کالمز

میر جعفر اور میر صادق کون ہیں ؟

شریف گل

یوں تو “ تاریخ کے تمام اوصاف ہمیشہ اوراق ہی کی زینت بنتے آئیے ہیں۔ ہم جب بھی کسی کتب خانہ (لائبریری) جاتے ہیں تو ہمیں وہاں کی الماریوں میں رکھی گئیں بہت ساری اور بہت بڑی بڑی کتب نظر آتیں ہیں مگر اول تو کہ اس دور میں کتب خانے کی طرف جانے کارواج تقریباً ختم ہوچکا ہے۔اگراتفاقاً جانا پڑھے بھی تو ان کو دیکھ کر کبھی تعجب نہیں یوتا ہم ہمیشہ چھوٹی اور آسان کتب پڑھنے کی دلچسپی رکھتے ہیں۔اور اس کی یہی وجہ ہے کہ ہم تاریخ سے ہمیشہ نا آشنا رہ رہتے رہیں۔کتب خانے کی الماریوں میں یہ بھاری کتب خاموش ضرور ہیں ۔مگر ان اندر پیوست تاریخ کے اوصاف ہمیں بار بار یاد لاتے ہیں۔

معاشرہ کے بدلتے حالات و واقعات ہمیشہ تاریخ سے جوڑے ہوئے ہیں۔آج پاکستان کی موجودہ بد ترین صورتحال بھی تاریخ میں درج ایک واقع کی یاد دیلارہا ہے۔مگر آج پاکستانی موجودہ صورتحال پر لوگ پر

 ” میر جعفر اور میر صادق” سے تشبیہ لے رہے ہیں ۔مگر کیوں اس کا جواب دینے سے پہلے ” میر جعفر اور میر صادق "

کو تاریخ کے اوراق میں تلاش کرنا ہوگا۔تو آئیں مطالعہ کرتے ہیں کہ ‘میر جعفر اور میر صادق’ کون ہیں ۔

جس کے لیے ہمیں پہلے سترھویں اور اٹھارھویں صدی کی تاریخ پڑھنا ہوگا۔ یوں تو ہندوستان میں مسلمانوں کے بہت سارے تاریخی واقعات ملتے ہیں جس میں میر جعفر اور میرصادق کا واقعہ بھی درج ملتا ہے ان کرداروں کے میروں نے اپنی قومی تاریخ بدل کر رکھ دی ہے اسی لئے 1971ء میں پاکستان کو توڑنے والے کرداروں کو بھی میرصادق و جعفر سے تشبیہ دی جاتی ہے کیونکہ انہوں نے پاکستان کا نقشہ ہی بدل کر رکھ دیا۔

  تاریخ کے مطابق بنگال کو اکبر بادشاہ کے دور حکومت میں 1592ء میں مغلیہ سلطنت کا حصہ بنایا گیا تھا۔ مغلیہ سلطنت کمزور ہوئی تو کئی صوبے آزاد ہو گئے جن میں بنگال بھی شامل تھا۔ سراج الدولہ چوبیس برس کی عمر میں اپنے دادا علی وردی خان کے انتقال کے بعد 1756ء میں بنگال کی گدی پر بیٹھا۔ اس دور میں انگریز اپنا اثر و رسوخ بڑھا رہے تھے اور تجارت کی آڑ میں ایسٹ انڈیا کمپنی مسلمانوں کے اقتدار میں نقب لگانے میں مصروف تھی۔اول تو انگریزوں نے نواب کی منظوری کے بغیر اپنے تجارتی مراکز کے اردگرد حصار بنا لئے تھے ، دوم وہ سراج الدولہ کے مخالفوں کی حمایت کر رہے تھے اور سوم انہوں نے تجارتی مراعات سے ناجائز فائدے اٹھانا شروع کر دیئے تھے جن کے سبب نواب نے حملہ کر کے کلکتہ پر قبضہ کیا۔ کلائیو نے حملہ کر کے کلکتہ تو واپس لے لیا اور نواب سراج الدولہ سے معاہدہ بھی کر لیا لیکن اس کے ساتھ ہی انگریزوں نے سراج الدولہ سے نجات حاصل کرنے کا بھی فیصلہ کر لیا۔ اس قسم کے فیصلوں کو عملی جامہ پہنانے کے لئے انگریز ہمیشہ سازش کا سہارا لیتے تھے اور دشمن کے اہم کارندوں کو رشوت یا اقتدار کا لالچ دے کر خرید لیتے تھے۔ نواب سراج الدولہ کا سب سے بڑا قابل اعتماد میرجعفر تھا جو اس کی فوج کا کمانڈر انچیف بھی تھا۔ انگریزوں نے اس سے ساز باز کر کے سازش کا جال پھیلا دیا اور اسے بنگال کی حکمرانی دینے کا وعدہ کر کے خفیہ معاہدہ کر لیا۔ طے شدہ حکمت عملی کے تحت جنگ پلاسی (1757) ہوئی۔ انگریزوں کی فوج تین ہزار پر مشتمل تھی جبکہ سراج الدولہ کے پاس پچاس ہزار کی فوج تھی۔ 23 جون 1757ء کو پلاسی کی اس جنگ کے دوران میر جعفر نے سراج الدولہ کو دغا دیا اور فوج لے کر نواب سے علیحدہ ہو گیا۔ نتیجے کے طور پر نواب سراج الدولہ کو شکست ہوئی اور وہ جان بچا کر بھاگ نکلا۔ میر جعفر کے بیٹے میراں نے تعاقب کر کے سراج الدولہ کو قتل کر دیا۔ یوں سراج الدولہ کی جگہ میر جعفر بنگال کا حاکم بن گیا لیکن عملی طور پر اسے ایسٹ انڈیا کمپنی کے ساتھ معاہدے میں بری طرح جکڑ دیا گیا اور انگریز غالب آ چکے تھے۔ یوں بنگال کے علاقے میں مسلمانوں کے

عروج و اقتدار کا سورج غروب ہو گیا۔

اب میر صادق کا تاریخی کردار یہ ہے کہ میر صادق ٹیپو سلطان جو کہ مسلمانوں کے بہادر باشاہ کے نام سے جانے جاتے ہیں ان کی مجلس کا صدرِ اعظم تھا۔ ٹیپو سلطان نہ ہی صرف بہادر، عبادت گزار اور اعلیٰ درجے کا منتظم تھا بلکہ ہندوستان میں مسلمانوں کے اقتدار کی آخری نشانی اور روشن چراغ سمجھا جاتا تھا کیونکہ مغل حکمران جنگ بلکسر میں شکست کے بعد انگریزوں کے ہاتھوں میں محض کٹھ پتلی بن چکے تھے۔ ٹیپو کو فرانسیسیوں کی حمایت حاصل تھی اور وہ انگریزوں کے توسیع پسندانہ عزائم کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ تھا۔ مکمل جنگی تیاریوں اور سازشوں کا جال پھیلانے کے بعد انگریزوں نے جنرل ہیرس کی سربراہی میں میسور پر حملہ کر دیا۔ جنرل ہیرس نے مارچ 1799ء میں میسور اور پھر بنگلور پر قبضہ کر لیا۔ اس کی فوج میں ساٹھ ہزار بیل اور بہت سے ہاتھی تھے۔ ٹیپو سلطان کو صلح کے لئے شرمناک شرائط پیش کی گئیں جو اس نے مسترد کر دیں۔ اپریل کے اواخر میں سرنگا پٹم کے قلعے کے باہر انگریزوں نے توپیں نصب کر دیں اور گولہ باری شروع کر دی یہ سلسلہ تین مئی تک جاری ریا آخر کار قلعے کی فصیل میں ایک شگاف پڑ گیا۔میر صادق جو کہ پہلے سے انگریزوں کو آمادہ کر چکا تھا اس کے کہنے پر 4 مئی کو میرصادق کے کہنے پر انگریزوں نے حملہ کیا کر دیا۔اور ٹیپو سلطان کے قلعے کو گیرے میں لینے لگے ۔مگر جس جگہ گولہ باری سے شگاف ہوا تھا وہاں بڑی تعداد میں ٹیپو سلطان کی فوج موجود تھی مگر میر صادق نے ان کو لالچ دی اور تنخواہیں دینے کے بہانے ان سپاہیوں کو بلا لیا چنانچہ انگریز فوج نے اسی موقعےکا فائدہ لیتے ہوئے قلعے میں داخل ہو گئی۔ جب ٹیپو سلطان کو خبر ملی کہ انگریز قلعے میں داخل ہوچکے ہیں تو وہ بے ساخستہ دوڑے اور اپنی افوج کو اکٹھا کرنے کی کوشش کی مگر اب بہت دیر ہوچکی تھی اس کے سپاہیوں کی قوت کمزور ہوچکی تھی تو ٹیپو سلطان خود گھوڑے پر سوار ہو ئے اور قلعے کے ایک دروازے کی طرف بڑھنے کو شش کی مگر میر صادق نے وہ دروازہ پہلے ہی بند کروا دیا تھا تاکہ ٹیپو سلطان باہر نہ جا سکیں۔مگر ٹیپو سلطان کے کچھ سپاہی جو ان سے وفاداری کرتے تھے ۔یہ معاملہ جان میرصادق کی غداری قرار دتیے ہوئے اسے وہی پر قتل کر دیا اور ٹیپو سلطان انگریزوں کے خلاف لڑتے لڑتے شہید ہو گئے۔اس پوری غداری میں

 میر صادق کے ساتھ میر غلام علی، میر قمرالدین، میر قاسم علی اورایک ہندو پورنیا بھی شامل تھے۔ یوں ٹیپو سلطان نے ایک جملہ کہا کہ شیر کی ایک دن کی زندگی گیڈر کی ہزار سالہ زندگی سے بہتر ہے اور وہ شہید ہوگئے۔

یوں میر جعفر اور میرصادق عبرت کی علامت بن کر تاریخ میں ہمیشہ کے لئے محفوظ ہوگیے۔

یاد رہے وہ شخص جو قومی مفاد کو روندڈالتا ہے ، قومی اداروں کو ساکن کرتا ہے قومی اداروں مجبور کرتا ہے ، قومی خزانے کو نقصان دیلاتاہے اور ملک و قوم سے بے وفائی کرتا ہے۔وہ میر جعفر اور میر صادق کی طرح نشان عبرت بن جاتا ہے۔

میں آج یہاں پر تاریخ سے جوڑی ایک کہانی یاد دیلارہا ہوں میں کسی کو نہ میر جعفر اور نہ میر صادق سمجھتا ہوں میں صرف اتنا جانتا ہے وہ پاک زاد جو دلوں کے راز تک جاتا ہے وہی سب کچھ جانتا ہے۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button