کالمز

موسمی پرندے اور قومی ضرورت

Sher Ali Anjum جس طرح بدلتے موسم کے ساتھ مختلف قسم کے چرند پرندمعرض وجود میں آتے ہیں اور موسم کی تغیری کے ساتھ خود بخود غائب ہوجاتے ہیں بلکل یہی مثال گلگت بلتستان کے سیاست دانوں کا بھی ہے جنکا سیاسی محور نہ کسی فلسفے کی بنیاد ہر ہوتے ہیں اور نہ ہی قومی سوچ اور عوامی فلاح پر مبنی ہوتا ہے۔ بلکہ معذرت کے ساتھ ہمارے ہاں ذیادہ تر سیاست دانوں کا سیاسی محورصرف منصب اور شہرت کی حصول کیلئے ہوتا ہے یوں کہا جاسکتا ہے کہ جیسے ہر سال عید قربان کے موقعے پر جانور گاہک کی توجہ مبذول کرانے کیلئے تیار کئے جاتے ہیں بلکل اسی طرح یہ لوگ ہر پانچ سال بعد تاج والی ثقافتی ٹوپی پہن کر تیار رہتے ہیں تاکہ ہر نئی حکومت کا حصہ بن کر مفاد حاصل کرسکے۔اسی طرح کچھ ایسے بھی لوگ ہیں جو مسالک اور عقیدے کی بنیاد پر وفاقی پارٹیوں کا حصہ بننے کو تریج دیتے ہوئے مسلکی بنیاد پر عوامی جذبات کو اُبھار کر ووٹ لینے کی کوشش کرتے ہیں اس صورت حال میں ان رنگ بدلتے سیاست دانوں سے خطے کی آٹھاسٹھ سالہ محرومیوں کا ازالہ کرنے کیلئے کیا امید رکھا جاسکتا ہے سچ تو یہ ہے کہ یہ لوگ مسلہ گلگت بلتستان کو کوئی ایشو ہی نہیں سمجھتے ۔ آج وفاق نے تمام تر مخالفت کے باوجود ایک بار پھر ڈوگرہ نظام کی یاد تازہ کرتے ہوئے غیر مقامی گورنر کو اس علاقے پر مسلط کردیا اس عمل کے خلاف خطے بھر میں بھرپور احتجاج ہوا مگر بے سود ثابت ہوا کچھ وفاقی پارٹیوں نے ذاتی مفادات کو نقصان پونچتے ہوئے دیکھ کر شدید احتجاج کیا لیکن کس نے کیوں سُننا ہے کیونکہ موسمی پرندے اور غلامانہ سوچ رکھنے والے نام نہاد سیاست دان ایسے بھی ہیں جو مفادات کی خاطر مسلط گورنر کوقبول کرنے پر فخر محسوس کرتے ہیں جس کی وجہ شائد پارٹی سے وابسطہ گورنر کی موجودگی میں آنے والے الیکشن میں دھاندلی کیلئے راہ ہموار کرنا بھی ہوسکتا ہے۔ ایک اور نقطہ نظر سے نواز لیگ کے ہی کچھ لوگوں کا یہ کہنا ہے کہ بدقسمتی سے پارٹی میں نظریاتی لوگوں کی نسبت موسمی پرندوں کو ذیادہ اہمیت دی جاتی ہے اور غیر مقامی گورنر مسلط کر نے کا عمل میں بھی ایسے ہی موسمی پرندوں کے مشوروں اہمیت دی گئی۔ ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ نواز لیگ گلگت بلتستان کے مرکزی رہنما یہ نہیں چاہتے تھے کہ کسی مقامی کارکن کو گورنر بنا کر انکی عزت افزائی کیا جائے یعنی نواز لیگ میں ایسے بھی لوگ ہیں جو اپنے ہی کارکنوں کی پیر میں کلہاڑی مارتے ہیں ایسے میں عوام اُن سے کیا توقع رکھ سکتے ہیں۔لیکن سوال یہ ہے کہ آخر کب تک اور کیوں ؟کیا کسی میں اپنی دھرتی کیلئے کوئی احساس نہیں ؟کیا یہ لوگ ہماری تاریخ سے اگاہ نہیں؟ یہ خطہ صدیوں تک ایک مکمل شناخت اور ایک دلیر قوم کی حیثیت رکھتے ہوئے کشمیر سے لیکر تبت تک حکمرانی کرتے رہے ہیں مگر افسوس آج ایسے ہی موسمی پرندوں نے درخشاں ماضی کو دفن کرکے صرف انفردی مفاد کیلئے پیکج پر منحصر قوم بنا دیا۔کیا ہی اچھا ہوتا کہ سیاست دان نظرئے کی سیاست کرتے یوں پارٹی میں انکا بھی ایک مقام بنتا اور پارٹی کے جھنڈے تلے خطے کی آئینی اورسیاسی حقوق کیلئے ایک متفقہ چارٹرڈ پیش کرتے ہوئے حکومت پاکستا ن سے پیکج کے بجائے مکمل قومی شناخت کا مطالبہ کرتے اورانکار کی صورت میں تمام وفاقی پارٹیاں قوم پرستوں اور دیگر جماعتوں کو ساتھ ملا کر احتجاج کے طور پر اپنی اپنی پارٹیوں میں استعفیٰ پیش کرتے لیکن بدقسمی کی بات ہے یہاں تو اُلٹی گنگا بہتی ہے جس کی ایک تازہ مثال نواز لیگ کے مرکزی رہنما کا عوام کو دھمکی دینا ہے موصوف کہتے ہیں کہ کوئی گورنر کو آنے سے روک کر دکھائیں ،افسوس کی بات ہے کہ ایک تو ان لوگوں میں سیاسی پختگی نہیں دوسری طرف انکے جابرانہ سوچ کا عنصر بھی پایا جاتا ہے۔ حافظ حفیظ الرحمن اگر خود سیاست دان سمجھتے ہیں اُنہیں اس دھمکی پر قوم سے معافی مانگنا چاہئے کیونکہ غیر مقامی گورنر کے معاملے پر صرف انکے مخالف پارٹیوں نے احتجاج نہیں کیا بلکہ پاکستان اور دنیا بھر میں بسنے والے گلگت بلتستان کے ہزاروں باشعور لوگوں نے اس فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے گلگت بلتستان کی تاریخ کا ایک سیاہ باب قرار دیا۔ستم ظریفی ہے کہ موسمی پرندے ہر غیرقانونی عمل پر لبیک کہنے کیلئے تیار ہیں اور عوامی رائے کی کوئی عزت نہیں کی جاتی حالانکہ مہذب معاشروں میں لیڈر کی انتخاب کیلئے ہمشیہ عوامی رائے کو مقدم رکھاجاتا ہے مگر بدقسمتی ہے اس خطے کی جہاں گزشتہ دہایوں سے الیکشن کے نام میں موسمی پرندوں کی ملی بھگت سے سلیکشن ہورہی ہے اور جب کبھی کوئی اُٹھ کر اس نظام کو درست کرنے کی بات کرتے ہیں توجلاد تلوار دکھا کر خاموش کرانے کی کوشش کرتے ہیں یا مسلکی فسادات کے ذریعے عوامی توجہ اصل مسلے سے ہٹا کر آپس میں دست گریبان کرکے ایوان بالا کے تخت نشین تماشا دیکھتے ہیں جس کی تازہ مثال گلگت جیل کا واقعہ ہے ۔ اگر عوام نے اب بھی ہوش کے ناخن نہیں سنبھالا تو اس سے بھی خطرناک واقعات ہوسکتے ہیں اور حکومت ہمیشہ کی طرح اخباری بیانات کے ذریعے اپنی صفائیاں پیش کر رہے ہونگے آج پاکستان بھر کے کلعدم تکفیری جماعتیں گلگت بلتستان کا رخ کررہے ہیں اور بدقسمتی سے خطے میں ایسے بھی گاوں دیہات موجود ہے جہاں اسطرح کے نفرت پھیلانے مولویوں کو اپنا امام مانتے ہیں عوام کی یہ سادگی دہشت گردوں کیلئے ایک ہتھیار سے کم نہیں لیکن موسمی پرندے ہمیشہ کی طرح اگلے سانحے پر وایلا مچانے کی انتظار میں بیٹھے ہیں جیسے نگران وزیراعلیٰ نے جیل سے مجرم فرار ہونے کے بعد کیا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ خطے کی وسیع تر مفاد میں محکمہ پولیس، گلگت بلتستان اسکاوٹس اور سول اداروں کے اعلیٰ عہدوں پر مقامی لوگوں کو تعینات کریں جو یہاں کے عوام کا بنیادی حق بھی ہے اورداخلی معاملات کومقامی افیسرز سے ذیادہ بہتر کوئی سمجھ بھی سکتالیکن یہ کام بھی سیاست دانوں نے کرنا ہے مگر اُنہیں تو پارٹیاں بدلنے اور لوٹ مار سے فرصت نہیں ۔آخر میں باشندگان گلگت بلتستان سے ایک گزارش کروں گا کہ قانون کی بالادستی کیلئے انفرادی اور اجتماعی طور پر کوشش کریں یہی ہماری اصل قومی ضرورت ہے۔ اللہ ہم سب کو گلگت بلتستان کی حقوق کیلئے قانون پر عمل کرتے ہوئے کوشش کرنے کی توفیق عطا کرے ۔آمین

آپ کی رائے

comments

شیر علی انجم

شیر علی بلتستان سے تعلق رکھنے والے ایک زود نویس لکھاری ہیں۔ سیاست اور سماج پر مختلف اخبارات اور آن لائین نیوز پورٹلز کے لئے لکھتے ہیں۔

متعلقہ

Back to top button