بلتستان کو کس کی نظر لگ گئی۔؟
دس ہزار ایک سو اٹھارا مربع میل اور دو ضلعوں پر مشتمل ارض بلتستان دنیا ایک ایسا خطہ ہے جہاں چودہویں صدی عیسوی سے قبل اسلام کا کوئی نام و نشان نہ تھا لیکن چودہویں صدی کے بعد اسلام اس شان وشوکت سے اس علاقے پر چھا گیا کہ اب کسی غیر مسلم کا کوئی نام و نشان تک کہیں نہیں ملتایہ بات بھی بغیرکسی شک وشبہ کے قابل ذکر ہے کہ یہاں اسلام تشیع کی صورت میں پھیلا ہے لیکن یہا ں مسلک نوربخشی اور مسلک اہلحدیث کے پروکار بھی اپنی مکمل شناخت اور آذادی کے ساتھ یہاں آبادہیں۔ بلتستان کے معاشرے کی ایک خاص بات یہ ہے کہ تینوں مسالک کے درمیان زمانہ قدیم سے رشتہ داریاں قائم ہونے کے ساتھ ساتھ آپس میں شادیاں بھی کرتے ہیں ایک دوسرے کی مذہبی رسومات کے احترام کو تینوں مسالک کے ماننے والے مذہبی فریضہ سمجھتے ہوئے شریک بھی ہوتے ہیں۔ یوں ہم کہہ سکتے ہیں کہ بلتستان اُس کے پھول کے مانند ہیں جو رنگوں میں مختلف ہونے کے باوجود خوشبو ایک دیتے ہیں اور یہی خوش نما ماحول معاشرتی باہمی تعاون اور ادب احترام کے حوالے سے دنیا کیلئے ایک عملی نمونہ پیش کرتے ہیں۔لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جہاں پھول ہوتے ہیں وہاں کانٹے بھی ضروراُگتے ہیں اور آج کل ایسے ہی کچھ کانٹے اجماع پر مسلط ہونے کی کوشش کرتے ہوئے مولوی اور معاشرتی ذمہ دران کی شکل میں معاشرے میں مسائل پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ایسے ہی لوگوں کی وجہ سے آج دنیا کے سامنے علماوں کی سرزمین بلتستان کے حوالے سے منفی تاثرات دنیا کے سامنے پیش ہو رہے ہیں۔ ایسا کیوں ہوا ؟جہاں تک میں سمجھتا ہوں اس کے ذمہ دار بھی ہم ہی ہیں کیونکہ ہم نے استاد کے مقدس پیشے کو رشوت کے بھینٹ چڑتے دیکھا مگر خاموش رہے، عالم کے مقدس پیشے کو سیاست اورآمدنی کا ذریعہ بنتے دیکھا مگر ہم نے ان دیکھی کر دی،ڈاکٹر کے مقدس پیشے کو بھی کچھ جنسی بھڑیوں نے متنازعہ بنایا مگر یہاں بھی ہم نے آنکھیں بند کرلی،اسی طرح پولیس کے پیشے کو رشوت کرپشن اور اقرباء پروری کا بازار بنتے دیکھا مگرمعاشرے نے اُس سے بھی لاتعلقی کا اظہار کیا،دوکاندروں نے گراں فروشی اور غیر معیاری اشیاء کی فروخت کو بہتر آمدنی کا ذریعہ بنایا مگر کسی کوئی توجہ نہیں دی۔اسی طرح معاشرے کے ذمہ داروں نے معاشرتی امن او ر بلتستان کی بہتر امیج کو برقرار رکھنے کیلئے اپنے اطراف پر نظر رکھنے کے بجائے امریکن ایڈز کے ذریعے اسلام اور تعلیم عام کرنے کی کوشش میں مگن ہوئے جس کے نتیجے میں ہم نے سکردو کو منشیات کا اڈہ بنتے دیکھا،اس سرزمین سے تحریک طالبان کا ترجمان بھی منتخب ہوا پھر سکردو میں داعیش کے حق میں وال چاکینگ بھی ہوئی اور اب سرکاری اداروں میں شدت پسند خواتین اور حضرات کی موجودگی کا انکشاف ہونا بلتستان پولیس، خفیہ اداروں اور بالخصوص علمائے بلتستان کی کوتاہی کا ایک منہ بولتا ثبوت ہے۔آج جن لوگوں کے ہاتھ میں نظام معاشرہ ہے بدقسمتی سے ایسے ہی لوگوں کی اولادیں اوباش کہلاتے ہیں اور ایسے ہی اوباش لڑکوں نے سکردو کی سرزمین پر بلتستان کی ایک بیٹی کو جنسی ہوس کا نشانہ بنایا لیکن ہم سڑکوں پر نکلنے کے بجائے سوشل میڈیا اور اخباری بیانات کے ذریعے مذمتی بیانات کو معاشرتی ذمہ داری سمجھ کر خاموش ہوگئے ۔یہاں یہ بات بھی اپنے قارئین تک پونچانا ضروری سمجھتا ہوں کہ پچھلے سال بھی ایک ایسا ہی واقعہ رونما ہوا تھا اور اُس ریپ کیس میں سکردو کے نامی گرامی شخصیات ملوث تھے جو عمومی طور پر ہمیشہ مسجدکی اگلی صفوں کے زینت بنتے ہیں یہی وجہ تھی کہ وہ بھیانک واقعہ منظرعام پر نہیں آسکا اور صاحب مہراب ممبر حضرات اور سول سوسائٹی نے اُس واقعے سے باخبر ہوتے ہوئے بھی خاموشی اختیار کرلی ۔
اس طرح کے ایک واقعے پر بھارت کے عوام نے مجرم کو سزا دینے کا جو طریقہ اپنا تھا ایسے ہی طریقے سے اسطرح کے جنسی ہوس کے بھوکے بھڑیوں کو سزا دینے کی ضرورت تھی لیکن ایسا نہیں ہوسکا کیونکہ ہمارے مولوی مسجد کے میناروں کی اونچائی بڑھانے کیلئے تو ایک دوسرے کا مقابلہ کرسکتے ہیں مگر علاقائی امن کی خاطر معاشرتی نانصافیوں ، محرومیوں اور ظلم وستم کے خلاف ایک ٹیبل پر جمع ہونا آج کے حالات میں ایک مشکل عمل نظر آتا ہے۔ تکفیرت نے معاشرے میں نفرت کی اسی بیچ بوئی ہے کہ سامنے والے کو اپنے علاوہ باقی سب اہل بدعت اور مشرک لگتے ہیں معاشرے کی اس بھیانک چہرے کو ایک لمحے کیلئے جب میںآئینے میں دیکھتا ہوں تومجھے سر پیٹتے ہوئے اللہ سے دعا کرنے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ دکھائی نہیں دیتا کیونکہ معاشرے میں ہر کوئی اپنی ذمہ داریوں سے بھاگتے ہوئے نظر آتے ہیں انہی کمزروری سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے آج دشمن بلتستان اس پرُ امن سرزمین پر نفرت کا بیچ بونے کیلئے ہر قسم کے حربے استعمال کررہے ہیں ۔ دشمن جان چکے ہیں کہ معاشرے سے معاشرتی اقدار ختم ہوتی جارہی ہے اگر ایسا نہ ہوتا تو کسی کی کیا مجال تھی کی سکردو جیسے مقام پر کوئی منشیات کا کاروبار کریں یہ بھی ایک دشمن کی چالتھی کیونکہ جب کسی معاشرے کو ختم کرنا ہوتا ہے تو سب سے پہلے اُس معاشرے کے نوجوانوں کو بے راہ روہی کی طرف دھکیل دیتے ہیں یہی کچھ آج بلتستان کے صدر مقام سکردو میں ہورہا ہے لیکن ہمیں خبر نہیں کیونکہ ہم سب نے معاشرتی سوچ کے بجائے انفرادی طور پیٹ پوجاری کو اپنا شیوابنایا ہوا ہے۔ لہذا بلتستان کی بقاء کے خاطر آیئے عہد کرتے ہیں اپنے مادر وطن سے کہ ہم سب ملکر معاشرے کی اس بگڑتی ہوئی صورت حال کو کنٹرول کرنے کیلئے بغیر کسی مسلکی تفریق کے اپنے اپنے علاقوں میں موجود شدت پسندانہ ذہنیت رکھنے والوں کو خود سکیورٹی اداروں کا حوالہ کرتے ہوئے بلتستان کے امن اور معاشرتی پہچان کو پارہ پارہ کرنے کی سازش کوناکام بنائیں ۔ کیونکہ اہل علم کی سرزمین بلتستان میں تکفیری سوچ کے حامل عناصر کیلئے کوئی جگہ نہیں ہونا چاہئے یہ بستی امیر کبیر سید علی ہمدانی کی نگری ہے جو امن اور آشتی کا پیامبرتھے کسی کو یہاں پر زمانہ قدیم سے موجود مسلکی ہم آہنگی اور بھائی چارگی کے فضاء کو خراب کرنے کی اجازت نہیں دینا چاہئے کیونکہ بلتستان سادات کی سرزمین ہے جنکا شیوہ صرف حق انصاف اور معاشرتی روادری کی پرچار ہے۔ آیئے نظر اُتارتے ہیں اس چمن کا اپنے مثبت کرداروں سے ،کرپشن اقرباء پروری اور لوٹ کھسوٹ کے نظام سے بیزاری کا اظہار کرتے ہوئے اور ظالمانہ محکومانہ نظام کے خلاف آواز بلند کرتے ہوئے اس گلشن کی قدرتی حُسن کو چار چاند لگاتے ہیں ۔