کالمز

چینج فیکٹرز اور گلگت بلتستان 

از : شریف ولی کھرمنگی
از : شریف ولی کھرمنگی

انسانی معاشرہ دراصل عقل ،سوچ یا فکر کی تشکیل کردہ ہے۔ معاشرتی امور صاحب عقل دریافت کرتا ہے، اور اس میں حسب ضرورت تغیر و تبدیلی لاتا ہے۔ یوں تو کہنے کو لوگ کہتے ہیں کہ وقت کیساتھ ہر چیز بدل جاتی ہے یہ نامکمل کلام ہے کیونکہ وقت در اصل کوئی محرک نہیں، نہ اس میں کوئی طاقت ہوتی ہے کہ جو سبب بنے کسی تغیر و تبدل کے، بلکہ یہ انسانی فکر کا کمال ہے جو مشاہدات، تجربات، مطالعات،اور دیگر عوامل پر تعقل و تفکر کرکے اس کاموازنہ اپنے اردگرد کے ماحول اور اس میں موجود عوامل سے کرتے ہیں اور افادیت کو ملحوظ رکھتے ہوئے اس میں تبدیلی کیلئے کوشش کرتے ہیں۔ یقینی سی بات ہے کہ ایک رائج طرز کو یکدم تبدیل کرنا ایک مشکل امر ہے، اسلئے صاحبان عقل اس نئی دریافت شدہ عامل یا طریقہ کار کو اپنے حدود استطاعت میں آھستہ آھستہ عملدرآمد کرنا اور کروانا شروع کردیتا ہے ۔ جب ارد گرد کے لوگ اسکی افادیت سے واقف ہونا شروع ہوجائے تو وہ بھی وقتا فوتا اس سے روشناسی کی کوشش کرتا ہے یو ں پورا معاشرہ کچھ عرصے میں اس نئی تیکنیک سے واقف ہوجاتاہے، یہی ٹائم پیریڈ یا عرصہ در اصل ہم وقت سے تعبیر کرتے ہیں اور عام طور پر وقت کو ہی اسکا کریڈت دیتے ہیں، جیسا کہ ؂ وقت کرتا ہے پرورش برسوں، حادثہ ایک دم نہیں ہوتا۔صاحبان عمرانیات کیلئے میرے یہ جملے لطیفے سے کم نہ ہوں لیکن جن باتوں کو ایک طالبعلم درک کرسکتاہے شاید یہ اسکا حق ہے،اسی لئے میں اپنی دماغی استطاعت کے مطابق اپنی سوچ و فکر اور معاشرے کو جتنا سمجھا اور سوچااسکے اظہار کو بھی یقیناًاپنا حق سمجھتے ہوئے جسارت کررہاہوں۔

معاشرتی تبدیلی کے عوامل بے شمار ہیں، جن میں قدرتی عوامل، جغرافیائی عوامل،جینیاتی یا موروثی عوامل،اقتصادی تبدیلیاں،ثقافتی اور ٹیکنیکی وسائنسی عوامل کو ماہرین اقتصاد نے سب سے زیادہ موثر اور اہم قراردیا ہے۔ مختلف عوامل مختلف معاشروں میں زیادہ کارگر ثابت ہوتا ہے اورضروری نہیں سارے عوامل ایکدم سے ایک معاشرے میں تبدیلی کیلئے ضروری ہو۔ بعض اوقا ت کچھ بنیادی قسم کی وجوہات بڑی تبدیلیاں لے آتی ہیں اور اسکے برعکس بہت سے عوامل ظہور پذیر ہوتے ہیں لیکن تبدیلی نظر نہیں آتی۔ ڈارون اور اسپنسر کے کہنے کے مطابق ہرجنریشن شاید نئی زندگی لیکر آجائے، لیکن ضروری نہیں دوسرے بھی اسے صحیح مان لے۔بالکل اسی طرح اگرکتابوں سے نکل کر عملی دنیا میں دیکھاجائے تو بہت ممکن ہے کہ بعض معاشروں میں ہر ممکنہ عامل اس معاشرے کو تبدیل کرنے کیلئے موجود ہو، لیکن پھر بھی کئی دہائیوں تک وہاں کوئی تبدیلی نظر نہ آئے۔ مثلا اسلامی ممالک میں مغرب زدگی میں کئی صدیاں لگیں، اس میں اقتصادی ،ثقافتی،اور تکنیکی وسائنسی عوامل کا ایک ساتھ عمل دخل ہے لیکن پھر بھی ایک عرصہ لگا، پھر بھی یکسر تبدیلی نہیں آئی عملی طور پر،جیسے کہ اکثر عرب ممالک میں بادشاہی نظام اب بھی موجود ہیں، یہ اور بات ہے کہ ذھنی طور پر غلام بن چکے ہیں اب۔ اسی طرح بر صغیر پاک و ہند اور جنوبی ایشیا انگریز کالونی سے آزادی کے عشروں بعد بھی سوچ وفکر اور طرز زندگی میں انہی کی نقل سے نہیں نکل پائے۔اگر قریبی مثال لوں تو گلگت بلتستان کا معاشرہ ہے، جو کہ غلامانہ ذھنیت کی عکاسی میں ابھی تک مبتلا ہیں۔ پہلے راجگان و ڈوگروں کی غلامی نے انہیں دبائے رکھاصدیوں تک اور قیام پاکستان کیساتھ اپنی طاقت و قوت سے علاقے کو آزادی دلا دی، لیکن پھر قیام پاکستان اور الحاق کے بعد بھی ذھنی غلامی کی یہ صورت ہے کہ بغیر شہری حقوق کے اب بھی سب سے محب وطن اورملک کی سرحدوں کے پاسدارہیں۔اس میں کوئی مضایقہ نہیں کہ ہر شہری کو محب وطن ہونا چاھئے، لیکن یہ مخصوص گلگت بلتستان کے لوگ ہیں جو کہ بغیر شہری حقوق کے، بار بار وفاقی حکومتوں ،چاہے جنریلوں کی ہو یا سول منتخب حکومتیں، کے برملا کہنے کے کہ یہ علاقہ آئینی نہیں ہیں، پھر بھی ہمارے لوگ عملی طور پر سب سے بڑے محب وطن ہیں۔در اصل اس میں پاکستانی حکومتوں کی ذھنی غلامی کے نہ بدلنے کا راز بھی موجود ہے، جیسا کہ انگریز دور میں بھی گورنرز اور راجے وہی کرتے رہے ہیں سو سال تک کہ جو انہیں تاج برطانیہ حکم دیتا ،اس کے مطابق ہی رعایا سے سلوک کر رہا ہوتا،اب بھی پہلے منتخب یا جنریلی حکومت کے قیام میں معاون باہر کے اشارے ہوتے ہیں ، اور پھر علاقائی سیاست و معاشرت اور پالیسی سازی آئی ایم ایف وا مریکی ایجنسیوں کے اشارے پر ہی چلتے ہیں۔(شایدکوئی اسے اقتصادی عامل کی کوئی مثال قراردے )۔اسی سوشل چینج فیکٹر کی مثال میں یہ بھی گلگت بلتستان سے دی جاسکتی ہے کہ ہرباربے اختیار اسمبلی کی الیکشن میں ہر بار موروثی سیاست بازوں، شاہ،راجہ،میر وغیرہ کی پیری و مریدی کی گرفت سے نہیں نکل پائے حالانکہ ۶۸سال گزر چکے ہیں پھر بھی انکے کارتوت یہ ہیں کہ ؂ رہ و رسمِ فرمان روایاں شناسم، خراں بر سرِ بام و یوسف بہ چاہے(بقول اقبال، میں حکمرانوں کی کج فہمیوں کو پہچانتا ہوں، کہ گدھوں کو سر پر بٹھاتے ہیں اوریوسف یعنی صاحب عقل کنویں میں )میٹرک فیل افراد کو معاشرہ سازی یعنی ٹیچری لگوانا اور ماسٹرز و ایم فل بے روزگار ی ، ایسی مثال شاید کم ہی ملے کہیں اور۔ تیسری مثال اہل منبر و منبر کی معاشرتی تبدیلی میں کردار کی دی جا سکتی ہے، جو کہنے کو تو ایک دین دار معاشرہ ہے، بقول بعض لوگوں کے زیرو فیصد کرائم ریٹ ہے یہاں کے،وغیرہ وغیرہ، لیکن عملی طو ر پر یہاں پریہ عامل اتنا کارگر نہیں نظر آتا، جیسے کہ علاقے کے عوام واقف ہیں،اور مقامی اخبارات کی شہہ سرخیاں ہی کافی ہیں اور بعض کا تو یہ حال ہے کہ بقول اقبال ؂ متاع طاعتِ خود را ترازوے بر افرازد بیازارِ قیامت با خدا سودا گری کردہ

یعنی یہ شیخ و علامہ اپنے اطاعت کے مال و متاع کو ترازو میں تولتا ہے کہ جیسے قیامت کو بازار میں خدا کیساتھ سوداگری کرتا ہے حالانکہ معاشرہ کہاں جا رہا ہے اس سے کوئی غرض نہیں۔ اقتصادی عوامل کافی حد تک اثر انداز ہو سکتا تھا لیکن علاقے کی اپنی اقتصاد کا یہ عالم ہے کہ زمیں دار وں کے علاقے میں اب آبائی زمینوں پر گھر بنانے کی جگہ مشکل سے ارینج ہوتا ہے، نتیجتا ملازمت اور محنت مزدوری کیلئے شہروں اور بیرون ممالک کی طرف دیکھنا مجبوری ہے، اسطرح ثقافتی عوامل کو مستقبل قریب میں علاقے میں تبدیلی کیلئے راہ مل سکتاہے۔ البتہ تعلیم و تعلم اور سائنس و ٹیکنالوجی کے فیکٹر سے امیدیں سب کی لگی ہوئی ہیں، جسے اسلام شعور کا نام دیتا ہے، اسطرح اقتصاد یا سوشیو اکونومک فیکٹر، ثقافت اورسائنس و ٹیکنالوجی کے عوامل ایک طرح سے یکجا ہوکر اس خطے کو تبدیلی کی طرف راغب کرتے نظر آتے ہیں۔ اس میں تقریبا ہر طبقہ فکر نہ چاھتے ہوئے بھی شامل بھی ہیں اور پس منظر میں ہر سطح کے لوگوں کی برابر کی کنٹر ی بیوشن شامل ہیں۔اور اسی امید کیساتھ اقبال کی خواہش ، میری اور سب کی خواہش،

یا بکٗش ددر سینہٗ ما آرزوئے انقلاب
یا دگرگوں کٗن نہادِ ایں زمان و ایں زمیں، یا چٗناں کن یا چٗنیں۔۔۔

(یعنی یا تو میرے سینے سے انقلا ب کی آرزو کو ہی ہمیشہ کیلئے ختم کردے، یا اس زمانے کی بنیادیں ہی مٹا دیں اور انقلاب برپا کردیں، یا ایسا کردیں یا ویسا کردیں)

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button