کالمز

محبت کے محل تعمیر کرلو۔۔۔۔۔۔

ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی ذرخیر ہے ساقی۔۔۔۔

ہاشو فاؤنڈیشن کے ریجنل پروگرام منیجر بلبل جان شمس کا حکم آیا کہ میں ممبر جی بی کونسل ارمان شاہ اور اے آئی جی (ر) سلطان اعظم کو بھی لے کر چٹورکھنڈ پہنچوں۔۔۔۔۔

مجھے بتایا گیا تھا کہ ہفتے کی شام گاہکوچ پہنچ جائیں، لیکن وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہو۔۔۔۔۔ ہم تینوں نے شام کو گاہکوچ جاکر ریسٹ ہاؤس میں رات گزار کر اگلے روز چٹورکھنڈ جانے کی بجائے گلگت سے ہی صبح سویرے روانگی کا پروگرام بنایا۔۔۔۔۔

ایسا ہی ہوا اور اتوار کی صبح ہم تینوں چٹورکھنڈ جانے کیلئے روانہ ہوگئے، گاہکوچ’’گرین پیلس ہوٹل‘‘ کا ناشتہ توقع سے زیادہ مذیدار تھا اور بلبل جان شمس صاحب ناشتے پر ہمارا انتظار کررہے تھے، کافی عرصے بعد چٹورکھنڈ جانے کا اتفاق ہوا۔۔۔۔۔

سابق گورنر اور سابق ڈپٹی چیف ایگزیکٹیو پیر کرم علی شاہ چٹورکھنڈ کے رہنے والے ہیں، لیکن عوامی سہولیات کے حوالے سے سرکاری اداروں کا کردار دیکھ کر مجھ جیسا کوئی بھی مہمان اس علاقے میں جائے گا تو وہ چند لمحوں کیلئے رک کر سوچے گا کہ سابق ڈپٹی چیف ایگزیکٹیو اور سابق گورنر کے آبائی گاؤں میں زندگی کی بنیادی ضروریات ناپید ہیں، کیا ایسا ہوسکتا ہے؟ہاں ایسا ہوسکتا ہے اور ایسا ہی ہے، گلگت بلتستان میں حکمرانی کے دونوں اعلیٰ عہدوں پر خدمات سرانجام دینے والے طاقتور شخصیت کے آبائی گاؤں میں سڑکوں کی حالت، پینے کے صاف پانی کی فراہمی، تعلیم اور صحت کی سہولیات تقریباً نہ ہونے کے برابر ہیں۔۔۔ گلگت بلتستان کونسل کے ممبر ارمان شاہ نے بھی بحیثیت مہمان خصوصی اپنے خطاب میں اشکومن اور ضلع غذر کے عوام کو یہ خوشخبری سنائی کہ پاکستان مسلم لیگ ن کی صوبائی حکومت تاجکستان روڈ کی تعمیر ضلع غذر کی تحصیل اشکومن کے ذریعے کرکے نہ صرف ضلع غذر بلکہ گلگت بلتستان کے عوام کو بہترین تحفہ دیں گے جس کیلئے وزیر ا علیٰ گلگت بلتستان ہر فورم پر جدوجہد کررہے ہیں۔۔۔۔

ممبر گلگت بلتستان کونسل ارمان شاہ سیاست میں نووارد ہیں، لیکن چٹور کھنڈ میں ہاشو فاؤنڈیشن اور لوکل سپورٹس آرگنائزیشن کے زیر اہتمام یوم آزادی پاکستان کی مناسبت سے منعقد ثقافتی پروگرام (جسے میں واقعی خالصاً ثقافتی پروگرام کہوں گا) میں بحیثیت مہمان خصوصی ان کی تقریر ایک منجھے ہوئے سیاستدان کی تقریر تھی، الفاظ کا استعمال، جملوں کی ادائیگی، باڈی لینگویج، ایسا لگ رہا تھا خوب تیاری کرکے آئے ہیں ،لیکن مجھے پتہ ہے کہ انہوں نے کوئی تیاری نہیں کی تھی۔۔۔۔۔

سٹیج سے افواج پاکستان زندہ باد، نریندر مودی مردہ باد، پاکستان زندہ باد اور شیر گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن زندہ باد کے نعروں کا جواب ہزاروں کے مجمعے نے جس جوش و خروش سے دیا، وہ بھی قابل دید تھا۔۔۔۔

تقریب میں تقاریر کا ذکر اپنی جگہ، لیکن چٹورکھنڈ میں ’’احباب سخن اشکومن‘‘ کے فنکاروں، پروگرام میں شریک بچوں، جوانوں اور خواتین کا ڈسپلن میں کبھی نہیں بھولوں گا۔۔۔۔۔

مجھے یقین ہی نہیں آرہا تھا کہ میں گلگت بلتستان کے ایک پسماندہ اور دور دراز قصبے میں بیٹھ کر ثقافتی پروگرام سے لطف اندوز ہورہا ہوں، بلکہ ایسا لگ رہا تھا کہ میں الحمراء اسلام آبادسے بھی زیادہ پوش علاقے میں مہذب لوگوں میں ہوں،9سالہ بچے کے گانے کا انداز، 80سالہ بزرگ کی گائیگی کے دوران نوجوانوں کا والہانہ رقص۔۔۔۔ گلگت بلتستان کے تمام اضلاع کی ثقافت کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا ہے، ثقافتی پروگرامز میں بھی شرکت کی، گلگت شہر میں ثقافتی پروگرامز کی ترویج میں میرا اپنا کردار رہا ہے۔۔۔ رات گئے تک ثقافتی شوز کے نام پر طوفان بدتمیزی کی سی صورتحال بھی دیکھی۔۔۔۔ ہنزہ میں کئی مرتبہ کلچرل شوز کے دوران لڑائی جھگڑے جیسی صورتحال کا بھی مشاہدہ کیا۔۔۔۔ نگر میں تو اس طرح کے پروگرامز کا انعقاد تو جوئے شیر لانے کے مترادف ہے، لیکن چٹورکھنڈ میں4گھنٹے سے زائد جاری رہنے والے ثقافتی شو میں جس نظم و ضبط اور ڈسپلن کا مظاہرہ ہوا، وہ میرے لئے بالکل نیا تجربہ تھا اور میری شدید ترین خواہش ہوگی کہ گلگت بلتستان کے دیگر اضلاع اور علاقوں کے لوگ چٹورکھنڈکے بچوں، بزرگوں اور نوجوانوں کی کم از کم اخلاقیات، مہمان نوازی، ادب و آداب او رتحمل مزاجی کو قریب سے دیکھیں اور ان اچھی صفات کو سیکھنے کی کوشش کریں۔۔۔۔۔

مجھے اس علاقے کی موسیقی، شاعری اور گلوکاروں کی گلوکاری نے بھی بے حد متاثر کیا، کم از کم25کے قریب گلوکاروں نے گائیکی کے ذریعے اپنے فن کامظاہرہ کیا، ایک ڈرامے میں شادی بیاہ کی پرانی رسموں کی یاد تازہ کردی گئی، پروگرام میں شامل کئے گئے90فیصد”ITEMS”’’کھوار‘‘ زبان میں تھے، زبان سے نابلد ہونے کے باوجود4گھنٹے مجھے4منٹ سے کم محسوس ہوئے۔۔۔۔ کوئی ایک بھی آئیٹم ایسا نہ تھا جس میں کوئی بوریت کا معمولی عنصر بھی شامل ہو۔۔۔۔۔۔۔۔ ارباب سخن اشکومن کے کرتا دھرتا مراد خان اور اس کے تمام فنکار یقیناًمبارک باد کے مستحق ہیں۔۔۔۔

لوکل سپورٹس آرگنائزیشن کے چیئرمین علی گوہر کی علاقے کی تعمیر و ترقی سمیت ثقافت کے فروغ اور بین المسالک ہم آہنگی کیلئے شبانہ روز محنت، خلوص اور جذبہ بھی قابل تقلید ہے اور مجھے امید ہے کہ ممبر گلگت بلتستان کونسل ارمان شاہ اپنے وعدے کے مطابق لوکل سپورٹ آرگنائزیشن (LSO)چٹورکھنڈ کے ساتھ بھرپور تعاون کریں گے۔۔۔۔۔

مجھے چٹورکھنڈ کی ثقافت، بچے، نوجوان اور بزرگ ہمیشہ یاد رہیں گے، مجھے گورنمنٹ ہائی سکول چٹورکھنڈ کا وہ بچہ بھی ہمیشہ یاد رہے گا جس نے بے سروسامانی کے باؤجود ’’ایسیکوٹر‘‘مشین ڈیزائن کیا اور پہلا انعام حاصل کیا، وہ والینٹیئرز بھی ہمیشہ یاد آتے رہیں گے جنہوں نے اتنے سارے مہمانوں کیلئے کھانے پینے کا اہتمام کیا بلکہ سیکورٹی انتظامات میں بھی پیش پیش رہے۔۔۔۔۔۔ اتوار کی شام چٹورکھنڈ سے واپس گلگت جاتے ہوئے میں سوچ رہا تھا کہ کبھی ایسا بھی ہوگا کہ گلگت بلتستان کے دور دراز علاقوں میں بسنے والے غریب لوگوں کے باصلاحیت بچوں کو بھی ان کے گھر کے دروازے پر معیاری تعلیم کی فراہمی کیلئے انقلابی اقدامات اٹھائے جائیں گے، ہڑتالوں، احتجاجی تحریکوں اور توڑ پھوڑ سے نفرت کرنے والے لوگوں کو بھی زندگی کی بنیادی ضروریات کی فراہمی کیلئے حکمت عملی ترتیب دی جائے گی، سیاسی حکومتوں کیلئے مشکلات پیدا نہ کرنے والوں کے بچوں کو بھی میرٹ پر سرکاری ملازمتیں دی جائیں گی، آپ کو مستقبل میں ایسا ہوتا ہوا نظر آرہاہے، مجھے تو کم از کم اس طرح کی صورتحال دور دور تک نظر نہیں آرہی ہے، تاہم مایوسی گناہ ہے اور اللہ کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں، چٹورکھنڈ کے بلاصلاحیت بچے بھی اپنے مستقبل کے حوالے سے مایوسی نہ ہوں’’کیوں کہ اللہ کے ہاں دیر ہے ، اندھیر نہیں۔‘‘

جمشید خان دکھی کے ان اشعار کے ساتھ اجازت:۔

دل انسان کو تسخیر کرلو

محبت کے محل تعمیر کرلو

مصائب سے ہے بچنے کی تمنا

تو پیدا جذبۂ شبیر کرلو

رہیں گے کب تلک چہرے سجاکر

دلوں کی بھی کبھی تطہیر کرلو

گزاری زندگی لڑتے جھگڑتے

کوئی تو امن کی تدبیر کرلو

تعصب کے صنم خانوں کو ڈھاکر

منظم پیار کی جاگیر کرلو

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button