نگران کابینہ اور(ن) لیگ کی تاریخی غلطی
مسلم لیگ (ن ) کے بارے میں یہ کہاجاتا ہے کہ اس کے اندر دماغ کم اور انا زیادہ پائی جاتی ہے۔ اور کہا جاتا ہے کہ اس جماعت نے جب بھی نقصان اٹھا یا اپنی نا سمجھی اور انا کی وجہ سے اٹھایا۔ ماڈل ٹاؤن کی ایک غلطی نے اس کو ایون اقتددار سے گھر بھیجنے کی حد تک پہنچا دیا تھا مگر دیگر سیاسی جماعتوں نے جمہوریت کے تسلسل کی خاطر اس کو سہارا دیا اور وہ بچ گئی. مگر دماغ کا استعمال پھر بھی مفقود نظر آیا اور اسلام آباد میں پھر سے وہی ضد دہرائی گئی اور ایک دفعہ پھر رخصت ہوتے ہوتے رہ گئی۔ اس جماعت کو مشکل میں ڈالنے کی خواہش کرنے والی قوتوں کے لئے اب اس کو اکسا کر اس سے نت نئی غلطیا ں سرزد کرانا کوئی مشکل کام نہیں ہے ۔ اس کی انا اور ضد کو ہوا دو تو یہ بغیر سوچے سمجھے کوئی بھی بڑی غلطی کر سکتی ہے۔جس سے نہ صرف ان کا اپنا مورال ڈاؤن ہونے میں دیر نہیں لگتی ہے بلکہ عوام میں اس کا گراف بھی ایک دم گر جاتا ہے۔
گلگت بلتستان میں امپاور منٹ اینڈسیلف گورننس آرڈر2009 کے تحت پہلی دفعہ وجود میں آنے والی پی پی پی کی حکومت کی مدت ختم ہونے کے بعد مسلم لیگ (ن) کی وفاق میں حکومت ہونے کے ناطے عوام کی نظریں اس جماعت پر لگی تھیں۔ مسلم لیگ (ن)کی طرف سے مہدی شاہ حکومت پر کڑی تنقید نے بھی اس جماعت کو گلگت بلتستان میں عوام کے قریب کر دیا تھا۔ اپنے دور اقتدار میں کئی غلطیاں سرزد کرنے والے مہدی شاہ وعدے کے مطابق اپنی مدت ختم ہوتے ہی اقتدار چھوڈنے کی ایک اچھی روایت قائم کرنے میں کامیاب ہو گئے ۔اس کے فورا بعد (ن) لیگ کا امتحان شروع ہو گیا۔ گوننس آرڈر میں بروقت ترمیم اور نگران وزیر اعلیٰ کی تقر ری تک معاملہ اتنا خراب نہیں تھا ۔کیونکہ عوامی حلقوں نے اس پر اتنے زور و شعور سے تحفظات کا اظہار نہیں کیا تھا۔ مگر جوں ہی نگران کابینہ کے وزراء کی پہلی کھیپ کا نوٹیفکیشن جاری ہوا تو عوام نے چیخنا شروع کردیا ۔
یہی وہ موقع تھا جب مسلم لیگ (ن) کو اکسا یاجا رہا تھاتاکہ وہ پھر وہی غلطی کرے جو اکثر ضد اور انا کی وجہ سے ان سے سرزد ہو جاتی ہے۔کھیلنے والی قوتوں نے اپنا پتہ کھیلا اور سکون سے بیٹھ کر تماشا دیکھنے لگیں۔ پھر تو کیا تھا کہ (ن) لیگ نے اس زبردست تاریخی غلطی کا ارتکاب کر لیا جس کا خمیازہ وہ آنے والے وقتوں میں بھگتے گی ۔ مگر (ن) لیگ کی اس غلطی کا جو خمیازہ عوام بھی آئندہ کئی نسلوں تک بھگتیں گے وہ یہ ہے کہ آئندہ ہر نگران حکومت اس پارٹی کی مر ضی سے بنے گی جو اسلام آباد میں بر سر اقتدار ہوگی کیونکہ اس غیر جمہوری روایت کا کریڈٹ (ن) لیگ کو جاتا ہے اور ضروری نہیں ہے کہ مستقبل میں ہر دفعہ (ن) لیگ اسلام آباد میں برسر اقتدار ہو گی لہذا جب بھی نگران حکومت بنانے کی بات ہو گی تو سب سے زیادہ (ن) لیگ پچھتاوے کا شکار ہو گی یعنی جب بھی نگران حکومت بننے لگے گی گلگت بلتستان کی پہلی (ن) لیگی نگران حکومت کا حوالہ دیا جاتا رہے گا اور اسلام آباد میں بر سر اقتدار جماعت کی مرضی سے نگران حکومت بنائی جائے گی اور ہر نگران حکومت کے قیام کے دوران (ن) لیگ کو اپنے آج کے کئے پر ندامت اٹھانی پڑے گی۔اور یہ سلسلہ کب میرٹ میں تبدیل ہوگا اس کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ہم مانتے ہیں کہ اس دفعہ ابتدائی مرحلے میں (ن) لیگ کے ساتھ بڑاہاتھ ہوا ہے جس میں(ن) لیگ کی نااہلی عوام کو دیکھنا نے کی کوشش کی گئی ہے اب یہ بھی دیکھنا ہے کہ خفیہ طاقتیں (ن) لیگ کے ساتھ مستقبل میں اور کیاکیا گیم کریں گی یہ آنے والے الیکشن میں پتہ لگ جائے گا۔
سوال یہ ہے کہ (ن) لیگ اس غلطی سے کیسے بچ سکتی تھی؟ (ن) لیگ کے گلگت بلتستان میں تھنک ٹینک کو یہ سمجھنا چاہئے تھا کہ نگران سیٹ اپ کا قیام ان کے ان تمام دعوؤں اور وعدوں کا ٹیسٹ کیس تھا جو وہ گزشتہ پانچ سالوں سے عوام کے ساتھ کرتے رہے ہیں۔ ضرورت اس امر کی تھی کہ (ن ) لیگ نگران وزیر اعلیٰ کو مضبوط کرتی اور اسلام آبادیوں کو سمجھادیتی کہ نگران وزیر اعلیٰ کی رائے کو اہمیت دی جائے۔ اگر ایسا کیا جاتا تو وزراء کی پہلی کھیپ کی کھپت میں گڑبڑ ھ کا امکان کم ہوتا اور اگر اس کے باوجو د پہلی کھیپ کی کھپت میں اسلام آباد والے ہاتھ کر جاتے تو (ن) لیگ کو اس فیصلے کو انا کامسلہ نہیں بنانا چاہیے تھا بلکہ دوسری دفعہ وزریر اعلیٰ پر ہی چھوڈ دیا جاتا تاکہ وہ اپنے لئے ٹیم کا چناؤ کرتے اور پہلی غلطی کا ازالہ ہو جاتا۔ مگر (ن ) لیگ غصے میں غلطیوں کا ارتکاب کرنے کی عادی تھی اس لئے انہوں نے وہ کیا جو ان کے حریف چاہتے تھے ۔ پہلی کھیپ کے چناؤ کے بعد (ن) لیگ نے ملبہ کانا ڈویژن کی بیوروکریسی پر ڈال کے خود کو بری الذمہ قرار دیا تھا مگر اس کے بعد عجلت میں گلگت سے یہ اعلان کر کے اسلام آباد جانا کہ اب ہم نگران کابینہ کے چناؤ میں مداخلت کریں گے اور اسلام آباد جا کر فہرست بنا کر دینے کے بعد (ن) لیگ خود کو اس فعل سے بری الذمہ قرارنہیں دے سکتی۔اب وزراء کی فوج ظفر موج سے لے کر کے مختلف پارٹیوں کے لو گوں کو نگران کابینہ میں شامل کرنے تک سارا کا سارا ملبہ (ن) لیگ کے سر ہے۔
نگران کابینہ اگلے دو تین مہینوں میں گھر جائے گی مگر نگران کابینہ کے چناؤ میں کی گئی غلطی (ن) لیگ کا پیچھا نہیں چھوڈے گی۔ اس ٹسٹ کے بعد عوام سو چنے پر مجبور ہو گئے ہیں کہ جی بی میں کرپشن سے پاک اور میر ٹ پر مبنی گڈ گورننس کا دعویٰ کر نے والی جماعت پہلے مر حلے میں ہی اپنے بلند بانگ دعووں کی نفی کر گئی ہے لہذا اس سے مستقبل میں اچھے فیصلوں کی تو قع کیسے رکھی جا سکتی ہے؟
جی بی میں سفارشی بنیادوں پر نگران کابینہ کے چناؤ کے عمل کے بعد جمہوری معاشروں کے سر شرم سے جھک گئے ہیں کیونکہ نگران حکومتوں میں سیاسی وابسطگیوں کی بنیاد پر کہیں بھی وزراتیں نہیں دی جاتی ہیں ۔نگران سیٹ اپ دنیا بھر میں غیر سیاسی ہوتا ہے تا کہ وہ الیکشن میں غیر جانبداری کا مظا ہر ہ کر سکے ۔ اگر جانبدار اور سیاسی سیٹ اپ ہی بنانا تھا تو کیا ہی اچھا ہوتا کی نگران سیٹ اپ کے لئے گورننس آڈر میں ترمیم کی زحمت نہ کی جاتی تاکہ جیسے پہلے ایل ایف او کے تحت نظام چلتا تھا اسی طرح چلتا رہتا ۔ اب گلگت بلتستان کی نگران کابینہ کا چناؤ کا عمل تاریخ کا حصہ بن گیا ہے جس کا خمیازہ آئندہ آنے والے وقتوں میں (ن) لیگ کو بہر صورت بھگتنا بڑے گااور اس عمل کو لیگی غلطی کے طور پر تاریخ میں یاد کیا جاتا رہے گا ۔ گویا لمحو ں نے خطا ء کی صدیوں نے سزا پائی۔