تلاش منزل !دیس یا پردیس؟
گزشتہ دنوں ایک یوتھ پروگرام میں ’’تلاش منزل !دیس یا پردیس؟ ‘‘ کے موضوع پرمباحثے کا اہتما م کیا گیا جس میں شرکاء نے دل کھول کراپنے موضوع کے حق میں اور مخالفت میں دلائل دئیے ۔ سامعین و ناظرین کی دلچسپی کے اظہار کا سماں دیکھ کر قارئیں تک اس مباحثے کا خلاصہ پیش خدمت ہے۔
جوں جوں دنیا عالمی دیہہ(گلوبل ویلج) بنتی جارہی ہے گردش روزگارکی تلاش کاسلسلہ بھی نئی رنگت اپنارہی ہے۔لوگ یہ بات سمجھنے سے قاصرہیں کہ اپنے دیس میں رہیں یادیارغیرمیں تلاش معاش ۔ آج کل میڈیا اورمعلومات عامہ کی کثرت کی وجہ سے لوگ دوسرے ممالک کے تحقیق و ایجادات سے بہت متاثر ہو رہے ہیں۔ ہرفرد تعلیم وتربیت اور ان کے حصول کیلئے دوسرے ملکوں میں جاناچاہتاہے۔ یہی رجحان صدیوں سے دیکھاگیا ہے۔ ہمسایوں کا کھیت سرسبزنظر آنے کی نفسیاتی کیفیت کا سلسلہ قدیم سے اہم رہاہے۔ لوگ اپنی چیزوں کو حقیر اور دوسروں کو اہم سمجھتے رہے ہیں۔ اس ہیجانی کیفیت نے ہمیشہ انسان کو دیار غیر کی طرف مرغوب کیاہے۔ اگرچہ دنیابین اورجاہل میں فرق فطری بات ہے۔ جس نے جتنی دنیادیکھی اتنا ہی وسیع القلب اوروسیع الخیال سمجھاجاتاہے۔ بعض لوگ دوسرے ملکوں سے بہت کچھ سیکھ کے آتے ہیں اور بعض دوسروں کو سیکھانے جاتے ہیں۔ ہمارے ملک میں عرصہ دراز سے لوگ اپنے ملک کے پیداوار پر اعتبار کم دوسرے ملکوں خاص کر یورپ کی طرف بڑی امید سے دیکھنے کے قائل ہوچکے ہیں۔ امیرلوگ قبل از تقسیم ہند بھی یورپ اور امریکہ کو ترجیح دے رہے تھے اور آج بھی اپنے بچوں کو تعلیم‘ صحت اور دیگر شعبوں میں باہر ہی بیھج دیتے ہیں۔ اس عمل میں سیاسی‘ سماجی‘ حکومتی اور مذہبی لوگ بھی شامل رہے ہیں۔اساتذہ اور علمائے کرام لوگوں کو اپنے ملک سے وفاداری اورعہد وفا پر زوردیتے رہتے ہیں لیکن اپنے بچوں کو ہر صورت دوسرے ملکوں سے تعلیم دلواتے ہیں۔ ہمارے ملک کا المیہ یہ ہے کہ خود ملکی ادارے اپنے تعلیمی اور پیشہ ورانہ اداروں کے فارغ التحصیل لوگوں پر باہر کے اداروں سے ڈگری لینے والوں کو ترجیح دیتے ہیں۔ جس کی وجہ سے لوگ بین الاقوامی سند کی حصول کو بہت ترجیح دیتے ہیں۔ اپنے اداروں پر اس قدرنااعتباری اورشک کی وجہ سے لوگ ان سے بدظن ہوچکے ہیں۔ ہماری نئی نسل توکیا ہمارے بزرگ بھی باہر کی ہر چیزکو دیکھ کر اوران کی خریداری پر فخر محسوس کرتے ہیں جس کی وجہ سے یہ عادت ہماری ورثہ بنتی جارہی ہے۔ ان عادتوں کی وجہ سے ہماری معیشت بیٹھ گئی ہے کارخانے بندہوچکے ہیں اور سرمایہ کاربھی ملک سے باہر جانے کو ترجیح دے رہے ہیں۔ ملکی سرکاری تعلیمی اداروں میں کرپشن اور اقراپروری کی وجہ سے لوگوں کا اعتماد اڑ گیا ہے آج کل لوگ محض نوکری کی خاطر محکم تعلیم میں آتے ہیں۔ خدمت اورجذبہ حب الوطنی ختم ہوچکی ہے۔ نجی ادارے یوروپی نام رکھ کرانہی کے طرزپرخدمات پیش کررہے ہیں جس کی وجہ سے لوگ ان کی طرف راغب ہورہے ہیں۔ سرکاری اداروں میں تعلیم‘ صحت‘ زراعت‘ معدنیات‘ ذرائع ابلاغ‘ زرائع امدرفت اوردیگرشعبے زوال‘ بے بسی اورویرانے کا منظر پیش کر رہے ہیں۔ گزشتہ چندادوار کے بنائے ہوئے نئی عمارتیں ‘ روڈ‘ پُل اور دیواریں ہمارے توجہ اورانصاف کا منہ بولتا ثبوت بن چکے ہیں۔ نئی تعمیرات کسی ملک کی ترقی کی علامت ہوتی ہے۔ ان ہی سے لوگوں کی مہارت‘ تحقیق اورایمان کا اندازہ ہوتاہے۔ہمارے ملک میں جو کام ہمارے اداروں نے کی ہے اُن کو دیکھ کر شرم آتی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ان اداروں میں سارے ان پڑ اور جاہل ہیں۔ جبکہ دوسرے ملکوں کی قیادت میں بنائے جانے والے کام ان کی علم‘مہارت اور اعلیٰ کارکردگی کی مثال پیش کررہی ہیں۔ بین الاقوامی دنیا کی نئی چیزیں مارکیٹ میں اپنی جگہ بناچکی ہے اور ہمارے چیزیں نیاب ہوتے جارہے ہیں۔ تعمیرات کی حالت اور حکومتی توجہ آج کل کا سب سے بڑا موضوع ہے۔ سرکاری دفاتروں‘سکولوں ‘ کالجوں اور یونیورسیٹوں کی عمارات اور انکی تعمیر سے ہماری قومی شخصیت کی عکاسی ہوتی ہے۔ عمارات کی تعمیر اورحوالگی سے قبل ہی وہ ’’نو گو ایرا‘‘ بن جاتی ہے۔ آپ اپنے گاؤں کے کسی بھی نئی عمارت کا ایک دن وزٹ کریں ہمارے اعمال واضح نظر آئیں گے۔ ہماری ہر چیزملاوٹ سے پاک نہیں۔ مٹھائی سے لیکر کھانوں تک ملاوٹ میں ہم نام کماچکے ہیں۔ بچوں کے استعمال کی چیزیں ہو یا بڑوں کے ملاوٹ اوربناوٹ سے دو نمبر ہوتی ہے۔ خوف خدا اور انصاف کا کوئی منظر نظر ہی نہیں آتا۔ ہر چیز میں کرپشن ہی کرپشن‘ اللہ خیر کریں۔ ہماری قوم نفسیاتی مریض بن چکی ہے۔ امراء اپنی دولت باہرمنتقل کر رہے ہیں۔ اپنے مکانات کی ایک ایک چیزبین الاقوامی مارکیٹ سے خریدتے ہیں۔ اس پس منظر میں کیا نئی نسل دیس میں رہے گی؟ کبھی نہیں۔ یہی وجہ سے کہ آج کل مزودر سے لیکر ڈاکٹر‘ انجینئر‘ استاد‘ ٹیکنیشن‘ اعلیٰ مہارت کے تمام لوگ باہر کے ملکوں میں جانے کے لئے بے تاب ہیں۔ امریکہ اور یورپ کے لوگوں نے اپنے ملکوں میں اداروں کو مضبوط کرنے کی سعی کی ہے ہم اپنے اداروں کا پہیہ جام کرتے جار ہے ہیں۔ اس صورت حال میں ترقی کی خواب کی تعبیر کیسے ہوگی۔ ہماری نئی نسل کے مزدور‘ ڈاکٹر‘ انجینئر‘ پروفیسر‘ ڈرائیور‘ ڈیزاینر‘ مکینک اور مہارت یافتہ لوگ راتوں رات اس ملک سے فرار ہونے کی کوشش میں لگے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے ملک سے تنگ آچکے ہیں اس ملک میں ان کی کوئی عزت ابرو اور تحفظ نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ اپنی مہارتوں اور علم سے دوسرے ملکوں کو ترقی کی راہ پر ڈالنے میں اپنا حصہ ڈال رہے ہیں۔ بیشک یہ لوگ پیسے کماکر وطن بھیجتے ہیں لیکن اُنہی پیسوں سے ان کے گھر والے غیر ملکی سامان زیست خریدتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ ہم اپنے ملک کے ساتھ مخلص نہیں۔ سعودی عرب سے لیکر ترکی تک‘ افریقہ سے لیکر روس تک‘ اسٹریلیا سے لیکر امریکہ تک ہمارے لوگ محنت مزدوری میں مصروف عمل ہیں ۔ ہم ان کے حوصلے کو سلام پیش کرتے ہیں لیکن ہمارے ملک کا کیا ہوگا؟ یہ ان لوگوں کا قصور نہیں یہ ہمارے حکمرانوں کا قصور ہے کہ ہماری نئی نسل کو سہولتیں نہیں دی۔ 1973ء کے آئین اور قانون کے مقرر کردہ مراعات ابھی تک جاری ہے۔ بااثر ادارے اپنے مراعات میں تبدیلیاں کراچکی ہیں۔ مارکیٹ ریٹ اسمان پر گئی ہے لیکن مراعات وتنخواہوں کا وہی قدیم نظام رائج ہے۔ ہمارے حکمران حکومت میں آتے ہی اپنے لئے مراعات اور تنخواہیں مقررکرتے ہیں جبکہ اداروں کی حالت گرتی جارہی ہے۔ سرکاری اداروں پر لوگوں کا اعتماد اڑ چکا ہے۔ سرکاری ملازمین اپنے چولہے جلانے اور بچوں کے اخراجات پورے کرنے کے لئے درپدر ہے۔ حکمران اُن کے قلیل تنخواہوں پر بھی راضی نہیں۔ اُنکی مرضی ہوتی تو رہی سہی تنخواہیں بھی اپنے نام کردیتے۔ پولیس ‘اساتذہ کرام اور دیگر کے تنخواہوں کے چرچے عام ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ بمشکل گزر بسر کررہے ہیں۔ یہی حال ڈاکٹروں‘ انجینئروں اور زندگی کے سب شعبوں کا ہے۔ آج کل سوائے عدلیہ کے باقی تمام شعبے سرکاری توجہ کے منتظر ہیں۔ سرکاری ملازمیں کی تربیت کا کوئی انتظام نہیں اگر ہے تو بھی اُن کے لئے سلکشن کا طریقہ کارنرالا ہے۔ اس صورت حال میں دیس میں کون رہے۔ اس وجہ سے ہمارے ماہر اور قابل لوگ پردیس میں ملک سے دوردرپدر ہیں۔ ہوسکتا ہے وہاں ان کی قدر بہت زیادہ ہو لیکن ملک سے دورکسی بھی وقت سیاسی و ملکی حالات ان کی واپسی کا پیش خیمہ بن سکتی ہیں۔ بین الاقوامی اثرورسوخ بھی ہماری زندگی کے لئے اہم ہے لیکن ہمیں اپنے ملک کو ایسا مقام دنیاہوگا کہ ہمارے سپوت یہی خدمت کرکے نام کمائیں تاکہ باہر ملک سے ٹیلنٹ ہماری طرف توجہ حاصل کریں۔ علم وہنر اور تحقیق کی تلاش میں غیرملک کی اہمیت سے انکار نہیں لیکن کیا ہم وہ تما م وسائل اور ادارے اپنے ملک میں مستحکم نہیں بناسکتے۔ ترقی یافتہ ممالک اپنی افرادی قوت کی قدراور حوصلہ افزائی کرتے ہیں جس کی وجہ سے وہ یک سوئی کے ساتھ اپنی ملک کی ترقی میں کردار اداکررہے ہیں۔ ہم حکمرانوں سے توقع رکھیں گے کہ وہ آنے والے وقت میں ملکی اداروں کی استحکام میں اپناکردار ادا کریں۔ ورنہ ’’ہماری داستان تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں‘‘۔ آپ کا کیا خیال ہے؟ کیا ہمارے ملک کے سرکاری ادارے افرادی قوت کیلئے جاذب نظر ہیں؟ کیا ہم سب کو دیار غیرپر اکتفا کرنا چاہئے؟