سیاست، وزارت اور خدمت
ذوالفقار علی غازی
کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ گول کیپر بھی اپنی ہی ٹیم کے خلاف گول کر بیٹھتا ہے، جبکہ دفاعی کھلاڑیوں کا ا پنی ہی ٹیم کے خلاف گول کئے جانے کی کئی مثالیں موجود ہیں۔،ایسیا ہی ہوا ہے۔ جانباز اور حفیظ الرحمان نے ایساہی کیا ہے۔ اب کون دفاع پر معمور تھا اور کون گول کیپر بنا ہو ا تھا کسی کو کچھ نہیں معلوم کہ سبھی ہار جیت کی فکر سے عاری اپنی اپنی پرفارمنس دیکھارہے تھے کہ یکے بعد دیگرے پورے کے پورے چھ گول کھا گئے۔ایسا اس لئے بھی ہوا کہ اسلام آباد کی حکومت پر بھروسہ کر بیٹھے۔ آپ کی تمام کالیں رانگ نمبر پر گئیں، پلیز آپ تاروں کا معاینہ کئے بغیر اسلام آباد کا کوئی بھی نمبر ملائے گا مت۔
ایک نو منتخب وزیر کا فرمانہ کہ وزارت خدمت کی اعوض ملی ہے۔ بھائی جانے دو جیسے بھی ملی ہے ملی ہے، شکر کرو، کھاو پیو، عیاشی کرو، اور چپ رہو، ورنہ سب جاننے کی کوشش کریں گے کہ آخر آپ نے ایسا کیا کیا تھا کہ آپ کو وزارت جیسی چیز سے نوازا گیا؟؟ جبکہ ملکی راوایت کے مطابق خدمت گاروں کو تمغات سے نوازا جاتا ہے نہ کہ و زارتوں سے ۔ ورنہ آج عبدلستار ایدھی سمیت ایدھی فاونڈیشن میں کام کرنے والے وزیر ہوتے ۔ چپ رہنے میں ہی آفیت ہے، ورنہ خدمات کی فہرست بھی بنائی جائی گی اور لوگوں کو یہ بتایا بھی جاے گا کہ اصل میں اسلام آباد میں حکومت کس کی ہے؟؟؟ آپ جانتے ہیں کہ اس بات سے بدنامی کس کی ہوگی؟ موٹرویز اور میٹروزبنانے میں مصروف ، عمران خان سے ڈیل کرنے کی کوششوں میں ہلکان، مرغیوں اور انڈوں کی دیکھ بال اور مارکیٹ میں دھندہ چمکانے کی فکر میں ڈیپریشن کی شکار حکومت جس کو پیٹرل کی بھی فکر نہیں رہی وہ گلگت بلتستان کی فکر میں کیونکر پڑے۔ اس طرح کے کام کسی اور کے سپرد ہیں۔ آپ اچھے ہیں ہم جانتے ہیں بس چپ رہیے اور انجوئے کرتے رہئے۔
اب کابینہ میں توسیع ہوگی، نہ جانے کتنے قومی خدمتگاروں کو وزارتوں سے نوازا جاے گا؟ اگر سیاست کو خدمت کہا جاے تو خدمت کو سیاست کہنا پڑیگا، اس طرح سے تو خدمت بھی سیاست کی مانند مشکوک ہو جائے گی۔ اگر خدمت گاروں اور سیاستدانوں کو جمع کیا جاے تو ان کی تعداد عوام سے زیادہ بنتی ہے اب ایسے میں صرف گیارہ وزیر سراسر ناانصافی ہے لہذا ہر ضلعے سے گیارہ گیارہ وزیر لئے جایں تاکہ کچھ تو ازالہ ہو ۔ خدمتگاروں کی بھی کئی کیٹگریز ہیں، اب جاننا پڑے گا کہ کس فیلڈ میں خدمات کے اعوض وزارت ملتی ہے۔
وزیر ہونے کے لئے اہلیت کا پیمانہ اگر دیکھیں تو ہر پارٹی کا اپنا اپنا پیمانہ ہے، ن لیگ والوں کا کم از کم پیمانہ رانہ ثنااﷲ اور عابد شیر علی ہیں، پی پی پی کا پیمانہ ذرہ وکھرا ہے اس میں درجہ نبدی ہے ، ان کے پیمانے کی انتہا محترمہ شرمیلافاروقی ہیں اور دوسرے درجے میں شرجیل انعام میمن، جب کہ تیسرے درجے کا پیمانہ وزیر اعلیٰ سندھ خود ہیں۔ فضل الرحمان صاحب کا انوکھا پیمانہ ہے ان کے ہاں وہ وزیر ہو سکتا ہے جو میڈیا پہ آکے مولانہ کے معصوم ہونے کی قسمیں اٹھا سکے۔ پی ٹی ائی کے پیمانے میں شخصیات نہیں بلکہ الفاظ ہیں یعنی ً نیا پاکستان ، جوڈیشل کمیشن، دھاندلی ، شادی، وغیرہ ۔ چونکہ گلگت بلتستان میں کوئی سیاسی حکومت نہیں ہے لہذا یہاں پیمانہ ً خدمت ً ہے۔
پھر بات کسی نے آیین کی ہے، کون نہیں جانتا کہ نگران وزیر اعلیٰ چاہے وہ سندھ کا ہو یا پنجاب کا یا بلوچستان کا یا کے پی کے کا اسے صرف یتن وزیر لینے کی اجازت ہے۔ لیکن جی بی تو نئی نویلی دلہن صوبہ ہے اس کے نخرے وکھرے ہیں۔ بعض اوقات یہ صوبہ تو توبہ لگتا ہے۔ جانے دیں یہ کونسا آیینی صوبہ ہے کہ صرف تین پر ہی اکتفا کر لیں یہ تو جغرافیائی حصہ ہے۔ ایک گزارش محترم وزیر اعلیٰ سے ہے، کہ آپ چاہیں تو آ یین کے اندر رہتے ہوے بھی نواز سکتے ہیں ،ازمودہ نسخہ ہے آپ تین وزیر لے لیجئے باقیوں کو مشیر لگا لیں ، میں آپ کے آفس اور گھر میں بہت بڑے کچرا دان رکھواتا لیکن کسی نے لکھ کے آپ کو کوئی مشورہ دینا نہیں لہذا آپ بس ایک کان سے سننے اور دوسرے سے نکالنے کی مشق کریں ۔ اخر میں ایک سوال ، یہ وزیر لگانے والوں تک کیسے اپروچ کیا جاتا ہے؟؟