کالمز

مملکت خداداد پھر ایک بار دہشتگردوں کے نشانے پر

تحریر: ایس ایم شاہ

جمعےکے  دن برادر علی کے ساتھ کسی پارک میں گھومنے جانے کا اتفاق ہوا۔ راستے میں اخبار فروش کی دکان سے ہمارا گزر ہوا۔ میں نے علی سے کہا ہم یہاں سے ذرا اخبار اٹھائے چلتے ہیں۔ اس نے بھی میری بات کی تائید کی۔ اخبار لیتے ہی پہلے صفحے پر لکھا تھا ڈیرہ اسماعیل خان میں دو وکیلوں اور دو معلموں کوشہید کیا گیا۔ میں نے پوچھا علی بھائی دہشتگرد  وکیلوں، ٹیچروں، ڈاکٹروں اور دانشوروں کو کیوں نشانہ بناتے ہیں؟   ایسے افرادتو ملک و ملت کے سرمایے ہوا کرتے  ہیں،  ان کے ساتھ ہماری نسلوں کے مستقبل پیوستہ ہیں، ان کو اتنے اہم عہدے تک پہنچانے میں والدین نے اپنا جگر خون کیا ہے، اپنے پیٹ سے کاٹ کاٹ کر انھیں پلاپوسا ہے، دن رات ایک کرکے  انھیں پڑھایا ہے، قومی خزانےسے لاکھوں روپے ان پر خرچ کیا گیا ہے، تاکہ  ایسے عظیم منصب پر فائز ہوکر ملک و قوم کی ترقی کے لیے اقدامات کریں،  مملکت خداداد کو مختلف بحرانوں سے نجات دیں، ایسے افراد کسی خاص مسلک میں منحصر نہیں ہوتے،  آج تک میں نے  اپنی زندگی میں کسی اچھے ڈاکٹر کو مریض سے یہ پوچھتے نہیں دیکھا کہ تم مسلمان ہو یا غیر مسلمان، مسلمان ہے تو کس فرقے سے تمہارا تعلق ہے، فلاں مذہب کے پیروکار ہوتو میں تمہارا علاج کروں گا ورنہ نہیں، اسی طرح سکول میں ٹیچر اپنے شاگردوں سے یہ نہیں پوچھتا کہ فلاں مکتب کے پیروکار ہوتو میں تمہیں پڑھاؤں گا ورنہ کلاس سے چلے جائیں، وکلاء بھی ایسے ہی ہیں، قوم و ملت کے حقوق پر جب ڈاکہ پڑتا ہے تو یہ افراد انصاف کی فراہمی کے لیے لوگوں کی رہنمائی کرتے ہیں، بہت سارے لوگوں کو ان کا حق دلاتے ہیں،  کیا کوئی ملک و ملت کا خیرخواہ ایسے لوگوں کے خون سے اپنا ہاتھ رنگین کرسکتا ہے؟ہرگز  نہیں، کوئی بھی عاقل اس بات کو قبول نہیں کرسکتا ۔ کیا کسی بے گناہ کا خون بہانے والا سچا مسلمان ہوسکتا ہے، ہرگز نہیں، اسلام اور قرآن تو ایک انسان کے قتل کو پوری انسانیت کے قتل کے مترادف  قرار دیتا ہے۔علی نے کہا” آپ کی باتیں بالکل درست ہیں، میں نے دوبارہ سوال اٹھایا،علی بھائی! یہ دہشتگرد کیوں شیعہ مسلمانوں کو اپنا نشانہ بناتے ہیں؟ ان کا قصور کیا ہے؟ میں تو ایک مسلمان ہونے کے ناطے کسی غیر مسلم کے خون بہانے کو  جائز نہیں سمجھتا ہوں،  بلکہ میں کسی کیڑے مکورے کو بغیر غرض کے مارنے سے اجتناب کرتا ہوں۔ پاکستان کا بانی  بھی تو شیعہ تھا، قائد اعظم محمد علی جناح جس نے اسلامی اقدار کو معاشرے میں نافذ کرنے لیے ہمیں یہ ملک دیا، آج انہیں کے ہم مسلکوں کا خون بہایا جارہا ہے،  کیا یہ نمک حرامی نہیں؟  ادھر پاک فوج اور رینجرز دہشگردوں کے نیٹ ورک کے خاتمے کا اعلان کررہے ہیں تو دوسری طرف قتل و غارت کا بازار پھر سے گرم ہوتا دکھائی دے  رہا ہے۔ ہم دونوں نے ایک دوسرے سے اپنا درد دل بیان کیا اور سرد  آہیں  لیکر ہم نے اپنا تفریحی پروگرام کینسل کیا اور واپس گھروں کو لوٹ آئے،  ابھی اس عظیم سانحے کو  ایک دن بھی گزرنے نہیں پایا تھا کہ اتنے میں  ہفتے کے اخبار کی سرخی پھر سے شیعہ سماجی کارکن اور صحافی کی شہادت کی خبر سے رنگین  دکھائی دی،  مجھے بہت دکھ ہوا، تنہائی میں، میں  بہت رویا، گھر کے کونے میں بیٹھ کر میں سسکیاں لے رہا تھا اتنے میں میرا دیرینہ دوست حسن آیا۔ اس نے میری سرخ آنکھیں اور زرد چہرہ دیکھ کر پوچھا بھیا! کیا مسئلہ ہے کیوں پریشان ہو، خیر تو ہے نا؟ میں نے جواب دیا حسن بھائی میں ایک سیدھا سادھا مسلمان ہوں، دنیا کے جس کونے میں بھی کسی مسلمان کے قتل کی خبر مجھ تک پہنچتی ہے تو میری  یہی حالت ہوتی ہے، حضورؐ کا بھی فرمان ہے کہ جو اس حالت میں صبح کرئے کہ اسے دوسرے مسلمانوں کی حالت زار کی خبر ہی نہ ہو تو وہ مسلمان ہی نہیں ہے۔ میں نے اخبار اٹھاکے ان سامنے رکھ دیا۔  انھوں نے مجھے سے  تعجب آمیز لہجے میں سوال کیا”کیاانھوں نے کسی کو قتل کیا تھا، کسی کا حق چھینا تھا، کسی کے ناموس کی بے حرمتی کی تھی، کسی کے گھر پر ڈاکہ مارا تھا،  ان کے ہر سوال کے جواب میں، میں  نفی میں سر ہلاتا رہا، پھر  وہ ورطہ حیرت میں پڑ گئے، کہنے لگے "پھر انھیں کیوں شہید کیا گیا؟ ان کا جرم کیا تھا؟  میں نے کہا ان کا جرم صرف یہ تھا کہ وہ آل محمد سے محبت کا جی بھرتے تھے، ان سے اپنا اظہار عقیدت کرتے تھے،  انسانیت کی خدمت کو اپنے لیے شرف سمجھتے تھے، ظالم حکمرانوں بالخصوص آل سعود کے شام، بحرین، یمن میں انسانیت سوز مظالم کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرتے تھے، ملک کے اندر طبقاتی نظام اور اشرافیہ کے ناانصافیوں کو تنقید کا نشانہ بناتے تھے،  حسن  پھر سے کہنے لگے بھیا! ضرب عضب ، کراچی میں رینجرز آپریشن اور فوجی عدالتوں کے قیام کے بعد کافی حد تک ان دہشگردوں کا دائرہ تنگ ہوتا دکھائی دے رہا تھا، اب پھر سے لگتا ہے کہ دہشگرد دن بہ دن منظم ہوتے جارہے ہیں۔میں نے کہا حسن بھائی ابھی تک تمام مجرموں کو سزائیں نہیں ملیں۔ ہمارے مسلمان  بھائیوں کو کوہستان، بابوسر اور چلاس میں  شناختی کارڑ چیک کرنے کے بعد بلا جرم و خطا شہید کیا گیا، کوئٹہ تفتان کے راستے میں سینکڑوں کی تعداد میں لوگوں کو بسوں سے اتار اتار کر شہید کیا گیا، کوئٹہ کے اندر سینکڑوں کی تعداد میں افراد کو موت کی نیند سلادیا گیا،  پورے پاکستان میں ہمارے ڈاکٹرز، انجینرز، پروفیسرز، وکلاء اور دوسرے دانشوروں کا قتل عام  کیاگیا،  آج تک  ایسے وارداتوں میں ملوث افراد کا سراغ لگاکر انھیں قرار واقعی سزائیں نہیں دی گئیں،انھیں  دوسروں کے لیے نشان عبرت نہیں بنایا گیا،  ایسے وارداتوں میں ملوث افراد آج بھی ہمارے ملک میں دھندناتے پھر رہے ہیں،  آج بھی آئے دن کوئٹہ تفتان کے راستے میں مسافروں کے ساتھ بدترین سلوک کیا جارہا ہے، ان سے رشوتیں لی جارہی ہیں، دسیوں دن ان کو بے سروسامانی کے عالم میں وہاں خوار ہونا پڑ رہا ہے،  مستونگ آج بھی دہشگردوں کا اڈا بنا ہوا ہے، کن کن مظالم کی طرف میں اشارہ کروں، جب تک ہماری عوام  ان دہشگردوں سے اظہار نفرت کرکے ان کو معاشرے میں رہنا دوبھر نہیں کریں گے، جب تک ہماری حکومت اور پاک فوج ان ملک دشمن عناصر کے خاتمے کے لیے ٹھوس اقدامات نہیں اٹھائیں گےتب تک  قتل و غارت کا یہ سلسلہ جاری رہے گا،  بچے یتیم ہوتے رہیں گے، مائیں بے سہارا ہوتی رہیں گی،  بہنوں پر سے بھائیوں کا سایہ اٹھتا رہے گا، حکومت کو چاہیے کہ دہشگردوں کے خلاف عوام کو بیدار کرنے کے لیے منظم کوششیں کریں، دہشگردی میں ملوث تمام افراد کو خواہ ان کا تعلق جس مکتب فکر سے بھی  ہو انھیں قرار واقعی سزا دیں، عدالتی فیصلوں پر عمل درآمد کو یقینی بنائیں،  مذہبی منافرت پھیلانے کی بجائے باہمی اخوت کو فروغ دینے کے لیے ٹھوس اقدامات اٹھائیں، دہشگردانہ اور تکفیری سوچ رکھنے اور اسے فروغ دینے والے عناصر کا سراغ لگا کر انھیں دوسروں کے لیے باعث عبرت بنائیں، پاک فوج لوگوں کے اعتماد پر پورا اترتے ہوئے بلاتفریق دہشگردانہ وارداتوں میں ملوث تمام افراد کو تختہ دار پر لٹکائیں، ان کے اڈوں کا خاتمہ کریں،  ملک اس وقت ترقی کی راہ پر گامزن ہوگا جب امن و امان کا دور دورہ ہوگا، امن و امان کا قیام دہشگردوں کے اڈوں تک رسائی حاصل کرکے انھیں قرار واقعی سزا دیے بغیر ممکن نہیں۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button