گداز انگلیوں میں پسٹل
قوم کی نوجوان بیٹی جو استانی ہے اور مہذب ومحترم جس نے علم کا دیا روشن کرنے کا بیڑھا اٹھائی ہے۔اس کی نرم وگدازانگلیوں سے بسٹل کی ٹیگر دبانے کو کہا جاتا ہے۔نازک کلائیاں لرزتے لرزتے اُٹھتی ہیں۔پسٹل اٹھاکر آنکھوں کی سیدھ میں لگاکر ششت باندھاجاتا ہے ٹیگر دبایا جاتاہے۔بازو لرزتے ہیں۔دل دھک دھک کرتا ہے سانس رکتی ہیں،آواز آتی ہے۔۔۔۔اگر خدا نخواستہ ایسے حالات درپیش ہوں تو اپنے آپ کو اور اپنے طلباء کو بچانے کے لئے یہ ضروری ہے۔اپنا دفاع ۔۔۔۔دور سے پھر آواز آتی ہے۔آپ کو اور آپ کے بچوں کو کچھ نہیں ہوگا۔جتنا خوف کھایا جائے اتنا خوف کے سایے بڑھتے ہیں پھر فخرِ موجودات ؐکا ارشاد یاد آتا ہے جو علم حاصل کرنے کے لئے نکلے اور اس راستے میں مرے تو شہید ہے۔شہید کی موت قوم کی زندگی ہے۔گدازانگلیاں ٹیگر دباتے دباتے تھک جاتی ہیں۔قوم کی بیٹی پسٹل اپنے ٹرینر کے سامنے رکھ لیتی ہے۔وہ پسٹل چلانے کے لئے نہیں بنایا گیا۔وہ شیشے کی طرح نازک ہے۔شرم وحیا کا پیکر سوچ میں ڈوب جاتی ہے۔مرد تو ناموس عورت ہے مرد حفاظت کے لئے ہوتا ہے اس کے ساتھ خون کا نذارانہ پیش کرنا،گولی کھانا اور گولی چلانا اچھا لگتاہے۔وہ للکارتا ہے تو کائنات لرزہ براندام ہوتی ہے۔صحراوں کے لالے،پہاڑوں کی شگاف،دریاؤں کے جوار بھاٹے اور سمندروں کی لہریں ان کے گواہ ہیں۔ایک غیرت مند بھائی ،باپ اور بیٹا کی ماں ،بہنیں،بیٹی ہتھیار کیوں اُٹھائے۔۔۔۔وہ اپنی چادر سنبھالتی ہے تو یادوں کے کنویں میں ایک صحرا کا منظر آتا ہے۔خبر پہنچتی ہے۔۔۔مسلمان شکست کھاگئے۔ماں بہن بیٹیاں صحرا کی طرف دوڑتی ہیں۔مشکین بھر بھر کرپانی لاتی ہیں۔پھر زخمیوں کی مرہم پٹی کرتی ہیں۔محمد مصطفےؐ کے زخم دھوتی ہیں ثابت ہے کہ کئی مواقع پر تلوار اٹھاتی ہیں۔۔۔۔اس کا گداز بدن پتھر کا ہوجاتا ہے۔اس نے کتابوں میں پڑھی ہے کہ 1965ء میں لاہور کی مائیں،بہنیں،بیٹیاں میدان میں اتری تھیں۔وہ پسٹل اٹھا کر اس کو بوسہ دیتی ہے۔گویا کہ یہ اس کا زیور ہے سوچ کا دھارا غیرت کے امرت دھارے میں مل جاتا ہے۔۔۔۔زندہ قوموں پر آزمائشیں آتی ہیں۔آزمائش کی گھڑی میں زندہ قوم چٹان بن جاتی ہے۔اس لئے ان گھڑیوں کا حساب رکھتی ہے۔آزمائش کی گھڑی میں زندگی ان کو اور لطف دیتی ہے۱س قوم کا بچہ زخمی بازو کو تلوار سے چھیل کاٹ کر پھینک دیتا ہے۔اس کا جوان اپنا گھوڑا سمندر میں ڈال دیتا ہے ۔اس کا شاہین اپنا جہاز دشمن کی زمین میں گرنے نہیں دیتا ۔اگر بندوق میں گولی ختم ہوجائیں تو خالی ہاتھ لڑتا ہے۔جب قوم یوں قربانیاں پیش کرکے اپنا زندہ ہونے کا ثبوت فراہم کرتی ہے تو آسمانوں کا مالک ان کو ’’آزادی‘‘ کی صورت میں انعام سے نوازتا ہے۔۔۔استانی کا گداز بدن لوہے کابن کا جاتا ہے وہ پسٹل کو پھر بوسہ دیتی ہے۔۔۔وہ آزمائش کی گھڑیوں کا مقابلہ کرے گی۔اس کو کچھ نہیں ہوگا۔وہ اور اس کے بچے ہر آفت سے محفوظ رہیں گے ۔۔۔سکول کے گیٹ سے اندر جاتی ہوئی اس کا اعتماد دیدنی ہے ۔خوف اس سے کوسوں دور ہے۔گھنٹی بچتی ہے۔۔۔قومی ترانہ کے آخری بول پر وہ سرجھکاتی نہیں سراُٹھاتی ہے۔۔۔سایہ خدائے ذوالجلال۔۔۔۔نیلی چھت کی طرف نگاہ کرتی ہے اور زیر لب کہتی ہے اے اللہ ہماری پاک سرزمین کو اپنے حفظ وآمان میں رکھے۔۔۔وہ غیرت مند قوم کی غیرت مند بیٹی ہے۔اپنی کلاس میں جاتی ہے تو اس کی گداز انگلیوں میں پسٹل کی جگہ قلم ہے جو اس کا سب کاریگر ہتھیار ہے ۔۔۔۔قسم ہے قلم کی جو وہ لکھتا ہے‘‘