’’اتحاد تنظیمات مدارس اور دہشت گردی‘‘
ملک کی موجودہ صورت حال ، اکیسویں آئینی ترمیم اور نام نہاد جنگ دہشت گردی کے حوالے سے علماء کرام کا کیا کردار ہے۔ پاکستان میں تمام مسالک و مکاتب کے مدارس و جامعات کا سب سے بڑا وفاقی اتحاد’’ اتحاد تنظیمات مدارس‘‘کے ذمہ داران کہاں کھڑے ہیں ، کے حوالے عامۃ الناس اور جدید طبقہ بالخصوص میڈیا برادری اور معترضین مدارس و جامعات کی درست رہنمائی کی اشد ضرورت ہے۔اتحاد تنظیمات مدارس میں وفاق المدارس العربیہ پاکستان(دیوبند) ،وفاق المدارس الشیعہ(اہل تشیع)، تنظیم المدارس پاکستان(بریلوی)، وفاق المدارس السلفیہ(اہل حدیث) ، رابطۃ المدارس الاسلامیہ(جماعت اسلامی) شامل ہیں۔ یہ پانچویں وفاقی بورڈز کے ساتھ ملک بھر میں پچیس ہزار کے قریب مدارس و جامعات ملحق ہیں۔یہ تمام وفاقی بورڈ غیر سیاسی اور غیر منافع بخش بنیادوں پر قائم ہیں۔ان کے منشور کے مطابق تمام مسالک کے بورڈز صرف اور صرف تعلیم و تربیت اور تحقیق و تدقیق کے فروغ دے رہے ہیں۔ان میں سب سے بڑا اور ملک گیر وفاقی بورڈ ’’ وفاق المدارس العربیہ پاکستان‘‘ ہے۔اس کے موجود صدر شیخ الحدیث مولانا سلیم اللہ خان صاحب ہیں جو اتحاد تنظیمات المدارس کے بانی اور اولین صدر بھی ہیں۔وفاق المدارس العربیہ کے تحت ملک بھر میں اٹھارہ ہزار چھ سو ستتر(18677) مدارس وجامعات کام کر رہے ہیں۔ان مدارس میں ایک لاکھ آٹھ ہزار چونسٹھ(108064)اساتذہ کرام خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ جبکہ تئیس لاکھ چار ہزار پانچ سو بارہ (2304512)طلبہ /طالبات زیر تعلیم ہیں۔وفاق المدارس العربیہ سے اب تک فارغ التحصیل ہونے والے علماکی تعدادایک لاکھ انیس ہزار آٹھ سو بانوے(119892)، عالمات کی تعدادایک لاکھ پچاس ہزار اٹھائیس(150028) اور حفاظ کی تعداد نولاکھ پچیس ہزار ایک سو بانوے(925192) ہے۔وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے قیام 1959سے جون 2014تک وفاق کے ساتھ ملحق مدارس کی تعداد15139ہے۔ ملحقہ مدارس کی شاخوں کی تعداد3538ہے۔ اس طرح وفاق المدارس العربیہ کے تحت کام کرنے والے اداروں کی کل تعداد18677ہے۔وفاق المدارس العربیہ کے ملحقہ مدارس میں اساتذہ اور دیگر عملہ کی کل تعداد108064 ہے۔مرکزی دارالحکومت اسلام آباد میں1755 ، بلوچستان میں9008 پنجاب میں38697،خیبر پختونخواہ میں28100، سندھ میں 28243 گلگت بلتستان میں516 اور آزاد کشمیر میں 1745 ہے۔ دیوبند مکتبہ فکر کے تبلیغی جماعت کے مدارس و جامعات کا نیٹ ورک اس کے علاوہ ہے۔ وہ کسی بھی وفاق کے ساتھ اپنے مدارس کا الحاق نہیں کرتے۔یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ وفاق المدارس العربیہ کے ذمہ دار اور ملحقہ مدارس ہمیشہ اپنوں کی بے رعنائیاں اور غیروں کی ریشہ دوانیوں کا شکار رہے ہیں۔ہمیشہ ان کو ہی معطون سمجھا جاتا ہے۔آج بھی سب سے مشکل وقت انہیں مدارس و علماء پر آپڑا ہے۔
وفاق المدارس العربیہ اور دیگر چاروں وفاقوں کے حوالے سے اہم معلومات وقتا فوقتا اپنے قارئین کے ساتھ شیئر کرتا رہوں گا ۔تاہم آج کی محفل میں ’’اتحادتنظیمات مدارس ‘‘ یعنی دینی مدارس و جامعات کے پانچویں نمائندہ تنظیموں کے
ذمہ داروں نے اصحاب حل و عقد اور صاحبان بست وکشاد سے دہشت گردی کے خاتمے کے حوالے سے قومی ایکشن پلان پر اتفاقِ رائے پیدا کرنے کے لیے ایک سربراہی اجلاس میں شرکت کی۔جس کی صدارت وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثارعلی خان کررہے تھے اور ان کے ساتھ وفاقی وزیر مذہبی امور سردار محمد یوسف ، وزیر مملکت برائے مذہبی امور پیر امین الحسنات شاہ،وزیرا عظم کے معاونینِ خصوصی خواجہ ظہیر احمد اور بیرسٹر ظفر اللہ خان ،مختلف سیاسی جماعتوں کے نمائندگان ، سرکاری اداروں کے سربراہان وغیرہ شامل تھے۔اس اہم اجلاس میں شرکاء اجلاس نے رسول پاک ﷺ کے گستاخانہ خاکے چھاپنے والے مغربی جرائد کی پرزور مذمت کی اور اس بات پر زور دیا کہ تمام انبیاء کرام اور تمام مذاہب کے شعائر کے احترام کو یقینی بنانے کے لئے عالمی سطح پر قانون سازی کی جائے۔ اجلاس کے شرکاء نے گستاخانہ طرز عمل پرپوپ فرانسس کے موقف کو سراہا اور قوم کے نام پیغام دیا کہ شرانگیزی کے خلاف احتجاج کو پُر امن رکھا جائے اور قومی املاک کو ہرگز نقصان نہ پہنچایا جائے ۔اس غیرمعمولی اجلاس میں شرکاء اجلاس نے مدارس و جامعات اور جنگ دہشت گردی کے حوالے سے ایک مشترکہ اعلامیہ پر دستخط کیے ۔مشترکہ اعلامیہ کے نکات درج ذیل ہیں۔یقیناًان نکات پر عملدرآمد سے بہت فائدہ ہوگا۔ملاحظہ ہو۔
1۔ تمام شرکاء اجلاس نے متفقہ طور پر سانحہ پشاور کی سخت ترین الفاظ میں مذمت کی اور اس بات کا عزم کیا کہ تمام سیاسی جماعتیں اور مذہبی اکابرین دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لئے شانہ بشانہ جدو جہد کریں گے۔
2 علماء نے یک زبان ہو کر قراردیا کہ خودکش حملے حرام ہیں اور واشگاف الفاظ میں اعلان کیا کہ ریاست پاکستان کے خلاف مسلح جدوجہد حرام ہے۔اس ضمن میں فتاویٰ پہلے ہی جاری کئے جاچکے ہیں۔
3۔ اتفاقِ رائے قرار پایاکہ کسی بھی قسم کی دہشت گردانہ سرگرمیوں میں ملوث پایا جانے والے فرد یا ادارے پر ملکی قانون کے مطابق بلامتیاز کاررائی کی جائے گی ۔
-4 مدرسوں کی رجسٹریشن کو آسان اور یقینی بنانے کے لئے متعلقہ وفاقی و صوبائی محکموں/اداروں اور اتحاد تنظیمات مدارس پاکستان کے نمائندوں پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دی جائے گی جو اتفاق رائے سے ایک جامع رجسٹریشن فارم تیار کرے گی تاکہ تمام کوائف ایک ہی وقت میں حاصل ہو سکیں ۔
-5 دینی مدارس قانون کے تحت اپنے حسابات کی آڈٹ رپورٹ پیش کرنے کے پابند ہیں ۔ علماء کرام نے اس بات پر رضامندی ظاہر کی کہ مدرسوں کو بیرونی امداد صرف حکومت کے ذریعے آئے گی اور حکومت اس ضمن میں طریقہ کار وضع کرے گی۔
-6 علماء کرام نے اس بات پر وزر دیا کہ مدارس بارے قانون سازی اتحاد تنظیمات مدارس کی مشاورت سے کی جائے گی۔
-7 اجلا س نے قرار دیا کہ دہشت گردی کے خاتمے کے لئے صرف طاقت کا استعمال ہی نہیں بلکہ فکری نظریاتی سطح پر بھی ذہن سازی کی ضرورت ہے اور اس سلسلے میں تمام طبقات فکر بشمول علماء کرام کی خدمات حاصل کی جاسکتی ہیں۔
-8 مدارس کے نصاب اور اس سے متعلقہ معاملات کو طے کرنے کے لئے وزارت تعلیم ، وزارت مذہبی امور ، صوبائی حکومتوں اوراتحاد تنظیمات مدارس کے نمائندوں پر مشتمل کمیٹی قائم کی جائے گی جو سفارشات مرتب کرے گی۔
-9 دینی مدارس کی قیادت نے واضح کیاکہ دینی مدارس میں اصلاحات کا عمل جاری ہے۔ دین و مذہب اور ملک و ملّت کی بہتری کے لئے دینی مدارس میں وقت کے ساتھ ساتھ بہتر ی لائی جاتی ہے اور آئندہ بھی لائی جاتی رہے گی اسی طرح مروجہ تعلیمی نظام میں بھی اصلاح لائی جائے گی ۔
-10 اس موقع پر یہ تجویز بھی سامنے آئی کہ مدارس کے قائدین نے ’’ تعلیم امن اور اسلام‘‘ کے نام سے مشترکہ طور پر جو کتاب تیار کی ہے اسے دینی مدارس بھی نصاب کا باقاعدہ حصہ بنانے کی کوشش کریں گے اور عصری ادارے بھی اس کتاب کوشاملِ نصاب کرنے پر غور کریں۔
-11 دینی مدارس کی قیادت نے سیاسی جماعتوں ، سفارتکاروں اور زندگی کے تمام شعبوں سے تعلق رکھنے والی شخصیات کو دعوت دی کہ وہ دینی مدارس کے دورے کرکے مدارس کے نظام و نصاب کا از خود مشاہدہ کریں۔
-12 علماء نے مطالبہ کیا کہ دینی اور مذہبی کتب پر اشاعت کے بعد پابندی عائد کرنے کے بجائے ان کی اشاعت سے قبل جائزہ لے کر مسودہ کی منظوری دی جائے اور اس کے بعد ان کی اشاعت عمل میں لائی جائے ۔اور موجودہ کتب کا بھی اس نقطہ نظر سے جائزہ لیا جائے ۔
-13 اس بات پر بھی اتفاق رائے پایا گیا کہ علماء کرام اپنے خطبات میں اسلام کے پیغام امن کو واضح کریں گے اور اس اتفاق رائے سے قوم کو آگاہ کریں گے۔
-14 طے پایا کہ حکومت ، سیاسی قیادت اور علماء کرام کے درمیان مستقل رابطے کے لئے اداراتی نظام وضع کیا جائے گا تاکہ دہشت گردی کے خلاف مشترکہ جدو جہد جاری رکھی جا سکے۔
یہ ہم سب جانتے ہیں کہ قرآن وحدیث ،تعلیمات اہل بیت عظام و اصحاب کرام کے بغیر کسی اسلامی ریاست و سوسائٹی کی بقااور معاشرے کے قیام کا تصور عبث ہے۔نہ یہ تصور کیا جاسکتا ہے۔یہ سچ ہے کہ علوم الہی و نبوی ؑ ہی پر کسی اسلامی معاشرہ کی بنیاد اور داغ بیل ڈالی جا سکتی ہے۔ قرآن و حدیث علوم الہی و علوم نبوی کا منبع و ماخذہیں اور دینی مدارس و جامعات اسلامی کے مقاصد و اہداف اس کے علاوہ کیا ہوسکتے ہیں۔ کہ علوم الہی و نبوی، فقہ اسلامی اور تعلیمات اہل بیت عظام و صحابہ کرام کے ماہرین ، محققین اور اعلی بصیرت و بصارت رکھنے والے مطلوب افراد تیار کیے جائیں۔یہی مطلوب افراد ورجال اسلامی معاشری کی تشکیل میں قران و حدیث کی روشنی میں کردار ادا کرسکتے ہیں۔اور عامۃ الناس میں اسلام کی بنیادی اور ضروری تعلیم عام کرنے اور اسلامی تہذیب و تمدن کی ابدی صداقت کو اجاگر کرنے کا فریضہ انجام دے سکتے ہیں اور ایک طویل عرصے سے دے رہے ہیں۔برصغیرپاک و ہند میں دینی روایات اور اسلامی اقدار کے تحفظ و سر بلندی اور اعلاء کلمۃ اللہ کے لئے علماحق نے جو مجاہدانہ و سرفروشانہ کردار ادا کیا ہے، وہ تاریخِ اسلامی کی ناقابل فراموش ابواب ہیں۔ یہی سرفروشانہ روایات قیام پاکستان کے بعد بھی جاری ہیں۔مدارس و جامعات کے ذمہ داروں اور علما ء و فضلاء نے روز اول سے ملک کی نظریاتی اور جغرافیائی سرحدوں کا بلامعاوضہ تحفظ کیا ہے تاہم اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ ہر دور میں مدارس اسلامیہ کو ارباب حل و عقدنے مختلف ہتھکنڈوں کے ذریعے تنگ کیا ہے۔مدارس اسلامیہ پر تنقید برائے تنقید کا شیوہ روز اول سے ہے۔ تنقید برائے اصلاح کا دینی مدارس و علماء نے ہمیشہ خیر مقدم کیا ہے تاہم بیرونی آقاؤں کی خوشنودی کے لیے کی جانے والی تنقید کو علماء کرام نے اتحاد و اتفاق سے ڈٹ کر مقابلہ کیا ہے۔اللہ ہم سب کا حامی وناصر ہو۔