جغرافیہ،آئین اورگلگت بلتستان
ذوالفقار علی غازی
لوگوں نے یہ بارہا لکھا ہےکہ یکم نومبر 1947کو کیا ہوا تھا۔ اب لکھنے کو بھی جی نہیں کرتا پر اتنا بتانا ضروری ہے کہ از خود آزادی حاصل کرنےکے بعد ۱۵دنوں کی نومولود مملکت گلگت بلتستان نے پاکستان سے الحاق کیا تھا۔ یہ محلوم نہیں کہ کس کس نے الحاق کیاتھا۔ کیوں کہ اس خطے میں چھوٹی چھوٹی ریاستں ہوا کرتی تھیں۔ کوئی کاغذ یا تحریری معاہدہ اگر ہے تو کہاں ہے؟ کتابی شکل میں چھپواکر اسے عام کرنے میں ایسی کونسی قانونی رکاوٹ ہے یا آینی پیچیدگی ہے؟
بقول وزیر اطلاعات جناب پرویز رشید یہ الحاق جغرافیائی تھا آئینی نہیں تو لگتا ہے کہ کوئی معاہدہ بھی نہیں ہے۔ الحاق 15نومبر 47 میں ہوا تھا تو 73 تک کیا ہو رہا تھا؟
اصل میں اس جغرافیائی اورآئینی نے سارا مسلہ کھڑا کر رکھا ہے۔ دونوں کو ساتھ ملانے سے عام آدمی کو چکر آتا ہے اور جو خود کوآئین و قانون کا ماہر کہتے ہیں ان کو سمجھ آ کے بھی پلے کچھ نہیں پڑتا۔ ملک میں آئینی ماہرین کے ساتھ ساتھ قانونی ماہرین کی کوئی کمی نہیں لیکن سب کا اپنا اپنا ذاتی آئین اور قانون ہیں۔ جغرافیائی ماہرین کی بھی کوئی کمی نہیں۔ اس کا ثبوت وہ حل ہیں جس کو عام طور پر KEY بھی کہاجاتا ہے اور جن سے جغرافیہ کے طلبہ و طالبات امتحانات کے دوران ہی مستفید ہوتے رہتے ہیں۔
ان تمام KEYS میں گلگت۔بلتستان کے حوالے سے کہیں کہیں ذکر ضرور ملتا ہے۔ چونکہ جغرافیہ ایک مضمون ہے یعنی ایک سبجیکٹ ہے اور وہ بھی ایک اُبجیکٹ object) ( ذمین کے حوالے سے۔ کوئی ہوائی مضمون نہیں ہے لہذااس سبجیکٹ پر لکھی تمام کتاب بشمول KEYS کے صفحہ اول پر مصنف کا نام درج ملتا ہے۔ ایک نے لکھا ہے کہ دریا سندھ کا منبہ یہاں ہے، دوسرے مصنف کو یہاں کے پہاڑ بہت پسند ہیں۔ حالانکہ لکھنے والے نے کبھی یہ پہاڑ اپنی ذاتی آنکھوں سے نہیں دیکھا ہوگا لیکن پھر بھی دھڑلے سے لکھتےہے کہ یہاں کے پہاڑ آسمان کوچھوتے ہیں۔ جغرافیہ کے لیکچررز اور پروفیسرز کو سیاحت سے کوئی خاص دلچسپی نہیں ہوتی لہذاکچھ دیکھےبنا ہی سنی سنائی باتوں پراکتفا کرلتے ہیں۔
اسی طرح اگر آئین کی بات کی جاے تو یہ مسلہ درپیش ہے کہ اس کا کوئی ایک مصنف نہیں اور دوجی یہ کہ یہ کسی object کے بارے میں نہیں ہے۔ سنا ہے آئین کا نسخہ تمام تر ترامیم کے ساتھ بازار میں دستیاب ہے۔ کتاب پہ مصنف کا ذکر نہیں اورجب تک آپ پڑھ چکے ہونگے ترمیم شدہ نسخہ بازار میں دستیاب ہوگا اور جو آپ پڑچکے ہونگے وہ کارگر نہیں ہوگا۔ لگتا ہے کہ اس کتاب کو بہت ہی قابل اور فاضل لوگوں نے خود سے نہیں بلکہ کچھ خاص لوگوں سے جو علم و حکمت و قانون میں ان سے بھی برتر ہیں ایک ایک بات پوچھ پوچھ کر درج کی ہوگی، جبھی تو لکھی ہوئی بات کو ہر ایک نہیی سمجھ۔ سکتا۔
اگر کوئی فزکس ، کیمسٹری، ریاضی ، یا کسی اور سبجیکٹ کا مسلہ ہوتا تو ہم باہر کے کسی عالم سے رجوع کرتے پر معاملہ آئین کا ہے ۔ بیرون ملک سے کسی کو بلانا بلکل ایسے ہی ہوگا جیسے جاپان والے جاپان کی معیشت کو مزید بہتر کرنے کے لئے اسحاق ڈار صاحب کو بلالیں۔
یہ کتاب 1973 میں اسلام آباد میں لکھی گئی ہے اور یہ کسی ایک فرد کی تخلیق نہیں ہے۔ اس میں ہر صوبے سے چیدہ چیدہ وڑیروں، نوابوں، چودھریوں، خانوں، پیروں، شاوں، مولاوں اور کاروباریوں نے اپنا اپنا حصہ شامل کیا تھا۔ اس کتاب کو آخری شکل مولانا ذوالفقار علی بھٹو نے دی، لوگ خوامخواہ بھٹو صاحب کو سوشلسٹ کہہ کر بدنام کرتے ہیں۔ جانتا ہوں کچھ کو یہ جملہ بہت عجیب لگے گا، لیکن اگر جناب کوثر نیازی کو مولانا کوثر نیازی کہہ سکتےہے تو بھٹو صاحب کو کیوں نہیں؟
آئین کی کتاب لکھنے والوں نے یکم نومبر 73میں پاکستان کے ساتھ الحاق کرنے والوں کا ذکر ہی نہیں کیاجبکہ آئین کی کتاب ۴۷ میں لکھی گئی۔ شاید خوف یہ تھاکہ بحد میں کہیں گلگت کی انسداد دہشت گردی کی عدالت کے فیصلے کو لے کر گرفتاری پر معمور ادارے کے لوگ میر شکیل الرحمان، شایستہ باجی، وینا آنٹی اور ان کے شوہر نامدار کو گرفتار ہی نہ کریں۔
پاکستان کے وزیر اطلاعات جناب پرویز رشید جس کے ذمہ عمران خان کا میڈیا ٹرایل تھا بول پڑے کہ گلگت پاکستان کا آئینی حصہ نہیں بلکہ جغرافیائی حصہ ہے اور علاقہ پاکستان کے کنٹرول میں ہے۔ یعنی عدالت جغرافیائی ہے آئینی نہیں ۔اگر سچ میں ایسا ہی ہے تو یہ کالے کوٹوں میں ملبوس افراد جو عدالتوں کے باہر گاہکوں کا انتظار کر رہے ہوتے ہیں ان کی بھی کوئی آئینی حیثیت نہیں ہوگی۔ اورجب ان کی نہیں ہے تو پھر عدالتوں کی کیسی؟ پرویز رشید بولے بھی اور بچ بھی گئے۔ اگر یہی بات بابا جان کرتے توکیا ہوتا؟ اب میں مزہد نہیں بولونگا ورنہ یہ جغرافیائی عدالتیں ہمیں اندر کریں گے کیونکہ ہم بھی خطے کے مانند پاکستان کے جغرافیائی شہری ہیں آئینی نہیں۔