چترال

سابق یونین کونسل ناظم بلبل خان ایوبی کے اغوء کار گرفتارنہ ہو سکے

چترال(نامہ نگار) سابق ناظم یونین کوشت بلبل خان آیوبی کہنا ہے کہ اسے پچھلے سال بہار کے موسم میں اس وقت درگئی سے اغواء کیا تھا جب وہ چترال سے پشاور جارہا تھا۔اس وقت رات دس بجے درگئی کے ایک ہوٹل میں جب کوسٹر کھانا کھانے کیلئے رک گیا تو ایک موٹر کار میں اسلحہ بردار اغواء کار آئے اور انہوں نے میرا پوچھا۔ ایوبی کا کہنا ہے کہ میرے ساتھ ایک اور چترالی بھی گیا تھا جو اس مقصد کیلئے میرے ساتھ یہاں سے گیا تھا اس نے میری نشاندہی کی اور ان لوگوں نے مجھے اغواء کیا۔

بلبل خان آیوبی کا کہنا ہے کہ میرے اغواء میں تھانہ چترال کا ایک پولیس اہلکار بھی ملوث تھا اور جب مجھے علاقہ غیر میں لے جایا گیا تو میرے ساتھ ایک اور ساتھی بھی تھا ۔ مجھ سے تین لاکھ ستر ہزار روپے لئے گئے اور مزید سات لاکھ روپے کا مطالبہ کیا گیا۔ ان کا کہنا ہے کہ میں نے اغواء کاروں سے کہا کہ میرے ساتھی کو چھوڑا جائے تاکہ یہ جاکر میرے گھر والوں کو اطلاع دے اور وہ رقم کی بندوبست کرے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ اغواء برائے تاوان کا جو رقم ادا کی گئی وہ بھی چترال تھانہ کے یک اہلکار کے ہاتھ ادا ہوئی اور اس واردات میں استعمال ہونے والی گاڑی بھی پولیس اہلکار کے قبضہ سے برآمد کی گئی۔

ان کے اہل حانہ نے کہا کہ جب ہمیں پتہ چلا کہ بلبل ایوبی کو اغواء کیا گیا تو ہم پر قیامت ٹوٹ پڑی۔ بلبل خان آیوبی کا کہنا ہے کہ اس نے ایک ہفتے تک تھانہ کا چکر لگائے مگر پولیس اغو اء کاروں اور اپنے اہل کار کے حلاف رپورٹ درج کرنے کو تیار نہیں تھے۔ اس کے بعد اس نے عدالت سے رجوع کیا اور عدالت نے پولیس کو رپورٹ درج کرنے کی ہدایت کی۔

اس سلسلے میں اس وقت ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر غلام حسین سے رابطہ کر کے پوچھا گیا تھا اس نے بتایا کہ بلبل خان کا اپنا بھائی بھی تھانہ چترال میں محرر ہے اور اس نے کسی پولیس اہلکار کا اس اغوء برائے تاوان کیس میں ملوث ہونے کا تردید کیا تھا۔ تاہم بلبل خان ایوبی کا کہنا ہے کہ پویس اپنے سٹاف بچانے کیلئے یہ حربے استعمال کر رہے ہیں اور اس کے پاس ثبوت بھی موجود ہیں کہ تھانہ چترال کے ایک اہلکار اس کیس میں برابر کا شریک تھا۔ان کے اہل حانہ نے چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ اور چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان سے اپیل کی ہے کہ ان کے والد کے اغواء میں ملوث پولیس اہلکاروں کے ساتھ ساتھ دوسرے لوگوں کو بھی گرفتار کروانے اور ان کو سزا دینے کیلئے فوری کاروائی کرے کیونکہ انگریزی کا مقولہ ہے کہ انصاف میں اگر تاحیر کی جائے تو اس کا مطلب ہے کہ انصاف سے انکار کیا گیا۔

بلبل خان ایوبی کے قریبی رشتہ داروں کا کہنا ہے کہ اس کیس کے بعد نہ صرف بلبل خان بلکہ اس کے بچے بھی شدید ذہنی دبائی کے شکار ہیں اور وہ لوگ ہر وقت خود کو حطرے میں محسوس کرتے ہیں۔ علاقے کے لوگوں کا کہنا ہے کہ بلبل خان ایک سماجی کارکن کی حیثیت سے علاقے بھر میں بہت مقبول ہے مگر اس کے ساتھ پولیس کا یہ رویہ نہایت قابل مذمت ہے۔

بلبل خان ایوبی اور اس کے اہل حانہ نے ہمارے نمائندے کو انٹرویو میں بالکل واضح کیا تھا کہ اس کیس میں پولیس اہلکار باقاعدہ ملوث ہے مگر دوسرے پولیس ان کی حمایت کرتے ہیں اور ان کو بچانے کی کوشش کرتے ہیں۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button