نیا سال
دنیا کے کئی ممالک میں نئے سال کی آمد پر جشن کا سماں ہے،چراغان ہے،موج میلے ہیں،ناچ گانے ہیں۔مبارک بادیاں ہیں نیک تمنائیں اور دعائیں ہیں۔وطن عزیز میں ایسا ہی کچھ ہے۔آخری پہر،آخری شام،آخری سورج ،آخری رات وغیرہ کا ذکر ہے۔پروگرامات ہیں،گذرے سال پر تبصیرے ہیں،کامیابیوں اور ناکامیوں پر روشنی ڈالی جاتی ہے رات روشن ہیں بعض سرپھیرے آخری لمحات میں خوشیوں کے نام پہ ہلاگلا مچاتے ہیں۔لکھنے والے گذرے سال پر تبصیرے کرتے ہیں۔آنے والے سال پر سیر حاصل بحث کرتے ہیں۔ان بحثوں میں خدشات،آس وپاس کے ملے جلے جذبات ہوتے ہیں۔بہرحال زندہ قومیں بیدار ہوا کرتی ہیں۔ان کے پاس تجربات ہوتے ہیں۔عزم ہمت اور جان فشانی ہوتی ہیں اس لئے دور کے تقاضوں کو چیلنج سمجھ کر اس دور میں داخل ہوتی ہیں۔اسی وجہ سے دور ان کا ہوتا ہے۔وقت ان کا ہوتا ہے،زمانہ ان کا ہوتا ہے۔ہم الحمد اللہ مسلمان ہیں۔امت مسلمہ کے لئے سالوں،عمروں اور مہینوں کی اہمیت نہیں ہوتی۔ان کے نزدیک لمحوں کی اہمیت ہوتی ہے۔وہ لمحہ موجود کو اللہ کی طرف سے ودیعت سمجھ کر اس کو کام میں لاتے ہیں وہ اس کو ضائع نہیں کرتے۔اسلام میں غیرت ،جانفشانی اور حرکت کی تعلیم ہے صبح کے اُٹھنے سے لے کرشام کے سونے تک کسی بھی لمحہ غفلت کا تصور نہیں،امت کی جس انداز سے تربیت ہوئی وہ عیاں ہے۔تپتی دھوپ میں گرم ریت پر لیٹنے والے ،پیٹ پر پتھر باندھنے والے،جڑی بوٹیاں کھاکر گذارا کرنے والے ،صحراؤں کو اپنے خون سے رنگین کرنے والے اسی امت کے افراد تھے۔اور یہی چٹان قوم دنیا کو فتح کرگئی۔ملک خداداد کے لئے قربانی اسی نہج پہ ہوئی تھی۔قائداعظم محمد علی جناح نے اپنے ساتھیوں سمیت کسی سال،مہینے کا،دن کا انتظار نہیں کیا۔مسلسل محنت کی اسلئے ہمارے لئے ہر نیا آنے والا لمحہ نیا ہے چیلنج ایبل ہے۔ایک پکار ہے ایک دعوت ہے۔ہماری زندگیاں موج مستیوں کے لئے نہیں ہیں۔یہ ان کے لئے ایسی ہیں جن کی کوئی دوسری منزل نہیں وہ زندگی کو’’دودن‘‘کہتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس کو ہنس کر گذاردو۔ہم کہتے ہیں کہ اگر یہ’’دودن‘‘کی ہے تو دودن کی ہنسی کیا ہنسی ہوگی۔اس لئے نہ اس کو ہنس ہنس کے تباہ کرو نہ رو رو کے برباد کرو۔اس کو کام میں لاؤ جتنا ہوسکے اس سے فائدہ اُٹھاؤ ہنسنے کے موقع پر خوب ہنسو مگر رونے کے موقع پر رولو۔زندگی دینے والے نے کم ہنستے اور زیادہ رونے کو کہا ہے۔ہم لمحوں کی حفاظت نہیں کرتے اس لئے گذرے ہوئے لمحات پر افسوس کرنا پڑتا ہے۔ہم ہمت ہارنے والی قوم نہیں ہیں ہم دوسروں پر رعب ڈالنے والی قوم ہیں۔محمد مصطفےؐ کے مبارک گھر میں شاید کھانے کو کچھ نہ ہوتا مگر گھر سے باہر اعلیٰ قسم کا تر وتازہ گھوڑا کھڑا رہتا۔تلواریں گھر کے اندر کھونٹی سے لٹکتی رہتیں۔آج یہی تلوار ٹیکنالوجی کی صورت میں ہے۔آج اسی ٹیکنالوجی کے بل بوتے پر دنیا کی قومیں ہم پر مسلط ہونے کی جستجو میں ہیں اغیار نے اپنا چین قربان کرکے ان لمحات سے فائدہ اٹھاکر اتنے آگے گئے کہ ہم ان کے منہ تک رہے ہیں۔اگر ہم نئے دور کے تقاضوں میں داخل ہوبھی رہے ہیں تو خالی ہاتھ ہورہے ہیں۔دوسروں پر انحصار اور کشکول لئے داخل ہورہے ہیں۔بے شک 2014ء ہمیں آنسو دے گیا۔مگر مجھے بتاؤ کہ کیا دنیا کی زندہ قوموں پر ازمائشیں نہیں آتیں۔کیا ازمائش کی گھڑیوں میں وہ رودھو کے بیٹھ جاتی ہیں۔ایسا نہیں ہوتا وہ مزید مضبوط ہوتی ہیں۔وہ سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جاتی ہیں۔وہ ڈوب کر ابھرتی ہیں اور اپنا مقام بنالیتی ہیں۔خون کی قربانی کی اہمیت ہم سے زیادہ کوئی نہیں جانتی ۔ہماری موت ہماری زندگی سے خوبصورت ہوا کرتی ہے۔اس لئے انشاء اللہ آنے والا سال ملک خداداد کو چٹان بنانے کا سال ہوگا۔دنیا کوماننا پڑے گا کہ پاکستان کی حفاظت خدا کررہا ہے اس کو نقصان پہنچانے کا کوئی تصور بھی نہیں کرسکتا۔