سکردو میں منشیات کا دھندہ
کچھ عرصہ قبل بلتستان کے ایک مقامی صحافی کا سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ نظر سے گزرا اُس سے بھی کچھ دن پہلے کسی اور مقامی صحافی کا سکردو میں بڑھتی ہوئی جرائم اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ناکامی پر ایک دلخراش کالم پڑھنے کا موقع ملا۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ معاشرے میں جب قانون کے رکھوالے ہی قانون کی دھجیاں اُڑا رہے ہو تو معاشرے میں جرائم کا پھیلنا کوئی غیرمعمولی کام نہیں لیکن صاحبان عقل اور معاشرتی سوچ رکھنے والے گنتی کے لوگوں کیلئے یہ خبر ایک المیے سے کم نہیں۔ میرا آج کا موضوع بھی اُسی سلسلے کی ایک کڑی ہے ، وہ صاحب لکھتے ہیں کہ پولیس کی ایک خفیہ رپورٹ کے مطابق اس وقت سکردو میں منشیات کے دھندے کو پھیلانے میں پولیس افیسرز اور جوان نہ صرف براہ راست ملوث ہے بلکہ منشیات کے اس گھناونے کاروبار میں ملوث عناصر کی پشت پناہی کرنے کے ساتھ ساتھ باقاعدہ منشیات کا استعمال بھی کرتے ہیں جن میں چرس ،افیون ،شراب،نشہ اور انجیکشن اور دوائی قابل ذکر ہے۔
موصوف صحافی مزید لکھتے ہیں کہ اس وقت سکردو کے نوجوانوں میں چرس ،افیون اور شراب کا استعمال عام سی بات نظر آتی ہے لیکن قانون خود اس شرم ناک کاروبار میں ملوث ہونے کی وجہ سے اس دھندے میں ملوث افرادکو پکڑنے کے بجائے تقویت دی جارہی ہے ، وہ مزید کہتے ہیں کہ اس وقت سکردو شہر میں روانہ تین سو لیٹر سے ذیادہ شراب اور دو لاکھ مالیت کے دوسرے منشیات روزانہ کی بنیاد پر استعمال ہوتے ہیں جن میں نامی گرامی کاروباری اور سیاسی شخصیات قابل ذکر ہے ،اُنکے مطابق سکردو شہر میں شادی بیاہ کے تقریبات میں مہمانوں کا شراب سے تواضع کرنے کا ایک نیا فیشن چل نکلا ہے ۔اس صورت حال میں چاروں مسالک کے مولوی صاحبان کی معاشرتی کردار کے حوالے سے کئی سوالات جنم دیتے ہیں لگتا کچھ ایسا ہے کہ ہمارے مولوی کو صاحبان آج بھی ایک دوسرے کو جنتی اور جہنمی قرار دینے سے فرصت نہیں تو دوسری طرف کہ شہر میں موجود جدید طرز تعمیر کے مذہبی عبادت خانے صرف ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کیلئے بنائی ہے نہ کہ ان دینی مراکز میں معاشرتی کردار سازی کے حوالے سے بھی کچھ تعلیم دینا بھی ذمہ داریوں میں شامل ہے ۔ سمجھ نہیں آرہا کہ کیا لکھوں کیونکہ عام طور پر کہاجاتا ہے کہ بلتستان صوفیائے کرام اور علماء کی سرزمین ہے اس دھرتی کے ہر گھر میں بچوں کو قرآنی تعلیم نہ دینا معاشرے میں عیب سمجھے جاتے ہیں یہاں کے علمائے کرام کو پاکستان بلکہ بین الاقوامی سطح پر نمایاں حیثیت حاصل ہے پاکستان کے شہروں میں حصول روزگار کیلئے بلتستان کا نام معتبر سمجھا جاتا ہے لیکن بلتستان کے دارالخلافے میں ایسے گھناونے کاروبارکا جڑ پکڑنا اور علماء کا اس حوالے سے بے خبری یقیناًہم سب کیلئے لمحہ فکریہ ہے ۔ مجھے تو ایسا لگ رہا ہے جیسے اس گھر کی دیواریں گرتی جارہی ہے لوگوں کی نظریات میں منفی تبدیلی آرہی ہے اجتماعیت کے فلسفے کوبھول کرکے انفرادیت کی دنیا میں اتنا مدہوش ہوچکا ہے کہ ہمارے سامنے گناہ ہوتے ہوئے دیکھ کر بھی ہمارے اندر اُسے روکنے کی سکت نہیں آخر کیوں؟ اس کی وجہ کیا ہے؟ دین سے دوری یا غیروں کی غلامی؟۔ کہاں ہے ہمارے وہ نامور علماء ،مفتی اور پیر؟ کیا انکا کام دین کے نام پر مدرسے اور مسجد بنانے کا رہ گیا ہے یا معاشرتی تربیت بھی انکی کی ذمہ داری بنتی ہے؟ کیا مال امامؑ سے کوٹھیاں بنانا اور گاڑیاں خریدنا ہی علماء کی ذمہ داریوں میں شاملہے یا جس امامؑ کے نام سے مال کھا رہے ہیں اُنکے اصولوں کو معاشرے میں لاگو کرنے کیلئے کردار ادا کرنا بھی اُنکی ذمہ داری بنتی ہے؟ معاشرے کے تمام طبقہ فکر کیلئے یہ خبرڈوب مرنے کا مقام ہے۔قارئین کو اگر یاد ہے تودو ہزار نو پیکج کی اعلان کے بعد راقم نے گلگت بلتستان میں امریکن کی آمد کے حوالے سے دو کالم لکھا تھا اُن کالمز میں انہی باتوں کا ذکر کیا تھا جو آج وقوع پذیر ہورہے ہیں مگر ہمارے ہاں کچھ لوگ امریکن کے خلاف بات کرنے والوں کو پتھر کے زمانے کی لوگوں سے تشبیہ دیتے ہوئے دلیل دیتے ہیں کہ یہ لوگ خطے میں ترقی، تعلیم اور فلاحی کام کررہے ہیں جو کہ ہماری حکومت نہیں کرسکتے لہذا گزارش ہے کہ حکومت کی تو حیثیت اور اختیارات پچھلے آٹھاسٹھ برسوں میں عوام کے سامنے ہے ہمارے ہاں جو نظام حکومت قائم ہے وہ دراصل عوامی مفاد کیلئے نہیں بلکہ وفاق کی تحفظ کیلئے ہے جنکا کام صرف تنخواہ لیکر مالک سے شاباشی وصول کرنا ہوتاہے لہذامقامی حکومت سے کسی قسم کا توقع رکھنا ہی میں سمجھتا ہوں درست نہیں۔ ہاں اگر ہمارے عوام میں شعور آجائے اس خطے کو آئینی حقوق مل جائے تو تو اس ارض وطن میں کسی چیز کی کوئی کمی نہیں ہمارا یہ خطہ معدنیات ،قدرتی وسائل ،زراعت، سیاحت اور آبی حیات،جنگلی حیات سے مالا ہے لیکن سیاسی حقوق کے نہ ہونے کی وجہ سے آج ہمیں باہر کے لوگوں کو ویلکم کرنا پڑتا ہے جو منشیات بھی ساتھ لیکر آتے ہیں اور مقامی ملازمین کے سامنے شراب کی محفلیں سجتی ہے جو کہ انکے لئے باقاعدہ سرکاری سطح پر سپلائی کیا جاتا ہے یوں یہ نشہ معاشرے میں بھی عام ہوتی جارہی ہے۔دوسرا اہم مسلہ وہ غیر مقامی لوگ ہیں جوپاکستان کے مختلف علاقوں سے محنت مزدوری کیلئے سکردو کا رخ کرتے ہیں اور انہی لوگوں کا جب معاشرے میں قدم جم جاتی ہے تو کچھ مقامی پولیس پر قابو کرکے اسطرح کے دھندے کرنا شروع کرتے ہیں جو معاشرے کیلئے تباہی کا سبب بنتے ہیں۔ ایک اور اہم مسلہ سٹیٹ سبجیکٹ رول کا ہے اس نظام کا نافذ نہ ہونے کے سبب آج سکردو میں مقامی لوگوں سے ذیادہ غیر مقامی نظر آتے ہیں جنہوں نے باقاعدہ طور پر غیرقانونی طریقے سے بلتستان کا ڈومیسائل اور شناختی کارڈ حاصل کیا ہوا ہے یہی لوگ اس وقت سکردو کیلئے سب سے بڑا مسلہ بھی بنا ہوا ہے اور یہی لوگ مقامی نوجوانوں کو جان بوجھ کرمنشیات کی طرف دھکیلرہے ہیں ایسے میں جب مقامی پولیس بھی انکے ساتھ مل جاتے ہیں تو اُن کیلئے سونے پے سوہگا بن جاتاہے۔یہاں مجھے حیدر شاہ رضوی کا وہ تقریر یاد آتا ہے جب وہ یادگار شہداء پر کھڑے ہو کر بلتستان کیعوام کو پُکار پُکار کر SSRکی بحالی کیلئے جدوجہد کرنے کی بات کرتے تو لوگ اُنکا مذاق اُڑایا کرتے تھے اسی طرح منظور پروانہ جب عوام کو قومی حقوق کیلئے اُٹھ کھڑا ہونے کی بات کرتے تو ایسے ہی لوگ ان پر غیرملکی ایجنٹ ہونے کا الزام لگاتے تھے۔لیکن اب پچھتائے کیا ہوت ،جب چڑیاں چُگ گئی کھیت۔ ایک اور مسلہ معاشرے میں بڑھتی ہوئی بیروزگاری بھی ہے جس سے غیرملکی این جی اوز فائدہ اُٹھا کر معاشرے میں بے راہ روی پھیلا رہے ہیں آج بلتستان کے حالات کو دیکھ کر مجھے امریکن سفارت خانے کی طرف سے دو ہزار گیارہ میں جاری کردہ ایک مراسلے کا وہ متن یاد آیا جس میں امریکن کہتے ہیں کہ ہمیں گلگت کے بجائے بلتستان میں ذیادہ محنت کرنے کی ضرورت ہے جس کیلئے مخصوص پرنٹ میڈیا کا نام لیکر بتایا ہے کہ انکو ذیادہ سے ذیادہ فنڈز مہیا کرنے کی ضرورت ہے تاکہ عوام کا فکر تبدیل کرنے کیلئے کردار ادا کرسکے،اورمزیدکہتے ہیں کہ ہمیں بلتستان کے عوام کو عراق اور ایران علم حاصل کرنے کیلئے جانے کی سوچ کو ختم کرکے مغرب کی طرف رغبت بڑھانے کیلئے سوچ پیدا کرنے کی ضرورت ہے لہذا آج جو کچھ بھی بلتستان میں ہورہا ہے اُنہی پالیسیوں کانتیجہ ہے جسے ہمارے عوام کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اللہ ہم سب کو معاشرے سے برُائی کے خاتمے کیلئے ملکر جدوجہد کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین