چترال لیویز میں غیر قانونی طور پر بھرتی کا انکشاف، جمعیت علمائے اسلام نے بھرتیاں منسوخ کرنے کا مطالبہ کردیا
چترال (گل حماد فاروقی) بارڈر پولیس یعنی چترال لیویز میں غیر قانونی طور پر بھرتیوں کا انکشاف ہوا ہے۔ جمیعت علمائے اسلام کے صوبائی ڈپٹی سالار صلاح الدین طوفان، قاری فضل حق، مولانا عبد السمیع اور قاری مبارک خان نے مقای صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے اس بات کا انکشاف کیا۔ انہوں نے کہا کہ حال ہی میں اخبار میں ایک اشتہار چھپا کہ چترال لیویز میں چند آسامیاں حالی ہیں ان کو پر کرنے کیلئے کوالیفائڈ جوانوں سے کاغذات وغیرہ جمع کرنے کی ہدایت کی گئی تھی کہ 25 فروری تک اپنے کاغذات جمع کیے جائے۔
اس پر چترال کے طو ل و عرض سے کثیر تعداد میں بے روزگار نوجوانوں نے کاغذات جمع کئے۔ تاہم انہیں پتہ چلا کہ چترال لیویز میں مقررہ تاریح سے پہلے کافی تعداد میں سفارشی بنیاد پر نوجوان بھرتی ہوچکے ہیں۔ انہوں نے کچھ دستاویزات دکھاتے ہوئے کہا کہ ڈپٹی کمشنر چترال کی جانب سے اخبار میں دئے گئے اشتہار کے مطابق پچیس فروری تک کاغذات جمع کرنا تھا اس کے بعد دوڑ مقابلہ میں حصہ لینا اور تحریری ٹیسٹ میں حصہ لینا ابھی باقی ہے کہ تیس جنوری کو کافی تعداد میں لڑکے بھرتی کئے گئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ان کی ایک وفد سابق رکن صوبائی اسمبلی مولانا عبد الرحمان کی سربراہی میں ڈپٹی کمشنر کے دفتر جانے لگے جہاں انہوں نے گیٹ پر چند ایسے نوجوان بھی دیکھے جن کی قد نہایت کم تھی ان سے جب پوچھا گیا کہ وہ کب بھرتی ہوئے ہیں تو ان کا جواب تھا کہ وہ لوگ 30 جنوری کو بھرتی ہوکر اپنا ڈیوٹی بھی شروع کرچکے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ انہیں بااعتماد ذرائع سے پتہ چلا ہے کہ تقریباً 80کے قریب نوجوان بھرتی ہوچکے ہیں جن کی نہ تو قد دیکھا گیا نہ ان سے ٹیسٹ لیا گیا۔ جس سے میرٹ اور قانون کی دھجیاں اڑادی گئیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر اتنے کثیر تعداد میں لوگوں کو بھرتی کرنا ہی تھا تو بلا وجہ چترال کے نہایت دور آفتادہ بالائی علاقوں سے کثیر تعداد میں نوجوانوں کو کیوں تکلیف میں مبتلا کیا گیا جو یہاں ہوٹلوں میں قیام و طعام پر ہزاروں روپے خرچ کرتے ہیں۔
انہوں نے مزید بتایا کہ اشتہار کے مطابق پانچ فی صد سابق ملازمین کے بیٹوں کیلئے کوٹہ ہے مگر بارڈر پولیس یعنی لیویز سے سو کے قریب لوگ پنشن پر چلے گئے جن کا پانچ فی صد کوٹہ پر پانچ سے دس جوانوں کو بھرتی کرنا چاہئے تھا مگر یہاں اسی کے قریب لوگ بھرتی ہوچکے ہیں۔
انہوں نے صوبائی اور وفاقی حکومت اور وزارت سیفران سے مطالبہ کیا ہے کہ حالیہ بھرتی کو منسوح کرکے اس کی مکمل تحقیقات کی جائے تاکہ بے روزگار اور غریب نوجوانوں کو میرٹ کے بنیاد پر نوکری مل سکے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ ایک طر ف صوبائی حکومت میرٹ اور انصاف کا دعویٰ کرتے ہیں تو دوسری طرف ان کی تعینات کردہ ایک افسر انصاف اور میرٹ کی دھجیاں اڑا تا ہے۔انہوں نے کہا کہ قبل از وقت بھرتی ہونے والے جوانوں کے معاملے میں نہ تو ان کی قد، کوائف اور نہ ہی میرٹ کا حیال رکھا گیا بعض نہایت کم قد والے لڑکے بھی دیکھے گئے جنہوں نے بھرتی ہونے کے فوری بعد بغیر کسی تربیت کے ڈیوتی بھی شروع کی ہے جو سراسر بے انصافی ہے۔
اس سلسلے میں جب ڈپٹی کمشنر سے رابطہ کرکے ان کی موقف جاننے کی کوشش کی گئی تو انہوں نے تصدیق کی کہ مقررہ تاریح سے اگر چہ چند نوجوان پہلے بھرتی ہوچکے ہیں مگر وہ بالائی حکام کے ہدایت پر ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ دو سال قبل تقریباً 102 بارڈر پولیس اہلکاروں کو جبری ریٹائر کیا گیا جنہوں نے عدالت سے رجوع کی تاہم حکومت نے ان کے ساتھ مذاکرات کرتے ہوئے ان کو دوبارہ بھرتی کرنے کی یقین دہانی کی اور ان کو مائل کیا کہ وہ اپنا کیس عدالت سے واپس لے۔ جن میں سے کچھ تو بھرتی ہوگئے مگر جن کی عمر زیادہ ہوچکا تھا ان کی جگہہ ان کے بیٹوں کو بھرتی کیا گیا تا کہ یہ معاملہ عدالت سے باہر ہی حل ہوسکے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ پاک فوج کے تربیت یافتہ لوگ نئے بھرتی شدہ لیویز عملہ کو تربیت دینا چاہتے ہیں اسلئے ہم نے ان سبکدوش اہلکاروں کے بچوں کو قبل از وقت بھرتی کئے جن کا میڈیکل بھی ہوچکا ہے۔انہوں نے کہا کہ 25 آسامیوں پر اوپن میرٹ پر بھرتی ہورہی ہے تاہم وہ اس بات کی کوئی تسلی بحش جواب نہ دے سکے کہ پانچ فی صد کوٹہ کی بجائے اتنی بڑی تعداد میں قبل از وقت کیوں امید وار بھرتی ہوچکے ہیں اور ان کی قد اور کوایف کا بھی حیال نہیں رکھا گیا۔