ممکنہ دہشتگردی اور افواہیں
آرمی پبلک سکول پشاور کے معصوم طلباء اور اساتذہ کو جس درندگی اوروحشت کے ساتھ موت کی نیند سلادیا گیا وہ یقینا ملکی تاریخ کا ایک سیاہ ترین باب بن چکا ہے ۔ اس سانحہ کے بحدجہاں پاکستانی قوم اپنی جان ومال کے تحفظ کے حوالے سے پریشانی سے دوچار ہے وہی دہشت گرد اور فرقہ ورانہ فسادات کے ستائے گلگت بلتستان کے مظلوم ومحکوم عوام بھی ایک بار بھر خود کو عدم تحفظ کا شکارسمجھنے لگے ہیں۔
اگرچہ دہشتگردی کی اس ناسور سے ملک کا کوئی بھی علاقہ متاثر ہوئے بغیر نہیں رہا ہے تاہم گلگت بلتستان کا شمار ان علاقوں میں ہوتا ہے جہاں کے عوام نے دہشتگردی اور فرقہ ورانہ فسادات کے حوالے سے بہت گہرے زخم کھائے ہیں۔ جن میں خاص طور پرسنہ 1988کی بدترین لشکر کشی اور2012 میں شاہراہ قراقرم پر بے گناہ مسافروں کے ساتھ پیش آنے والے انسانیت سوز واقعات تو نہ چاہتے ہوئے بھی دھرتی کے باسیوں کے زہنوں میں نقش ہوچکے ہیں۔
موبائل فون پر ایس ایم ایس کے زریعے یہ تاثر پھیلانے کی کوشش کی گئی کہ اب تو ہماری شامت آچکی ہے اور اب کی بار ممکنہ دہشتگردی سے علاقے میں کوئی نہیں بچ سکتا وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔
ان سانحات کو اس وقت تک بھلایا نہیں جاسکتا جب تک کہ واقعات میں ملوث افراد اور ان کے پیچھے چھپے ہوئے اصل محرکات کو کیفرکردار تک نہیں پہنچایا جاتا۔ دہشتگردی سے متاثر ہونے اور ممکنہ دہشتگردی کے خوف میں سہمے ہوئے گلگت بلتستان کے لوگوں کی حالت کا اندازہ اس بات سے لگانا قدرے آسان ہے کہ سانحہ پشاور کے بعد کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے ترجمان محمد خراسانی کی جانب سے ملک میں دہشتگردی کے حوالے سے میڈیا کو بیان جاری ہوا، ہمارے لوگوں پر تو قیامت طاری ہوگئی ۔
موبائل فون پر ایس ایم ایس کے زریعے یہ تاثر پھیلانے کی کوشش کی گئی کہ اب تو ہماری شامت آچکی ہے اور اب کی بار ممکنہ دہشتگردی سے علاقے میں کوئی نہیں بچ سکتا وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔
پیر کی صبح سے رات گئے تک میرے موبائل پر درجنوں ایسے ایس ایم ایس موصول ہوئے جو علاقے میں واقع آرمی پبلک سکولوں اور اہم مقامات کو ٹارگیٹ کرنے کی افوہوں پر مشتمل تھی۔ ان پیغامات کے آخر میں ایک ذمہ دار ادارے کا نام دیکر عوام سے موجودہ حالات میں گھروں سے باہر نہ نکلنے اور اپنے بچوں کو سکول نہیں بھجوانے کی اپیل کی گئی تھی۔ میں نے ان افواہوں کی حقیقت جاننے کے لئے مقامی انتظامیہ کے ذمہ داران سے رابطہ کرنے کی بھی ہرممکن کوشش کی لیکن کسی نے بھی فون اٹینڈ کرنے کا زحمت گوارہ نہیں کیا۔ یوں افواہوں کا یہ سلسلہ منگل کے روز بھی جاری وساری رہا۔
شام کو اخبار کے نیوز ڈیسک پر ملک بھرکی تمام خبروں کے ساتھ ایک نجی نیوز ایجنسی کے توسط سے کالعدم تحریک طالبان کے ترجمان کا بیان بھی موصول ہوا جس میں انہوں نے ملک کے کسی بھی کونے میں دہشگردی کی واردات کرنے کی دھمکی تو ضرور دی تھی مگر اس میں گلگت بلتستان کا توکوئی ذکر موجود نہیں تھا۔ہوسکتا ہے محمد خراسانی نے گلگت بلتستان سے تعلق رکھنے کی بنیاد پر اس بار ہمارے لئے کوئی خصوصی رعایت دے رکھی ہو۔
گلگت بلتستان دنیا کی تین عظیم پہاڑی سلسلوں کے دامن میں واقع ہونے اور عالمی منظر نامہ پر ایک منفرد اسٹریٹیجک اہمیت کے حامل ہونے کے سبب ہروقت مختلف قسم کے خطرات سے دوچار رہا ہے۔ ان میں بنیادی آئینی حقوق سے محرومی اور دہشتگردی جیسے واقعات خطے میں پائیدار امن کے قیام اور تعمیروترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ کا باعث بنے ہیں۔
ماضی بعید میں ایک سابق فوجی عامر کی بادشاہت میں گلگت بلتستان کے بنیادی آئینی حقوق کے حوالے سے اٹھنے والی آوازوں کو دبانے کے لئے ایک خاص منصوبے کے تحت خطے میں فرقہ واریت کا بیج بویا گیا جس کی دھرتی کے باسیوں کوگزشتہ دودھائیوں میں بہت بھاری قیمت ادا کرنی پڑی۔ اس سازش کے تحت ایک طرف ایک ہی گھر کے افراد کو ایک دوسرے کا دشمن بنادیا گیا تودوسری طرف بنیادی حقوق کے حوالے سے اٹھنے والی آوازوں کودباکر علاقے کومذید محرومیوں کی طرف دھکیلا گیا جس کا خمیازہ آج تک عوام بھگت رہے ہیں۔
سازش کے تحت علاقے میں دہشتگردی کی وارداتوں کے زریعے راہ چلتے مسافروں، غیر ملکی سیاحوں اور سیکورٹی فورسز کو نشانہ بنانے کا سلسلہ شروع کیا گیا جس کے نتیجے میں سال2012
سالوں بعد خطے کے عوام کوجب نام نہاد فرقہ واریت سے ہونے والی تباہی اور فرقہ ورانہ فسادات کو ہوا دیکر اپنے مذموم مقاصد حاصل کرنے والے عناصر کی سازشوں کا پختہ علم ہوا اور ہرطرف سے ان سازشی عناصر کی حوصلہ شکنی شروع ہوئی تو ایک اور سازش کے تحت علاقے میں دہشتگردی کی وارداتوں کے زریعے راہ چلتے مسافروں، غیر ملکی سیاحوں اور سیکورٹی فورسز کو نشانہ بنانے کا سلسلہ شروع کیا گیا جس کے نتیجے میں سال2012گلگت بلتستان کے عوام پربہت بھاری گزرا۔
شاہراہ قراقرم پر کوہستان اور لولوسر کے مقام پر بسوں سے مسافروں کو اتارکر قتل کرکے ظلم وبربریت کی جس قدرانتہاء کی گئی وہ بھی سانحہ پشاور سے کچھ کم نہ تھا۔ لیکن صد افسوس ان ظالم حکمرانوں کی بے حسی پر جو وقتی طورپر بلندوبانگ دعوئوں کے باوجود ان واقعات کے اصل ملزمان کوکیفرکردار تک پہنچانے میں مکمل طورپر ناکام رہی۔خیر اس وقت گلگت بلتستان میں حکومت ایک ایسی سیاسی جماعت کی تھی جو اپنے ہی قائدین کے قاتلوں کوگرفتارکرنے میں ناکام رہی ہوتو دوسروں کے قتل میں ملوث افراد کو کیا سزا دے سکتی۔
پاکستان پیپلز پارٹی کی سابق صوبائی حکومت سے شکوہ اس لئے بجا ہے کہ اگردہشت گردی کے ان واقعات میں ملوث ملزمان کی گرفتاری عمل میں لانااس کے بس میں نہیں تھا تو بے مقصد دعوے کرکے سادہ لوح عوام کو بے وقوف بنانے کی کیا ضرورت تھی۔حالانکہ سب جانتے تھے کہ دہشتگردی کے ان واقعات میں غیرمقامی شرپسندملوث تھے اوروہ اپنی مذموم کارروائیوں کے بعد علاقے سے فرارہوچکے تھے۔ ایسے میں ملزمان کی فوری گرفتاری عمل میں لانا صوبائی حکومت کے لئے ایک بڑا چیلنج تھا اس کے باوجود حکمرانوں نے بجائے بلند وبانگ دعوئوں کے،چادردیکھ کر پائوں پھیلانے کو غنیمت کیوں نہیں جانی؟ ہاں اگر ان سانحات کے اصل محرکات کو گرفتار کرنے کے حوالے سے سابق صوبائی حکومت کا دعویٰ درست تھا تو عوام کے سامنے وضاحت کیوں نہیں کی گئی کہ ان ملزنان کے ساتھ کیا سلوک کیا گیا اور وہ ابھی کہا ہیں؟انہی سانحات کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی کی مرکزی وصوبائی حکومتوں نے مل کر شاہراہ قراقرم پر مستقبل میں ممکنہ دہشتگردی سے نمٹنے کے لئے ایک خصوصی ٹاسک فورس قائم کرنے کا بھی اعادہ کیاتھا مگر یہ بھی تاحال ایک سیاسی اعلان کی حدتک رہ گیا۔ جیسا کہ وفاقی سطح پرNational Counter Terrorism Authority (نیکٹا) ہے، جسے دہشتگردی سے نمٹنے کی غرض سے تو بنایا گیا مگر ہربار دہشتگردی کے واقعات رونما ہونے کے بعد حکومت کو اس ادارے پرتوجہ دینے کی یاد آجائی۔
پورے ملک کی طرح گلگت بلتستان میں بھی سیکورٹی کی صورتحال میں بہتری لانے کے لئے گلگت بلتستان کی نگران صوبائی حکومت کو درکار وسائل فراہم کرے
یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ گلگت بلتستان میں شاہراہ قراقرم کے توسیعی منصوبے اور متاثرین عطاآباد جھیل کی امداد کے سلسلے میں ہمسایہ ملک چین کی جانب سے بڑھ چڑھ کر حصہ لئے جانے اور پاک چین اقتصادی راہداری سے متعلق دونوں ممالک کے مابین یادداشتوں پر دستخط ہونے سے بھارت سمیت پاکستان مخالف طاقتوں کو شدیددھچکہ لگا ہے۔اب وہ ان منصوبوں کو ناکام بنانے کے لئے دہشتگردی ،انتہاپسندی اور فرقہ واریت کو ہوا دینے پر تلے ہوئے ہیں۔ اس مقصد کے حصول کے لئے آنے والے وقتوں میں گلگت بلتستان بھی ملک دشمن عناصر کے لئے دہشتگردی کی کارروائی کا اگلا ہدف ہوسکتا ہے۔ حالات کے تناظر میں دیکھا جائے تو گلگت بلتستان کے عوام کا خودکو غیرمحفوظ سمجھنا بھی بجا ہے۔ کیونکہ ہم نے دیکھا ہے کہ ماضی قریب میں یہاں پر بھی دہشتگردی کے واقعات رونما ہونے سے قبل نہ صرف افواہیں پھیلائی گئیں بلکہ وفاقی وزارت داخلہ اسلام آباد کی جانب سے ممکنہ دہشتگردی سے متعلق صوبائی حکومت کو پیشگی اطلاعات پر مبنی
مراسلے بھی موصول ہوتے رہے لیکن صوبائی حکومت کی جانب سے اس پر کوئی خاص توجہ نہ دئیے جانے کے باعث عوام کوبعض عظیم سانحات سے گزرنااور اپنی سیکورٹی کے حوالے سے پریشانی سے دوچار ہونا پڑا جوکہ تاحال برقرار ہے۔
کہا جاتا ہے کہ دہشتگردوں کا کوئی دین ایمان نہیں ہوتا اور انہیں نہ اپنی جانوں کی کوئی پرواہ ہوتی ہے نہ دوسروں کی بس اپنے مذموم ایجنڈے کی تکمیل کی خاطر جب چاہے اور جہاں چاہے کارروائی کرسکتے ہیں۔ایسے میں ملکی حالات کا تقاضا ہے کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کی وفاقی حکومت ماضی کے تلخ تجربات سے سبق حاصل کرتے ہوئے پورے ملک کی طرح گلگت بلتستان میں بھی سیکورٹی کی صورتحال میں بہتری لانے کے لئے گلگت بلتستان کی نگران صوبائی حکومت کو درکار وسائل فراہم کرے جبکہ نگران صوبائی حکومت ان وسائل کو استعمال میں لاکر علاقے میں سیکورٹی کے فول پروف انتظامات کو یقینی بنائیں۔کیونکہ ایس ایم ایس کے زریعے افواہیں پھیلانا یا سیاسی اعلانات کرنالوگوں کوکسی بھی ممکنہ دہشتگردی سے محفوظ رکھنے کاکوئی حل نہیں۔