کالمز

گلگت بلتستان کے تعلیمی مسائل

موجوہ دورمیں تعلیم کی اہمیت سے کوئی بھی انکارنہیں کیاجاسکتا،دنیابھرمیں تعلیم کی اہمیت کا اندازہ نت نئی وحیرت انگیزہونے والی ایجادات کودیکھ کرلگایاجاسکتاہے،انسان کا چاندسیاروں پرقدم رکھناصرف تعلیم ہی کی بدولت ممکن ہوا،اگرہم تاریخ اسلام کو اُٹھا کردیکھ لیں توہمیں معلوم ہوتاہے کہ دین اسلام نے بھی تعلیم کی حصول پرکتنازوردیاہے،حضرت محمدﷺ نے علم کی اہمیت کے حوالے سے ارشادفرمایاکہ علم حاصل کروچاہیں تمہیں چین کی جاناکیوں نہ پڑھیں،دین اسلام روزاول سے لے کراب تک علم کی شمع جلارہاہے،اورقیامت تک اس مشعل کو آگے لے کربڑھتارہے گا،موجوہ دورمیں ہمارے ہاں تعلیم کی اہمیت روزبہ روزبڑھنے کی بجائے کم ہوتی جارہی ہے جوکہ تمام طبقوں کیلئے لمحہ فکریہ ہے،اگرمسلماناں ہندکی تاریخ اُٹھاکرمطالعہ کریں تویہ عیاں ہوتی ہے کہ جب تک مسلمانوں نے تعلیم کی اہمیت وافادیت کو جاناپوری برصغیرپرحکومت کی،اورجب سے مسلمانوں کے درمیان علم کی اہمیت کوپذیدائی ملناکم ہواتب سے مسلمانوں کا زوال شروع ہوگیا،انگریزوں نے بھی موقع غنیمت جان کر مسلمانوں کو علم سے دورکرنے کی ٹھان لی،انہیں معلوم تھا کہ اگرکسی قوم کو شکست دینامقصودہوتوسب سے پہلے اس قوم کے علم کے خزانوں کو تباہ کیے جائیں،اسی لیے انہوں نے مسلمانوں کوعلمی راہ سے دورلے گیا یوں پورے برصغیرپرقابض ہوگا،

ہمارے قائدپاکستان کے بانی قائداعظم نے بھی تعلیم کی اہمیت کو بیان کرتے ہوئے فرمایاکہ آپ تعلیم پرپورادھیان دیں،اپنے آپ کو علم کیلئے تیارکریںیہ آپ کاپہلافریضہ ہے،ہماری قوم کیلئے تعلیم زندگی اورموت کامسئلہ ہے،لیکن ہم قائدکے فرمان پرعمل پیرانہیں ہے،ہمارے لیے تعلیم کی بجائے محنت مزدوری اور زندگی کے دوسری اشیاء زندگی اورموت کا مسئلہ بناہواہے،پاکستان کو معرض وجودمیں آئے سترسال سے زائدکا عرصہ گزرچکاہے،گلگت بلتستان کو ڈوگروں سے آزادہوئے ستربرس سے زائدکاعرصہ بیت چکاہے،لیکن ہمارے ہاں تعلیمی مسائل اب تک جوں کے توں ہے،ہم پیسہ تعلیم پرخرچ کرنے کے بجائے دوسروں چیزوں پرخرچ کرنے کو ترجیح دیتے ہیں ۔

پاکستان کا المیہ یہ ہے یہاں پرتعلیم کیلئے روزاول سے بجٹ کا صرف دوسے چارفیصدمختص کرتاآرہاہے،ہرسال حکومتی عہدیداراں تعلیم کی بجٹ بڑھانے کے حوالے سے بلند وبالادعوے توکرتے ہیں لیکن وہ صرف دعوے ہی ثابت ہورہی ہے،جب ایک ریاست میں تعلیم کا یہ حال ہے تو اس کے زیرانتظام بے آئین خطے کا اندازہ آپ خودبخوبی لگاسکتے ہیں،گلگت بلتستان میں اول تواسکولزکافقدان ہے اورجہاں جہاں پراسکولزبنے ہوئے ہیں وہاں پرکہیں ٹیچرزنہیں توکہیں پہ فرنیچرنہیں ،کہیں کلاس رومزکابراحال ہے توکہیں پہ اسکول سیاسی اکھاڑہ بناہواہے۔تعلیمی میدان میں سیاست کا یہ حال ہے کہ بعض جگہوں پرایک دوسرے کو سیاسی انتقام کے لیے بھی اسکولوں کاسہارالیتاہے،آپ خودسوچیں اس قوم کا کیابنے گاجواپنی بچوں کی مستقبل کا فکرتک نہ کرتاہو،ہرکوئی اپنی ڈیڑھ انچ کی سیاسی دکان چمکانے کیلئے تعلیم اورتعلیمی اداروں کو داؤپرلگوانے کیلئے ہمہ وقت تیارہو۔

گلگت بلتستان کے تعلیمی مسائل میں سے ایک اہم مسئلہ پورے ریجن میں کہیں پربھی کوئی میڈیکل کالج،انجنیئرینگ کالج یاٹیکنکل یونیورسٹی کانہیں ہوناہے،پورے صوبے میں لے دے کے ایک یونیورسٹی قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی اورحال بنابلتستان یونیورسٹی کے نام سے موجودتوہے لیکن ان میں بھی تعلیمی سہولیات ناکافی ہے،گلگت بلتستان میں کوئی یونیورسٹی نہ ہونے کی وجہ سے اکثرطلبہ یاتوراولپنڈی اسلام آباد،کراچی سمیت دوسرے شہروں کا رخ کرتے ہیں یاوہاں پرموجودکالجوں میں بی اے/بی ایس سی کی ڈگری کیلئے جدوجہدمیں مشغول ہوجاتے ہیں،جوطلبہ شہروں میں تعلیمی سلسلے کو جاری رکھنے کی عزم کیساتھ نکلتے ہیں انہیں وہاں پربہت سارے مسائل کا سامناکرناپڑتاہے ،سب سے اہم مسئلہ رہائش کا ہوتاہے،بلکہ اس سے بڑھ کریہ کہ اکثرطلباء کے والدین ان کی اخراجات برداشت نہیں کرپاتے جس کی وجہ سے وہ وہاں پرتعلیم کے ساتھ ساتھ محنت مزدوری کوبھی اپناشیوہ بناتے ہیں،آپ کو یہ جان کرحیرت ہوگی کہ کراچی شہرمیں جہاں گلگت بلتستان سے سب سے زیادہ طلباء تعلیم کے حصول کیلئے آتے ہیں وہاں پرہوٹلوں میں کام کرنے والے ویٹرزاوردیگرملازمین کا تقریباسترفیصدبھی گلگت بلتستان کا ہی ہوتا ہے،اوروہ بھی یونیورسٹی یاکالج کے طلباء۔کہنے کا مطلب یہ ہے کہ محنت مزدوری کے ساتھ ساتھ تعلیم کو بھی جاری وساری رکھنے سے ان طلباء کومشکلات کا سامنارہتاہے،محنت مزدوری میں مگن یہ طلباء اپنے اصلی ہدف حاصل کرنے میں ناکام رہتاہے،تین چارسال کی جدوجہدکے بعدڈگری مل توجاتی ہے لیکن اس ڈگری کاکیافائدہ جوبغیرکچھ پڑھے، لکھے، سمجھے ملاہو۔

میں یہاں پرحکومت کو داددضروردیں گے،کیونکہ وہ پرائمری تامیڑک اورایف اے ،ایف ایس سی کی حدتک تعلیمی اصلاح کیلئے مصروف عمل ہیں لیکن اس میں بھی کافی خلل ابھی بھی موجودہے،طلبہ کے مسائل ایک طرف یہاں توٹیچرزبھی دربہ درکی ٹھوکریں کھارہے ہیں۔اورجب علم کے نورسے ہمکنارکرانے والے اساتذہ ہی مسائل سے دوچارہے تواس کے زیرسایہ تعلیم حاصل کرنے والے پھولوں کا کیاحال ہوگا،اس کااندازہ معاشرے میں موجودہرذی شعورشخص بہ خوبی لگاسکتے ہیں۔

حکومت گلگت بلتستان کو چاہیے بلندوبالادعووں سے نکل کرعلاقے میں موجودتعلیمی مسائل کو سرجوڑکرحل کریں جہاں پراسکولزنہیں وہاں پراسکولزتعمیرکیے جائیں،جہاں پرٹیچرزکی کمی ہے وہاں پراساتذہ کی کمی کو پوراکیے جائیں،جہاں جہاں پراسکولزسیاسی اکھاڑہ بناہواہے وہاں سے سیاست کاخاتمہ کروائیں،اورسب سے بڑھ کریہ کہ اگرہم واقعی میں قوم کی بھلائی چاہتے ہیں ،اگرہم واقعی میں قوم کی ترقی وکامرانی کیلئے کام کرناچاہتے ہیں توہمیں پورے ریجن میں میڈیکل کالجز،انجنیئرینگ یونیورسٹیاں اورٹیکنیکل یونیورسٹیاں بنانے میں دیرنہیں لگاناچاہیے ،جب تک ہم تعلیمی میدان میں اگے نہیں بڑھیں گے ترقی ممکن ہی نہیں اورتعلیم کی حصول کوممکن بنانے کیلئے ہمیں تعلیمی میدان میں حائل رکاوٹوں کو دورکرنے ہونگے تبی جاکے ہم ترقی کے منازل چھوسکیں گے،اگرہم اس امرمیں دلچسپی نہیں لیں گے توآنے والے وقتوں میں ہمیں تعلیم کا روناروناہوگا،نہ ہمیں آئینی حقوق میسرآئیں گے ناکہ بنیادی حقوق ،ہم سترسال کیا مزیدسترسال بھی اپنے حقوق حاصل کرنے میں ناکام رہیں گے۔اورقوم پستی کی جانب بڑھے گا۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button