وائسرائے برجیس طاہر!
سننے میں بہت اچھا لگتا ہے کہ ہم آزاد قوم ہیں۔ ہم اس بات پر فخر بھی کرتے ہیں کہ ہمارےآباؤ اجداد انگریزوں کو برصغیر سے نکلنے پر مجبور کیا اور جس دن سے انگریز یہاں سے چلے گئے ہیں ہم ایک غلام قوم سے یک دم آزاد اور خودمختار ہوگئے۔ اب ہم پر حکومت کرنے کے لیے ولایت سے کوئی وائسرائے بن کر نہیں آئے گا بلکہ ہم میں سے ہی ایک قابل اور مناسب شخصیت حکمرانی کے لیے چنی جائے گی۔ لیکن پاکستان کے کچھ علاقے شاید ابھی بھی آزاد نہیں ہوئے۔ وہاں اب بھی کوئی موزوں آدمی موجود نہیں جو اپنے لوگوں پر حکومت کرنے کے قابل ہو۔ اس لیے ان پر حکمرانی کے لیے باہر سے وائسرائے بھیجے جاتے ہیں۔ ایک لمحے کے لیے میری یہ بات آپکو مبالغہ آرائی لگے گی لیکن غور کرو تو معاملہ کچھ ایسا ہی ہے۔
2009ء میں گلگت بلتستان کو صوبے کے برابر کو درجہ دیا گیا۔چلو اچھا ہوا کہ 62 سال بعد اس علاقے کو صوبہ نہ صحیح صوبے کے برابر تو سمجھا گیا۔ لوگوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی کہ اب ہم اپنے فیصلے خود کریں گے۔ اب ہمیں کسی کام کے لیے اسلام آباد جانے کی ضرورت نہیں ہوگی۔ اب ہم پر ہمارے لوگوں کی حکومت ہوگی جو ہمارے علاقے کے مسائل کا حل ہمارے روایات کو مد نظر رکھتے ہوئے کریں گے۔ ہوا کچھ ایسا ہی، اسمبلی بن گئی اور حکومت بھی لیکن گورنر کے لیے گلگت بلتستان کے اتنے بڑے علاقے میں رہنے والے 10 لاکھ سے زائد کی آبادی میں کوئی موزوں آدمی نہیں ملالہذا ایک وفاقی وزیر کو پنچاب سے لا کر گورنر بنایا گیا۔
کیا اس وقت گلگت میں کوئی موزوں شخصیت نہیں تھی جو گورنر بنانے کے لائق ہو یا پھر بڑے صوبوں کے بڑے لوگ چھوٹے علاقے کے چھوٹے لوگوں کو بڑے عہدے پر دیکھنا نہیں چاہتے تھے؟ اصل میں یہ سب ایک مقصد کے لیے کیا گیا تھا اوروہ مقصد تھا گلگت میں پی پی پی کی حکومت کا قیام ۔ جب وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوئے تو گلگت میں موزوں شخصیت بھی مل گی اور ایک محترم شخصیت کو گورنر کے عہدے پر بھی تعینات کردیا گیا۔ پی پی پی حکومت جیسے تیسے کر کے گزر گئی ۔جس طرح مرکز میں وہ قصہ پارینہ بن گئے کچھ ایسا ہی حال ان کا گلگت میں بھی ہوتا ہوا نظر آرہا ہے۔
اب ایک بار پھر گلگت میں گورنر کی تعیناتی کو معاملہ آگیا۔ اب کی بار مرکز میں حکومت ن لیگ کی ہے اور گلگت میں الیکشن کی آمد آمد ہے۔ قائم مقام حکومت بن گئی ہے لیکن گورنر کے لیے عہدے کے لیے گلگت کا مردم خیز علاقہ ایک بار مرکز والوں کو بنجر لگنے لگا اور گونر کے عہدے پر قائم مقام (وائسرائے) بنا کر جناب برجیس طاہر کو لاہور سے بھیجا گیا ہے۔
ان کو میں وائسرائے اس لیے کہ رہا ہوں کہ انگریزوں کے زمانے میں جو خدمات وائسرائے تاج برطانیہ کے لیے سرانجام دیتے تھے وہی کام اب یہ قائم مقام گورنرحضرات مرکزی حکومت کے لیے انجام دے رہے ہیں۔ پی پی پی حکومت اپنے ایک وفاقی وزیر کو قائم مقام گورنر بنا کر بھیجا جو حکومتی بابوؤں کے ساتھ مل کر گلگت میں پی پی پی کی حکومت قائم کرنے کے لیے راہ ہموار کی اور جب وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوئے تو انہیں واپس بلا کر انعام کے طور پر ایک اچھی اور بڑی وزارت عطا کی گئی۔ جس طرح ن لیگ کی حکومت سابقہ حکومت کی پالیسیوں کو جاری رکھی ہوئی ہے اس کو دیکھ کر یہی توقع کیا جا رہا تھا جو انہوں نے کر دیا۔ مرکز میں بیٹھے ہوئے ایک وفاقی وزیر کو گلگت کا قائم مقام گورنر بنا دیا گیا ہے۔ جو لوگ لاہور میں رہتے ہوئے لاہوریوں کے لیے کچھ نہیں کرتے وہ گلگت جا کر وہاں کے لوگوں کی کیا خاک مدد کریں گے؟ ان کو تو مرکزی حکومت اپنی مدد کے لیے وہاں بھیجا ہے۔ مقصد اس کا وہی ہے جو پچھلی حکومت کا تھا۔ یہ حضرت سرکاری اہلکاروں کی مدد سے الیکشن کو سبوتاژ کرتے ہوئے گلگت میں ن لیگ کی حکومت قائم کرنے میں بھرپور کردار ادا کریں گے اور واپس آکر انعام وصول کریں گے۔ گلگت کے لوگوں کا کیا ہے ان میں سے کوئی ایک بعد میں گورنر تو بن جائے گا۔ بس ذرا صبر سے کام لیں اور ترکیب خاص سےبنی ہوئی ایک حکومت تو قائم کرنے دیں۔