کالمز

مزدور کی اوقات

آج مہینے کا پہلا دن ہے یہ دن مزدور کی زندگی میں بار بار آتا ہے۔انتظار شدید کے بعد آتا ہے۔جب آتا ہے تو افسردگی اور للچائی ہوئی آرزوں کے قتل کا دن ثابت ہوتا ہے۔عجیب دن ہے۔جس گھر میں آتا ہے عام سا دن ہوتا ہے مگر انوکھا دن ہے صبح صبح کی طرح روشن اور پرُمسرت ہوتی ہے مگر شام دوسر ے شاموں سے بھی کالی شام ہوتی ہے۔۔۔اس شام سے پہلے والی شام جو گذرچکی ہے اس شام مزدور کے بچے اس کو فرمائشیں کرتے ہیں کچھ نئی ہوتی ہیں اور کچھ پرانی جو Renewہوتی ہیں۔

hayatوہ جو پچھلے مہینے پوری نہیں ہوئیں تھیں فرمائشیں معمولی نوعیت کی ہیں مگر پیاری ہیں،پھول کی پھنگڑیوں کی طرح نازک،ریشمی تاروں کی طرح مضبوط ،نسیم کے جھونکوں کی طرح عطر بیز،آنسوؤں کی طرح سند اظہار ،آہوں کی طرح ناقابل شکست۔۔۔۔یہ فرمائشیں ان معصوم فرشتوں کی ہوتی ہیں۔جنہوں نے ابھی زندگی کا مطلب سمجھا ہے نہ مجبوریوں کا معنیٰ سمجھا ہے۔نہ اس کارزارکی کارستانیوں سے بالا ہیں۔ان کے نزدیک محنت،مزدوری،قرض،کمائی ،خرید فروخت ،خالی جیب سب مفروضے ہیں۔ان کے دل میں اُٹھتی خواہش سب کچھ ہے۔ان کا باپ ان کے سامنے ہے۔یہی سب کچھ ہے۔بس یہ آرزوں کو پورا کرنے کی مشین ہے۔بس اس کے گلے لگنا ہے۔اس کے چہرے معصوم ہاتھوں سے اپنی طرف کرکے ان کی آنکھوں میں نظریں گاڑکے اس کو بتانا ہے۔وہ وعدہ کرتا ہے اس کے کندھے پہ سواری کرکے اس سے وعدہ لینا ہے۔اس کے دھڑکتے دل کا کسی کو کیا پتہ ۔اس کی رکتی سانسیں ،اس کی بے بسی اور مجبوریوں کا کسی کو کیااندازہ۔۔۔۔وہ محنت کے ہاتھوں مجبور ہے۔وہ ان پھولوں کو شکستہ دیکھنا نہیں چاہتا۔وہ ان آنکھوں میں آنسونہیں دیکھ سکتا۔اس لئے الفاظ کا سہارا لے کر وعدہ کرتا ہے۔ارادہ کرتا ہے،منصوبہ بندی کرتا ہے۔مزدوری کے پیسوں کو ترتیب دیتا ہے مگر کوئی حل نہیں نکال سکتا۔۔۔کھانے کی چیزیں ضروری ہیں۔ورنہ فاقہ کی نوبت آئے گی۔۔۔بیوی کے لئے دوا دارو ضروری ہے ورنہ اس کی صحت مذید بگڑے گی۔بجلی اور پانی کا بل ضروری ہیں۔ورنہ بجلی کاٹی جائے گی پانی بند ہوگا۔دکاندار کے پہلے مہینے کا قرض چکانا ہے ورنہ اس مہینے قرض پہ کچھ نہیں ملے گا۔منی کو سکول میں داخلہ کرانا ہے ورنہ ان پڑھ رہ جائیگی۔ایک جوڑا بستر بھی خریدنا ہے۔۔۔مہمان خانے کی چھت کی پلستر کرنی تھی ۔بارش میں ٹپکتی ہے۔نصف درجن پیالیاں خریدنی تھیں۔سب ٹوٹ گئی ہیں۔ایک عدد ترپال خریدنی ہے گرمیوں میں صحن میں بچھا کر کھانا کھائیں گے۔ٹارچ کے لئے بیٹری خریدنی ہے۔دو ٹیوب لائٹ فیوز ہوئے ہیں۔واش روم کی پلاسٹک کی بالٹی ٹوٹ گئی ہے۔جانان کے لئے سائیکل خریدنی ہے فاطمہ کے کپڑے بہت پُرانے ہوگئے ہیں۔سلیم کے سکول کے یونیفارم ۔اُفو اس مہینے اس کے لئے کاپیاں بھی خریدنی ہیں۔اس کی ماں سے چادر خریدنے کا وعدہ کیا تھا۔اپنے لئے اونچی فشار خون کے لئے دوائیاں۔۔۔۔یہ سب پہلی تاریخ کی شام کی سوچیں تھیں۔صبح ہوئی تو پورا گھرانہ حسب مہینہ جوبن پہ تھا۔آج مزدور مزدوری پہ گئے تنخواہ ملی۔موجود ایک ساتھی نے پرانے قرض کا تقاضا کیا۔2000روپے اس کے ہاتھ پہ رکھے۔بازار آئے تو دکاندارنے پہلے والے قرض کا تقاضا کیا۔اس نے قرض چکایا تو پھر اس مہینے کے خرچے قرض پہ چھڑے۔ایک ہزار کا نوٹ ہاتھ میں بچا وہ فیصلہ نہیں کرپارہا تھا کہ کیا کریں کہاں پر خرچ کرے۔بچوں کی فرمائشیں یا د آرہی تھیں۔بیوی اور اس کی صحت ستارہی تھی۔بچے کی کاپیاں اور اس کا مستقبل یاد آرہا تھا۔بجلی اور پانی کے بل یاد آرہے تھے۔بڑی مشکل سے فیصلہ کیا کہ بچے کی کاپیاں خریدے۔کاپیوں پر500روپے گئے۔دوائی کی دکان میں آئے اپنی اور بیوی کے لئے دوائیاں خریدی لرزتے ہوئے جیب سے 500کا نوٹ نکالا۔دکاندار کی طرف بڑھایا تو اس نے کہا کہ وہ پچھلے مہینے کے 1000روپے کون دے گا۔اس نے جھٹ سے وہ دوائیاں واپس کی۔اور کہا کہ یہ500کا نوٹ لے لو باقی اگلے مہینے دونگا۔دکاندار نے انکار کیا تو وہ دوڑ کر کتابوں کی دکان پہ گئے بچے کی کاپیاں واپس کی۔اپنی اور بیوی کی صحت اور بچے کے مستقبل لے کر دکاندار کے ہاتھ میں رکھا۔پرانی چادر جھاڑ کے گھر کی طرف روانہ ہوئے۔گھر پہنچا تو بیوی پھر دوائیاں ختم ہونے پر بستر مرگ پہ تھیں۔بچے ساماں عبرت بن کے اس کے سرہانے بیٹھے ہوئے تھے ان کی فرمائشیں ان کی آنکھوں میں آنسو بن گئیں تھیں۔بڑے بیٹے جس کی کاپیاں واپس کرکے دکاندار کا قرض چکادیا گیا تھا نے کہا۔ابو آمی کے لئے دوائی نہیں لایا کیا؟؟۔۔۔۔اس نے بیوی کی طرف دیکھا۔بیوی کی آنکھوں میں اُتری ہوئی آفسردگی بھی آنسو بن گئے تھی۔نقاہت میں اتنی کہہ سکی ۔۔۔۔’’اپنے لئے دوا خریدی کہ نہیں‘‘دوسرے لمحے وہ تو زندگی کی جھنجھٹ سے آزاد ہوگئی مگر شوہر نے دونوں ہاتھوں سے سر پکڑلیاکیونکہ ہائی بلڈپریشر سے اس کے سرمیں شدید درد اُٹھا تھا۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button