سالِ نَو ۔اُمیّدِ نَو
الواعظ نزار فرمان علی
ٓٓٓابتداء کرتا ہوں اللہ رب العزّت کے بابرکت نام سے جو خالق و رازق اور چارہ گر و کارساز ہے جو اپنے آسمان میں سجے قمقموں کے ذریعے نیک و بد سب کی زندگیوں کو منور کرتاہے ،ہر ایک پر ابر رحمت برساتا ہے،مساواتِ رحمانی کے تقاضوں کے مطابق اپنے خلقت پر بلا امتیاز عمر،رزق اور تسخیر عالم کے یکساں انعامات و نوازشات ناقابل تردید حقیقت ہے۔کریم و بندہ نواز اتنا کہ ہمارے مخفی احوال سے با خبر ہونے کے باوجود سب کے سامنے رسوا نہیں کرتا۔ہمارے چھوٹے بڑے گناہوں کا تو کوئی حساب نہیں لیتا جبکہ ہماری ایک نیکی کو دس گنا بڑھا کراجر عنایت کرتا ہے۔اس کے جودوسخا کی ایک نرالی صورت یہ کہ رات کو حالتِ خواب(نیم مردگی)سے بخیرو عافیت نئی صبح عنایت کرتاہے۔رافع الدّرجات،صاحبِ ذوالجلال ہماری کوتاہیوں،نافرمانی و ناشکری کے باوجود ہر روزمسائلِ حیات پر ازسرنوغور کرنے اور اصلاحِ حیات کا سنہرا موقع بخشتا ہے۔جیسا کہ سورۂ رحمن میں ارشاد خداوندی ہے’’ اور تم اپنے پروردگار کی کن کن نعمتوں کوجھٹلاؤ گے‘‘۔سالِ نَوپرآپ سب کو بہت بہت مبارکباد،میری عاجزانہ دعا ہے کہ خدائے بزرگ وبرتر اپنے عظمت وجلال اوراپنے پیارے حبیب سرورکونین و خاتم النبینﷺ، کی عصمت و فضیلت کے صدقے سے نیا سال رحمتوں، برکتوں ، پیار و محبت ، ایثار و قربانی، تعمیر ، ترقی و خوشحالی کا سال ثابت ہو، ڈوبتے ہوؤں کو سہارا مل جائے، بھٹکے ہوؤں کو راہِ منزل ملے، بے بہرہ لوگوں کو حقیقی سمجھ نصیب ہو ، ظالموں کو ظلم سے اور مظلوموں کو کسمپرسی سے چھٹکارا حاصل ہو۔ جو نفوس قضائے الہی سے بچھڑ گئے ہیں اللہ انہیں غریقِ رحمت فرمائے، دشمنی دوستی میں اور عداوت ،ہمدردی میں بدل جائے، تنگدستی کشادگی رزق میں ، بیماری حقیقی صحت میں ، غفلت و نادانی علم و آگاہی میں ڈھل جائے، فقط دوست اپنوں ہی کے کا م نہ آئے بلکہ ہم سے اجنبی اور غیروں کو بھی راحت نصیب ہو ،دین ،ملک اور سماج دشمن عناصر سے ساری دنیا کو امان عطا ہو،ان کا قلع قمع ہو،ان سے متاثرہ لوگوں کو صبر، شکر اور راہ حق پر استقامت ملے اور معصوم شہداء کی ارواح کو بلند درجہ عطا عنایت ہو۔خدا وندِ متعال نیا سال عالم انسانیت،امت اور اہل وطن کیلئے سلامتی،خوشی،ترقی اور کامرانیوں کا سال کے طورپرقبول فرمائے۔(آمین )
دائرہ معارف کے حوالوں سے،سال و ہ مدت جوکرہ ارض کو سورج کے گرد چکر لگانے کیلئے درکار ہوتی ہے جنتری میں سال ۳۶۵دن کا ہوتا ہے،سن یا سمت کا شمار کسی اہم تاریخی واقع سے کیا جاتاہے۔ایرانی بادشاہوں میں ساسانی دور تک کسی تاجدار کی مسند نشینی کے دن سے نئے سن کا آغازہوتا۔بکرمی سن راجہ بکر ماجیت سنگھ کی ساکھا قوم پر فتح حاصل کی یاد میں شروع کیا گیاتھا۔حضرت عیسٰی ؑ کی پیدائش کے دن سے سن عیسوی کی ابتداء جبکہ یہودی سن۳۷۰۰ قبل از مسیح سے شروع ہوتا ہے،اسلامی کیلنڈر رسول اکرمﷺ کو کفار مکہ کے ظلم وجور پر اللہ کے حکم سے جس دن آپ ﷺ ہجرت کرکے مدینہ تشریف لائے اس دن ’’یکم محرم‘‘ سے سن ہجری کا آغاز ہوتا ہے۔یکم جنوری عالم سطح پر نئے سال کے طور پر بڑے جوش وخروش سے منایا جاتا ہے،اس موقع پر دنیا کے مختلف ممالک میں سرکاری تعطیل ہوتا ہے۔بلاشبہ ایسی گھڑیاں افراد ،معاشروں اورتہذیبوں میں باہم ربط و تعلق قائم کرنے،ایک دوسرے کو بہترطورپر جاننے اور سمجھنے ،مشترکہ مسائل وچیلنجز کوباہم نبرد آزما ہونے اور ایک دوسرے کی خوبیوں اور خوشیوں میں شامل ہونے کا موقع فراہم کرتے ہیں۔
رات و دن ، ماہ و سال اور زمان و مکاں میں تغیر قانونِ فطرت کا حصہ ہے جسے کلام پاک میں اللہ تعالیٰ اپنی عظیم نشانیاں قرار دیتا ہے، اور کیوں نہ ہو ہر گزرنے والا لمحہ سیکنڈ، منٹ، گھنٹہ ، دن و ہفتہ ماہ و سال، عشرہ و صدیاں وغیرہ گردشِ لیل و نہار کے باعث وقوع پذیر ہوتی ہیں جس کے پیچھے سورج ، چاند ، سیاروں و ستاروں کی مقررہ معیار و مدار کے مطابق مسلسل و منظم حرکت، کار فرما ہوتی ہے جو تخلیق کائنات سے لے کر آج تک بڑے حیرت انگیز و بطریقِ احسن غیر منقطع طور پر جاری و ساری ہے اور بلا شبہ اس پائیدار نظامِ دنیا پر خالقِ ازل و ابد کا نظمِ قضاء و قد ر قطعی طور پر نافذ ہے۔ \” سورج کی مجال ہے کہ وہ چاند کو جا پکڑے اور نہ رات دن سے پہلے آ سکتی ہے اور یہ سب ایک ایک کر کے دائرے میں تیر رہے ہیں\” (القرآن)
قوانینِ کائنات دراصل فطرت اللہ و سنت الہٰی کے پابند ہیں۔جنکے مظاہر زمان و مکان میں نظر آتے ہیں اور انہی پیمانوں میں ہماری زندگی ماضی،حال اور مستقبل کے آئینے میں جلوہ گر ہوتی ہے۔زمان ومکان کی حد بندیوں کے باوجود پروردگار نے اس ا عجوبہ قدرت میں انسان کو مرکزی حیثیت عطا فرمائی ، ہمیں احسن تقویم پر پیدا کیا،سمع،بصرو افئدہ(حواس )کو عقل و اختیار سے آراستہ وپیراستہ کیا اور اپنا نائب و ،مسجود و ملائک بنا کر ساری انسانیت کو نوید سنا دی کہ جو بندہ میری ہدایت پر نیک نیتی،سچے ایمان و عملِ صالح کی روشنی میں آفاق و انفس میں جستجوئے حقیقت کرتا رہے گا تومیں اُسے کائنات سے بھی ماوراء کردوں گا۔خدا اپنی سنت کے متعلق ارشاد فرماتا ہے جسکا ترجمہ یہ ہے ’’ ہر روز ہماری ایک نئی شان ہوتی ہے‘‘۔(القرآن، سور ہ رحمن)بلاشبہ شانِ ایزدی کی جھلک زمین و آسمان اور زمان ومکان میں ہر آن گوناگون پُرحکمت صورتوں میں نظر آتی ہیں جسکی ایک اہم وضاحت آنحضرت ﷺکی حدیث مبارکہ سے بخوبی ہوتی ہے جس کے مطابق مومن کے دو دن ایک جیسے نہیں ہوتے یعنی کل سے آج اور آج سے آنے والا کل بہتر ہوتا ہے۔علامہ اقبال بھی ا س جانب اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔
ہر لحظہ ہے مومن کی نئی شان نئی آن
گفتار میں کردار میں اللہ کی برہان
گو یامحنت کا نتیجہ کامیابی ہے، نیکی کا انعام خوشی،بدی کا انجام رنج، عدل کا امن،مساوات کاخوشحالی،محبت کادوستی،عاجزی و انکساری کا بزرگی اورجستجوو جہد مسلسل کا ثمر خود انحصاری و خودمختاری ہے۔یہ وہ مسلمّہ قوانین ہیں جو مسلم و غیر مسلم ،اہل مشرق و مغرب،مرد و زن اور چھوٹے بڑے سب پر یکساں طور پر لاگو ہوتے ہیں جو انہیں تسلیم کرتا ہے دنیا پہ راج کرتا ہے اور جو ان سے انحراف کا راستہ اختیار کرتا ہے وہ حیاتیاتی اعتبار سے زندہ ہوتے ہوئے بھی اخلاقی و تمدنی لحاظ سے موت کا شکار ہو جاتا ہے۔انہی بنیادوں پر اقوام عالم کے ساتھ مسابقت اور survival of the fittest یعنی زندہ رہنے اور بقاء کی جنگ کے تقاضوں کے مطابق خود کفالت و خود انحصاری پر گامزن رہتے ہوئے صارفین علم و دانش سے بڑھ کر موجدینِ علم ودانش، لینے والے ہاتھ کی بجائے دینے والے ہاتھ بن سکتے ہیں۔
الحمدُللہ آج جبکہ سن2014ء اپنے اختتام کو پہنچ چکا اور سن2015ء کا آغاز ہوگیا ہے یہ ہمیں شاندارموقع فراہم کرتا ہے کہ اپنے ماضی کے اعمال و افعال کا کڑامحاسبہ کریں اور آئندہ وقتوں کے لئے جامع اور مربوط حکمت عملی تشکیل دیں۔ہم یہ جاننے کی کوشش کریں کہ کیا کھویا اور کیا پایا اور کیوں کھویا اور کیسے پایا یعنی جو کھویا اُسے دوبارہ حاصل کرنے اور جو پاچکے ہیں اُسے سنبھالنے کیلئے موئثر تدبیر ترتیب دیں۔ ہم یہ دیکھنے کی کوشش کریں کہ جو فرائض ہم پہلے انجام نہ دے سکے انہیں آئندہ وقتوں میں اور جو غلطیاں ہم سے سر زد ہوئی ہیں ان کاازالہ اس سال یعنی آج سے کر نے اور اپنی خوشیوں میں بلاتفریق دوسروں کو بھی شامل کرنے کا تہیہ کریں ،ہمیں دوسروں پر انگلی اُٹھانے کی بجائے اپنے گریبان میں جھانکنے کی جرات کرنا ہوگی اگر خدانخواستہ ہم میں سے کسی میں بھی گدھ کی طرح دوسروں کی کردار کشی،چیونٹی اور بطخ کی طرح حرص وطمع،کوّے سی حرام خوری،مور جیسا غرور اور کتے نما مردم آزاری،چوہے کی مانند چوری اور بھیڑیے کی طرح اپنے جیسے انسانوں کی چیر پھاڑ ،تخریبی عزائم جیسی اخلاقِ ر ذیلہ کا خاتمہ کرکے اسلامی اخلاقِ حمیدہ،اخلاقِ اللہ پیدا کریں۔آج ہم میں سے ہر ایک کو، سیاست دان وافسر شاہی ، تاجر و ٹھیکیدار،مذہبی رہنماء و منصفِ قانون ، نجی و غیر سرکاری تنظیمیں،اساتذہ والدین اورطلبہ الغرض بحیثیت مجموعی ہم سب اپنی اپنی جگہوں پر اپنی ترجیحات کو بہتر بنائیں،خوف خدا اور خدا ترسی کو ہمیشہ پیش نظررکھیں،دوسرے کیاکرتے ہیں اس میں الجھنے کی بجائے ہم اپنے معاملات کودرست رکھیں اور اپنے پیارے ملک،ملت اور علاقے کے مفاد کو اپنے ذاتی مفادات پر مقدم رکھتے ہوئے پوری لیاقت ،دیانت اورغیر جانب داری سے آخری دم تک کوشاں رہینگے تو انشاء اللہ یہ نیا سال اٹھارہ کروڑ عوام کے لئے امن،سلامتی،بھائی چارہ ، ترقی اور سربلندی کا سال ہوگا۔
(آمین یارب العالمین)