کالمز

تعلیم اور بے روز گاری

دیدار علی
دیدار علی

انسان دنیا میں پیدا ہوتی ہی مختلف مسائل کا سامنا کرتا ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ وہ ان مسائل پر قابو پانے کی کوشش کرتا ہے اگر بہتر طریقے سے قابو پالے تو کامیاب ،اگر نہیں تو وہ ان مسائل میں دب کر رہ جاتا ہے مگر آج کے دور میں ایک بہتر اور کامیاب انسان کہ تشکیل کے لئے ایک طریقہ کار واضع کہ گئی ہے ان طریقہ کار اور مراحل سے گزر کر انسان ایک کامیاب زندگی گزارتا ہے یہ مراحل پیدائش سے لے کر پوری زندگی میں جاری رہتا ہے اور خاص کر ان کہ سولہ سالہ تعلیم تک ان طریقہ کارپر خاص توجہ دی جاتی ہے ۔پوری دنیا میں نوجوان نسل پر خاص توجہ دی جاتی ہے ان نوجوان نسل کو مستقبل کا سرمایہ سمجھا جاتا ہے کیونکہ آج کے ان نوجوان نسل نے تیار ہو کر مستقبل کو سنبھالنا ہے اسی لئے ہر معاشرے میں تمام والدین کہ یہی خواہش ہوتی ہے کہ اپنے بچوں کو بہتر سے بہتر تعلیم اور تربیت دیں ۔ہمارے معاشرے میں یہ سہولت سب کے لئے میئسر ہے یا نہیں یہ ایک الگ بحث ہے ۔آج سائنس کہ تیزرفتار ترقی اور بدلتی دنیا کو دیکھ کر ہر والدین کہ یہی خواہش ہوتی ہے کہ ان کا بچہ تعلیم حاٖصل کر کے آج کے سائنسی جدیدیت میں اپنا حٖصہ ڈال دیں اور ایک کامیاب زندگی گزاریں۔

مگر ہمارے معاشرے میں حالات کچھ اور ہے یہاں پر والدین کہ خواہش ،محنت اور امید کہیں اور رہ جاتی ہے اور بچوں کہ محنت اور کوششوں سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد حالات کچھ اور ہوتا ہے۔ یہ تمام مسائل بے روزگاری کے اردگرد گھومتی ہے اور بے روزگاری پیدا ہوتی ہے معاشرے میں ترقی کہ سست رفتار ،کم وسائل اورکم ذرائع سے ،اور اس کی دوسری وجہ جو تعلیم ہم حاصل کرتے ہے اس میں نا پختگی او ہنرمندی کہ کمی سے۔ یعنی تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ ایک مثبت سوچ کا ہنر ہونی چاہیے ،اچھے بولنے کا ہنر ہونی چاہیے ، اچھے لکھنے کا ہنر ہونا چاہیے۔ تعلیم کے ساتھ ساتھ انسان کے پاس قابلیت اور ہنر بھی ہونی چاہیے تاکہ ایک نوجوان یونیورسٹی سے فارغ ہو کر اپنی تعلیمی قابلیت اور ہنر سے اپنے پروفیشنل زندگی کا آغاز کر سکے مگرنوجوان ہمارے ملک کے مختلف جامعات سے فارغ ہو کر تین چار سال تک بے روزگاری کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں اس کی وجہ ان فارغ لتحصل نوجوان میں تعلیمی ناپختگی اور اپنے شعبے میں کمان نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے ۔اس کہ وجہ ان نوجوانوں کو تعلیم اور بڑھتی عمر کے ساتھ ساتھ جینے کے ہنر نہیں سکھائے جاتے اور ان کے پروفیشنل زندگی میں کام آنے والے ہنر مندبننے میں کمی رہ جاتی ہے یعنی جو کچھ ہم تعلیم سے سیکھتے ہے اسے ہم اپنے پروفیشنل اور عملی زندگی میں کام میں لانے کا ہنر بھی ہمیں ہونی چاہیے ۔دوسرا پہلو یہ ہے کہ گلگت بلتستان میں وسائل موجود ہے مگر اسے کام میں لانے کے لئے کوئی ٹھوس اقدامات نہیں کئے گئے ہے جس سے بے روزگاری میں کمی آئے یہاں پر آبادی جس تیزی کے ساتھ بڑھ رہی ہے اسی تیزی سے بے روزگاری بھی بے قابو ہے تیسرا پہلو نوجوانوں کا اپنے کیرئر کا انتخاب درست طریقے سے نا کرنا ہے یعنی یہاں پر ایک شعبے میں ہزار گریجوٹس ملینگے جبکہ دوسرے شعبے میں ایک بھی نہیں اس کہ وجہ والدین اور تعلیمی اداروں کہ بچوں کے کیرئر کاونسلنگ میں عدم دلچسپی ہے۔اسی لئے تعلیم کے ساتھ تربیت،ہنر مندی اور جینے کے طریقے عمر کے ساتھ بچوں کو سکھانا ضروری ہے۔

ماہرین نے ایک کامیاب زندگی گزارنے کیلئے کچھ بنیادی مہارتوں کی نشاندہی کی ہے اور اُنہیں چارگروہوں میں تقسیم کیا ہیں۔ ان میں پہلا بنیادی مہارتیں جیسے کہ پڑھنا، لکھنا، حساب دانی، بولنا اور سننا شامل ہین؛ دوسرا غور و فکر کی مہارتیں جس میں تخلیقی سوچ، مسائل کا حل، فیصلہ سازی اور پیش بینی شامل ہے؛ تیسرا سماجی مہارتیں جس میں باہم میل جول، مذاکرتی ہنر،قیادت کرنا، ٹیم ورک اور ثقافتی تنوع وغیرہ شامل ہیں اور، چوتھا ذاتی جائزہ جس میں اپنا جسمانی خیال رکھنا،ذاتی جائزہ، خود نظمی، احساسِ ذمہ داری ، کردار سازی وغیرہ شامل ہیں۔ ان کے مطابق جس کو ان مہارتون پہ جتنا عبورحاصل ہووہ اُتنا ہی کامیابی حاصل کریگا۔ ان میں سے بیشتر ہنر سکول میں سیکھا جاتا ہے اور نصابِ تعلیم کا حصّہ ہونا چاہیے، مگر ہمارے نظامِ تعلیم میں ان پر توجہ بہت کم یا نہیں دی جاتی ہے۔ اس وجہ سے اچھے اچھے اداروں سے فارغ التحصیل طلبا بھی عملی زندگی میں مشکلات کا سامنا کرتے ہیں۔

قاریئن کرام روشن مستقبل ہر شخص کے زندگی میں اہمیت کے حامل ہوتا ہے اس میں بہتری کے لیے ہر ممکن کوشش کہ جاتی ہے تاکہ زندگی خوشی کے ساتھ گزرسکے۔ سائنس نے یہ ثابت کہ ہے کہ اس عمل میں پانچ مراحل اہم کردار ادا کرتے ہے،پہلا مرحلہ نشونما کا ہے جو چار سال سے چودہ سال کہ عمر پر محیط ہوتا ہے اس میں اپنے دلچسپی اور بہتری کہ طرف راغب ہونا اور اپنا تمام صلاحیتوں کو بروئے کار لانا ضروری ہوتا ہے اور اسی حصے کے آخر میں اپنے مستقبل کہ فکر کا آغاز ہوتا ہے۔دوسرا حصہ تلاش اور نئے تجربات کا ہے جو چودہ سال سے پچیس سال پر مشتمل ہوتا ہے جس میں بنیادی طور پر انسان سمجھ دار ہوتا ہے اور نوجوان نئے نئے طریقے اور نئی راہوں کہ تلاش میں رہتے ہے اس دور میں اپنے مستقبل کے لئے مفید فیصلے کرتے ہے اور اپنے لئے ایک سازگار میدان کا انتخاب کرتے ہے ۔تیسرے مرحلے میں فرد واحد اپنے منتخب میدان میں اپنے آپ کو منظم کرنے کہ کوشش کرتا ہے اور ایک اچھی پوزیشن میں آتا ہے۔ چوتھے مرحلے میں انسان اپنے کیریر کو برقرار رکھنے کہ کوشش کرتا ہے ،نئے جذبے سے آگے بڑھتا ہے ۔اگر ایک انسان ان چار مراحل میں کایابی حاصل کرلی جائے اور محنت سے زندگی گزاری جائے تو زندگی کا آخری مرحلہ یعنی عمر رسیدگی کا دور آسانی سے گزرجاتا ہے ۔

قاریئن کرام اسی سلسلے میں گلگت بلتستان کے نوجوان نسل کہ بہتر مدد اور رہنمائی کے لئے اے کے آر ایس پی اپنے EELYپروجیکٹ کے تحت ان بنیادی ہنر کی ترویج پہ کام ہو رہا ہے۔ اس سلسلے میں پروفیشنل ڈویلپمنٹ سنٹرز جوکہ آغا خان یونیورسٹی کا ایک ذیلی ادارہ ہے کے تعاون سے گلگت، بلتستان اور چترال کے اساتذہ کو جینے کے بینادی ہنر کی ترقی و ترویج پر تربیت دیاجاتا ہے تاکہ اساتذا بہتر طریقے سے بچوں کہ تربیت کر سکے۔ان تمام ٹرینگ کے دوران بچوں کو صح بول چال کی صلاحیت، اپنے زندگی میں بہتر فیصلے لینے کہ صلاحیت، مثبت اور تعمیری سوچ کہ صلاحیت، مسائل کے ساتھ مقابلہ کرنے کہ صلاحیت، زندگی میں انتظامی صلاحیت ، اختلافات کو مثبت طریقے سے حل کرنے کی صلاحیتیں سکھائے جاتے ہے۔

ان تمام طریقہ کار اور باتوں کو مدنظر رکھتے ہوے اگر گلگت بلتستان کے تمام نوجوان اس سہولت سے فائدہ اٹھائے اور تمام والدین اپنے بچوں کہ عمر اور وقت کے ساتھ صیح نگہداشت اور تربیت دے تو یقناً آنے والے دور میں یہاں پر تعلیم کہ اہمیت میں اضافہ اور بے روزگاری میں کافی حد تک کمی ممکن ہو گی ۔اگر یہ نوجوان نسل کو اس قابل بنے کہ گلگت بلتستان میں موجود قدرتی وسائل کو استعمال میں لائے تو پھر یہاں سے ہمیشہ کے لیے بے روز گاری کا خاتمہ ممکن ہوگا۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button