جناب چیف سکریٹر ی صاحب ، گزارشِ خدمت ہے!
وادی چپورسن گوجال ، ضلع ہنزہ نگر کا ایک نہایت ہی پسماندہ ، دُور اُفتادہ ، شاہرائے ریشم سے کٹا ہوا ،دشوار گذار اور تنگ وادی ہے جو سوست گوجال کے مقام پر شاہرائے ریشم سے بائیں جانب الگ ہوکر خستہ حال جیپ ایبل سڑک کے ذریعے مغرب کی جانب افغانستان اور تاجکستان کی سرحدات سے جا ملتا ہے ۔ وادیِ چپورسن کی کُل آبادی 510نفوس ، جو 12 گاؤں اور 510 گھرانوں پر مشتمل ہے۔ سوست گوجال شاہرائے ریشم ( KKH )تا زیارت باباغُندی پوسٹ تک جیپ ایبل کچی اور دفاعی سڑک کا 70 کلومیٹر ہے۔ اس سڑک کی تعمیر سال 1982 میں ہوئی تھی ۔ اس سڑک کی دیکھ بھال کے لئے قلیوں کی ۳۵ سینکشن پوزیشن ہیں جن میں سے صرف ۹کو بھرتی کیا گیا ہے اور باقی اسامیاں خالی ہیں ۔ یہ جیپ ایبل روڈ سردیوں کے موسم میں برف باری اور گرمیوں میں آس پاس کے نالوں سے بہنے والے پانی کی بدولت ہمیشہ شدید موسمی حالات سے متاثر ہوتی ہے ۔ اس سڑ ک کے مرمت اور کشادہ کرنے کے لئے سرکار کی طرف سے کئی منصوبوں کی منظوری دی گئی ، مگر ٹھیکہ دارں اور نمائندوں کہ ملی بھگت سے یہ فنڈ خرچ ہونے کی بجائے تقسیم در تقسیم جیبوں میں چلے گئے ۔ اور یہ منصوبہ تا حال نا مکمل ہیں ۔ ان ٹھیکہ دارں سے بھی کوئی پرسان نہیں ہے ، جو یہ فنڈز کھا کر بھاگ گئے۔ چپورسن روڑ پر مختلف نالوں میں چھوٹے چھوٹے پل تعمیر کرنے کے لئے بھی کئی اسکیموں کی منظوری ہوئی لیکن نمائندوں کی غفلت اور ٹھیکہ داروں کہ خرد برد کی وجہ سے ان منصوبوں پر کام نہیں ہوا ۔ بلآخر مجبور ہو کر چپورسن کے عوام نے اپنی مدد آپ کے تحت ان نالوں پر پل تعمیر کئے۔اس کی مثال پچھلے سال سیکر کے مقام پر پل بنانے کے لئے حکومت کی طرف سے تقریبا گیارہ لاکھ روپے کی منظوری ہوئی ، اور اس کا ٹھیکہ نگر سے تعلق رکھنے والے ٹھیکہ دار اسماعیل کو دیا گیا ۔ اس نے بھی خرد برد کی روایت کو برقرار رکھتے ہوے اس رقم سے اپنے جیب بھر دئے۔ اور اس منصوبہ کا آغاز بھی نہیں ہو سکا۔ اسی طرح چپورسن عوام اور رضاکاروں نے مل کر یہا ں پل تعمیر کیا ۔
28 اگست2006 میں سرکار کی طرف سے اس سڑک کو ٹرک ایبل بنانے کیلئے دوکروڑ روپے مختص کی گئی، اس بد قسمت منصوبہ کا نامConstruction of truck able road from KKH to Kirmin Chipursan Gojal Hunza تھا۔ سرکاری ریکارڈ کے مطابق اس منصوبہ پر اب تک ایک کروڑ اکانوے لاکھ پچاس ہزار روپے خرچ ہوچکی ہے اور نولاکھ پچاس ہزار روپے باقی ہے جو اس سال خرچ کیا جائے گا۔ لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ اس منصوبہ پر کام کا آغاز بھی نہیں ہوا ہے۔
سڑک کی اچھی طرح مرمت نہ ہونے کی وجہ سے یہاں کئی حادثات رونما ہوئے ہیں، ان کی وجہ سے کئی قیمتی جانیں ضائع ہو چکے ہیں ۔
چپورسن کے عوام کی طرف سے کئی وفود متعلقہ حکا م کی خدمت میں حاضر ہوئیں ، مگر تا حال یقین دہانیوں کے علاوہ کوئی عملی اقدامات نظر نہیں آرہی ہے ۔ ایک اور منصوبہ کے تحت چپورسن روڈ پر یرزیچ کے مقام پر سڑک کی لمبائی کو کم کرنے اور خطرے والے جگہوں کو چھوڑ کر اس کے متبادل راستہ جو لال حسین پل کو براہ راست رمینج نالہ کے پل سے ملاتی ہے اور اس سے حادثے کے خطرات میں کمی کے ساتھ فاصلہ بھی کم ہوسکتا ہے، گزشتہ پانچ سالوں سے یہ منصوبہ بھی تاحال التواء کا شکار ہے۔ اس منصوبہ پر بیشتر کا م مکمل ہو چکی ہے اور مزید تھوڑا سا کام باقی ہے۔ حالیہ دنوں میں برف باری کی وجہ سے روڈ بند ہونے کی وجہ سے چپورسن کا ملک کے دیگر علاقوں سے زمینی رابطہ منقطہ ہے اور علاقے میں اشیائے خوردونوش کے علاوہ دیگر ضروریاتِ زندگی کی قلت ہے۔ لوگ پیدل چلنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ ہمارے سیاسی نمائندوں نے پانچ گزار دئیے مگر اس علاقے کی بنیادی مسائل کی طرف توجہ نہیں دی۔ ہمارے بزرگ نمائندہ سپیکر کے نشست پر براجماں ہوکر پانچ سال تک صرف وعدے کرتے رہے اورہماراٹیکنوکریٹ نمائندہ صرف اور صرف سپیکر کے پرسنل سکریٹری کے فرائض انجام دیتے رہے۔
چپورسن روڈ کی تعمیر میں تاخیرکی وجہ سے 2006 سے لیکر اب تک جتنے حادثات ہوئے ہیں ان کے ذمہ دار محکمہ تعمیرات کے ذمہ دار اور متعلقہ ٹھیکے دار ہیں۔ حادثات کے وجہ سے 15قیمتی جانیں ضائع ہو چکے ہیں۔ ان کی موت کے ذمہ دار بھی یہی متعلقہ اہلکار اور ٹھیکے دار ہیں ۔ ان کے خلاف مقدمہ بنایا جائے ۔ ٹھیکہ داروں کو صرف نوٹس جاری کرنے اور انہیں بلیک لسٹ قرار دینے سے علاقے کے عوام کو کوئی فائدہ نہیں پہنچے گا اور نہ ہی ان کے نقصانات کا ازالہ ہوسکے گا۔ عوامِ چپورسن کی طرف سے چہف سکریٹری گلگت بلتستان، سکریٹری ورکس، وزیرِ تعمیرات و دیگر متعلقہ حکام سے اپیل کی جاتی ہیں کی وہ ان منصوبوں کی آڑ میں ہونے والے بے قاعدگیوں کا نوٹس لیں اور ان کے خلاف قانونی کاروائی کا حکم صادر فرما کر شکرگزاری کا موقع بخش دیں۔