گلگت بلتستان میں ’’ون مین شو‘‘
بظاہر2 دسمبر2014 کو نگران حکومت عمل میں لائی گئی لیکن عملاً تین ہفتے سے زائد کا عرصہ گزر جانے کے باوجود گلگت بلتستان میں نگران حکومت نہیں بلکہ’’ ون مین شو‘‘ والا نظام چل رہا ہے۔ یہ نظام آمریت میں تو قبول کیا جا سکتا ہے مگر جمہوری معاشروں کیلئے اس طرح کا نظام کسی قیمت پر بھی قابل قبول نہیں ہو سکتا ۔
نگران حکومت ایک مخصوص اور انتہائی محدود مدت کیلئے قائم کی جاتی ہے جس کا کام بروقت اور شفاف انتخابات کی تیاری میں الیکشن کمیشن کی معاونت اور مجموعی صورتحال کی نگرانی کرنا ہو تا ہے۔ بہتر یہ ہوتا حکومتی معاملات کو چلانے کے حوالے سے درپیش مسائل سے بچنے کے لئے نگران وزیر اعلیٰ کی تقرری کے فوراً بعد ہی نگران کابینہ کے ارکان کے ناموں کا بھی اعلان کیا جا تا۔ بد قسمتی سے گلگت بلتستان کے ساتھ اس معاملے میں بھی وفا ق کی جانب سے حسب معمول انتہائی غیر سنجیدگی اور تاخیری حربے سے کام لئے جانے پر علاقائی سطح پر اس وقت ایک ’’نیم سیاسی بحران‘‘ کا سماں پیدا ہوا ہے۔ اس سے نہ صرف حکومتی امور کی انجام دہی میں رکاوٹیں پیدا ہو رہی ہے بلکہ بر وقت الیکشن کے انعقاد کے حوالے سے بھی شکوک و شبہات جنم لے رہے ہیں۔
نگران وزیر اعلیٰ شیر جہان میرکے غیر جانبدار اور بااعتماد ہونے میں کوئی شک و شبہ نہیں لیکن جمہوری معاشروں میں حکومتی امورسے متعلق فرد واحد کی بجائے زیادہ آراء کو اہمیت حاصل ہوتی ہے۔ ایسی صورتحال میں نگران وزیر اعلیٰ کے ساتھ کم تعداد میں ہی سہی نگران کابینہ کا ہونا انتہائی ضروری ہے۔
نگران وزیر اعلیٰ صورتحال کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے وفاقی حکومت پر نگران کابینہ کے وزراء کے ناموں کا نوٹیفکیشن جاری کرنے پر زور دیں تا کہ علاقے سے ’’نیم سیاسی بحران‘‘ اور ’’ون مین شو‘‘ والا نظام کا خاتمہ کیا جا سکے ۔