کی تعلیم کا ایک حصہ یہ بھی ہے کہ آ پ دور حاضر کی سیاست کا مطالعہ کریں یہ دیکھیں کہ آپ کے گرد دنیا میں کیا ہو رہا ہے۔ ہماری قوم کے لیے تعلیم زندگی اور موت کا مسلہ ہے‘‘۔
درسگاہوں میں طلباء کو صرف سیاست کے علم کا مطالعہ کرنا چاہیے جبکہ عملی سیاست سے انہیں کوسوں دور رہنا چاہیے۔ سیاسی وابستگیوں کی بدولت طلبہ کی زبان جھوٹ ، نگاہ بے باک اور دل بے نیاز ہو گئے ہیں۔ ان کے دل میں نہ ماں باپ کی کوئی عزت ہیں نہ اساتذہ کی کوئی قدر و قیمت اور اس وجہ سے آئے دن اساتذہ کی توہین کے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں۔ وہ طلبہ جو اپنے اساتذہ کا احترام نہیں کرتے ظاہر ہے ان کے سامنے علم جیسی قیمتی دولت کی کوئی قدر نہیں ہے اور اس بے قدری کے نتیجہ میں طالب علم زندگی کے میدان زلیل و خوار ہو رہا ہے اور جب اسے ہوش آتا ہے تب وقت اور سبق دونوں ہی اس کے لیے بیکار ہوجاتے ہیں۔
عزیز طالب علم دوستو!آپ اپنی ذمہ داریوں کا احساس اور ادراک کرتے ہوئے اپنی جملہ صلاحیتوں کو کتاب اور علم تک محدور رکھیں آپ کھیلوں اور غیر نصابی مشاغل کو بے شک اپنائیں مگر اعتدال اور توازن کے ساتھ تاکہ حقیقی مقصد اور حقیقی منزل سے دور نہ ہو جائیں۔ کم تر اور جزوی مقاصد کو اپنے اوپر غالب نہ آنے دیں اسی میں کامیابی و کامرانی کا راز پوشیدہ ہے بقول شاعر
تم ہی سے گلستان کی بجلیوں کو خاص نسبت ہے
بہاریں جانتی ہے رونق محسن چمن تم ہی ہو