کالمز

شناخت کا مسلہ اور ہماری بے حسی

نہیں معلوم کیا وجہ ہے جب کبھی قومی مسائل پرلکھنے کیلئے قلم اُٹھاتا ہوں تو دل میں ایک خوف ساپیدا ہوتا ہے کہ کہیں لوگ بُرا نہ سمجھیں اور کہیں،لوگ مجھ سے بدگمان نہ ہوجائیں،کہیں کسی ملک کا ایجنٹ یا فرقہ پرستی کا الزام نہ لگ جائے۔ پھر اچانک ایک نامعلوم شاعر کا شعر میرے ذہن میں بڑے ہی سُریلے اندازمیں گنگناتے ہیں، یہاں ہر شخص عالم ہے یہاں ہر شخص دانا ہے،،قلم تو نے ہی لکھنا ہے کہاں کس کا ٹھکانا ہے۔اس شعر کوگنگانے سے تمام خوف ختم ہوجاتے ہیں ایک قومی جذبہ رگوں میں دوڑنے لگتا ہے چاروں طرف کی مایوسی اور معاشرتی مسائل میں گرے در اور دیواریں بلتی اور گلگتی لہجے میں اردو کے الفاظ چُن چُن کر میرے حوالے کرتے ہیں اور میں بھی اُسی انداز میں لفظوں کو جوڑ کے ایک مضمون کی شکل میں ارباب اختیار تک پونچانے کی ادانی سی کوشش کرتا ہوں۔لہذا گرائمر کی غلطیوں اور الفاظ کے چناو میں تسلسل نہ ہونے پر ہمیشہ کی طرح اس بار بھی قارئین سے معذرت خواہہیں۔

Sher Ali Anjum آج کا موضوع گفتگو بھی وہی پرانی کہانی ہے جو لوگوں کو پسند نہیں آتے لیکن بار بار لکھنا بھی ضروری ہے کیونکہ آج نہیں تو کل کسی نے تو محسوس کرنا ہے کہ ہم کون ہے ہماری شناخت کیا ہے ہمیں گزشتہ نصف صدی سے دھوکے میں کیوں رکھا ہوا ہے ؟۔ مضمون کے ابتدائی حصے میں ہم بات کریں گے کہ ہمارے ہاں سال میں دو بار جشن آزادی منانے کا ماجرا کیا ہے کیونکہ ستاسٹھ سال بیت گئے لیکن آج بھی ہم دودفعہ جشن آذادی مناتے چلے آرہے ہیں حالانکہ دنیا کا دستور ہے کہ جب کوئی ملک یا خطہ آذاد ہوتے ہیں تو سال میں ایک ہی بار یوم آذادی مناتے ہیں اور یہ دن منانا زندہ قوموں کی علامت سمجھی جاتی ہے۔لیکن کہتے ہیں یہ ہماری مجبوری ہے کیونکہ نہیں منانے کی صورت میں بیورکریسی غداری کا سٹمپ سیاہی لگا کر تیارکھڑے ہوتے ہیں اس مہر کے لگنے کے بعدکیا کچھ برداشت پڑتا ہے کوئی سید حیدر شاہ رضوی سے پوچھئیے جو آجکل کراچی کے نجی ہسپتال میں بسرمرگ پر موت اور حیات کی جنگ لڑ رہے ہیں۔بدقسمتی کی بات ہے کہ ہمارے ہاں حُب الوطنی تولنے کا پیمانہ آج بھی غیروں کے ہاتھ میں نظر آتا ہے جنکا ایک ہی نعرہ ہوتا ہے خاموش بس خاموش ،ذاتی حیثیت سے میں نے آج تک دانستہ اور نادانسہ طور پر بھی ایسا کوئی کام نہیں کیا کہ لوگ مجھ پر شک کرے لہذا مجھے یقین ہے کہ میں محب وطن ہوں لیکن کونسے ملک کا ؟جس کے زیر انظام ہیں یا اُس ریاست کا جو آج بھی اس دھرتی کے دعوے دار ہیں یا اُس ریاست کا جو قائم ہونے کے صرف پندرہ دن بعد سازش کا شکار ہوا تھا؟؟ مجھے خوشی اس بات پر ہوگی کہ مجھ سمیت ہمارے بیس لاکھ عوام بھی مملکت پاکستان کا محب وطن شہری کہلائے کیونکہ ہماری قربانیاں تو ہم پہلے ہی آئینی صوبوں سے بڑھ ہیں. ل

یکن کیا کروں جب کبھی ہمارے لوگ حقوق کی بات کرتے ہیں تو وفاقی نمائندے آئین پاکستان دکھا دکھا کر ہماری اوقات بتاتے ہیں جوکہ میرے رونے کا مقام نہیں تو کیا ہے ۔ یا اگر میں خود مختار کشمیر کا نعرہ لگاوں تو میں جنگ آذادی کے غازیوں اور شہیدوں کو کیا جواب دوں؟ جنکی بے پناہ قربانیوں سے ہمیں ماضی میں آذادی نصیب ہوئی۔پریشانی کے اس عالم میں میرے ضمیر کا ایک سوال تاریخ دانوں، مصنفوں اور حکومت وقت سے ہے کہ خدارا گلگت بلتستان کا پاکستان کے ساتھ الحاق کرنے کا وہ دستاویز کہیں سے دھونڈ کردکھائیں یا فریقین کے مابین معاہدہ کرنے والے لوگوں کو منظر عام پر لائیں تاکہ میں پاکستان سرکار کو کہہ سکوں کہ ہم نے اس معاہدے کے تحت آپ سے الحاق کیا تھا لہذا میری حُب الوطنی کو قبول کیجئے۔ لیکن کیا کروں وہ بھی کہیں مل نہیں پاتے نہ کسی کے پاس کوئی ثبوت یا گواہ ہے جس کی بناء پر ہم پاکستانی شہری ہونے کا دعویٰ کرسکے اوراگر واقعی میں پاکستان کے ساتھ الحاق کیا تھا تو یہ کشمیری حکمران کس کھاتے میں گریٹر کشمیر کا نعرہ لگا کر گریٹ گلگت بلتستان پر قبضہ جمانے کیباتیں کرتے ہیں؟ اور ایک الحاق شدہ صوبے کو کشمیر منسٹری کے ساتھ کیوں باندھا گیا ہے؟کچھ سمجھ نہیں آتا بس الجھن ہی الجھن ہے۔ اوریہ انڈیا والوں کو کیا کہوں جو منطق پیش کرتے ہیں کہیہ خطہ چونکہ ماضی میں جموں کشمیر کا حصہ تھا اور تقسیم کے بعد مہاراجہ کشمیر نے بھارت کے ساتھ الحاق کیا لہذا جموں کشمیر سے ماضی کے رشتے کی وجہ سے یہ خطہ ہمارا ہے ۔یہ سب کیوں ہوا لہذا ایک اور شعر اس حوالے سے کچھ اسطرح ہے، میری اپنی صفوں میں بھی بہت سے میر جعفرہیں،قلم اب وقت آن پونچا مجھے خود کو جگانا ہے۔ جی ہاں سب سے پہلے ہمارے اندر کے میر جعفر اور میر صادق کو پہچانے ہونگے جو ذاتی مفاد کیلئے مذہب مسلک اور علاقائیت کے سہارے ممبر بن کریہاں کے وسائل کو غیروں کے ساتھ ملکر لوٹ رہے ہیں مگر باشندگان کو تین وقت کی روٹی میسر نہیں۔ایک اور وجہ ہمارے معاشرے میں معیار کی کوئی حیثیت نہیں بس مرکز اور وفاق میں اسررسوخ رکھنے والوں کو ہی سیاست دان اور لیڈر سمجھتے ہیں لیکن تاریخ اور حقائق ، بین الاقوامی قوانین کو مدنظر رکھ کر خطے کی بہتر مستقبل کیلئے بات کرنے والے غدار کہلاتے ہیں جو معاشرتی تربیت کا نتیجہ ہے،اب تربیت بھی کون کرے کیونکہ ہمارے جس طرح حکمرانی کیلئے معیار نہیں بلکل یہی مسلہ صحافت کا بھی ہے۔ ایک شخص بیک وقت صحافی،ٹی وی رپورٹر،کیمرہ مین ،سرکاری ملازم،آر جے،ڈی جے،سوشل ورکر،فلاحی اداروں کے مالک ،یعنی اس شعبے میں بھی موقع پرستی کے علاوہ قواعد و ضوابط،صحافتی اصول،اور کوڈ آف ایتھکس کہیں نظر نہیں آتا۔ میڈیا کے بارے میں عام طور پر کہا جاتا ہے کہ یہ ریاست کا چوتھا ستون ہوتا ہے لیکن ہم کس میڈیا کی بات کریں ایک جو پرنٹ میڈیا خطے میں اجراء ہوتی ہے ان میں بھی کئی ایسے ہیں جوپڑوس کے جھگڑوں پر تو بڑا واویلا مچاتے ہیں لیکن گھر میں لگی آگ کو، بھوک اور افلاس کو، تعلیمی اور طبی مسائل کو نظرانداز کر جاتے ہیں۔پاکستانی میڈیا تو ہماری رسائی ہی نہیں جہاں گلگت بلتستان کے قومی مسائل پر گفتگو ہو۔ حالانکہ جن مسائل سے ملک کے باقی آئینی صوبے دوچار ہیں اُس سے کہیں ذیادہ اس غیرآئینی صوبے کے عوام کو مسائل کا سامنا ہے جو مسلہ پلوچستان کا ہے اُس سے بھی گھمبیر گلگت بلتستان کا مسلہ ہے فرق اتنا ہے کہ وہاں لوگ اسلحے کی نوک پر بات بات منواتے ہیں یہاں پروزیر اعلیٰ بھی ایک عام پریس رپورٹر سے جناب عالی کہہ کر مخاطب ہوتے فرق صرف اور صرف سوچ اور قومی شعور کا ہے ۔آخر میں اس دعا کے ساتھ گفتگو تمام کرتا ہوں کہ اللہ ہم سب کو معاشرتی مسائل کو حل کرنے حوالے سے مثبت کرادار ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمارے سیاست دانوں میں قومی شعور پیدا کرے۔ آمین

آپ کی رائے

comments

شیر علی انجم

شیر علی بلتستان سے تعلق رکھنے والے ایک زود نویس لکھاری ہیں۔ سیاست اور سماج پر مختلف اخبارات اور آن لائین نیوز پورٹلز کے لئے لکھتے ہیں۔

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button