کالمز

’’معاشرتی علوم کی کاپی‘‘

hayatماں کو غم کھایا جارہا تھا کیونکہ اس صبح اس کی بچی رو رو کے سکول گئی تھی ۔اس کے جوتے پھٹے پرانے تھے وہ اپنی جگہ مگر اس کے معاشرتی علوم کی کاپی ختم ہوگئی تھی۔استاد نے دھمکی دی تھی کہ کل اس کو بھری کلاس سے بلکہ سکول سے نکال دیا جائے گا۔بچی اٹھویں جماعت میں تھی اس کو اس بات کا بڑا خوف تھا کہ بھری کلاس جوکہ مخلوط ہے اس کو بچے اور بچیوں کے سامنے کھڑی کی جائے گی اور استاد اس کو بُرا بھلا کہے گا استاد بُرا بھلا بہت کہتا ہے جب غصہ ہوتا ہے تو یہ بھول جاتا ہے کہ اس کی دوسروں کی ملامت کرنے سے ان پر کیا گذرتا ہے۔استاد لمبی چوڑی تقریر کرتا ہے ملامت کرتا ہے بس بچی کو اپنی ہتک کا بڑا خوف تھا۔ابو نے کاپی خریدنے کا وعدہ کیا تھا مگر بیمار ابو کیا کرتا۔اس کی جیب خالی تھی وعدہ کیا تھا مگر وعدے کی شام بھی خاموش رہا۔ماں کو بچی کے انسوؤں نے ٹکڑے ٹکڑے کردیا تھا۔۔۔اس نے آسمان کی طرف نگاہ کرکے خلاف عادت شکایت کی۔۔۔نیلی چھت والے 100روپے کی توبات تھی۔میری بچی کی لاج رہ جاتی۔پھر تڑپ گئی تھی لرزہ برآندام ہوگئی۔سجدے میں گرگئی تھی۔۔۔سوبار سوچا تھا کہ بچی کو سکول سے اُٹھائے مگر پھر بچی کے شوق نے اس کو شکست دی تھی۔۔۔۔آج کی صبح بچی نہیں بلکہ زندہ لاش گھر سے نکلی اس کی پھٹے جوتے راہ کی دھول اڑا رہے تھے۔راہ چلتی ہربچی کو دیکھ کر اس کو ایسا لگا کہ یہ دنیا کی خوش قسمت ترین بچی ہے۔کیونکہ اس کے پاس ’’معاشرتی علوم کی کاپی‘‘ہے۔۔۔سکول لگا۔۔۔پہلا پریڈ دوسرا پریڈپھر تیسرا پریڈ۔۔۔چوتھے پریڈ کی گھنٹی نہیں بجی گویا پسٹل کی گولی چلی اور سیدھا آکے بچی کے سینے میں لگی۔اور زندگی ،دنیا،خوبصورتیاں،لذتیں اور رنگینیاں سب کچھ اُڑا کے لے گئی۔اور یہ مٹی کا ڈھیر ’’ڈھیر‘‘ہی رہ گئی۔۔۔۔کلاس میں بچیوں نے معاشرتی علوم کی کتابیں اور کاپیان نکال کرڈسکوں پر رکھلی۔۔۔بچی کا دل اتنے زور سے دھڑک رہا تھا کہ کائنات کی آوازیں اس میں مدغم ہوجاتی تھیں۔استاد 5منٹ لیٹ آئے۔۔۔کمرے میں داخل ہوکر اپنی ’’سٹک ‘‘میز پہ رکھا اور اونچی آواز سے کہا۔۔۔’’سنو !میری بات۔۔۔سب سہم سے گئے۔۔۔۔بچے سب کھڑے ہوجائیں۔۔۔بچیاں بیٹھی رہیں۔۔۔۔بچے کھڑے ہو گئے۔پھر استاد نے تقریر شروع کی۔غریبی کا طعنہ دیا والدین سے ہمدردی جتائی ان کے احساسات گنوائے پھر کہا کہ آج وہ پریڈ نہیں لیں گے۔۔۔۔تمہارے وظیفے کے پیسے آئے ہیں۔میں پیسے تم میں تقسیم کرونگا۔مگر سیدھا گھر لے جاکے والد صاحب کے ہاتھ میں رکھو۔۔۔۔بچی کی آ نکھوں سے بے اختیار انسو بہہ نکلے۔اس کو یہ پتہ نہیں تھا کہ یہ پیسے کہان سے آرہے ہیں اس کو ایسا لگا کہ کسی نے ساری کائنات کی دولت لاکے اس کی جولی میں رکھ دی ہے۔اس سمے وہ اپنے آپ کو دنیا کا خوش قسمت ترین انسان سمجھنے لگی۔۔۔۔سوچا ۔

چھوٹے بھائی کو کھلونے خریدے گی۔چیوگم بھی۔اپنے لئے جوتے بھی،باپ کے لئے دوائی بھی مگر سب سے پہلے ’’معاشرتی علوم‘‘کی کاپی خریدے گی۔استاد تقریر ختم کرکے باہر نکلا۔۔۔پیسے لائے گئے۔اس کا نمبر آیا اس نے دستخط کرتے ہوئے لرزہ برآندام ہوئی۔استاد نے اس کو ڈانٹا۔۔۔1200روپے مٹھی میں بند کرلیا۔ایسا لگا کہ اُڑ کر گھر پہنچے اور ماں کے ہاتھ میں رکھے۔لمحے کاٹتی رہی سکول کی چھٹی ہوئی گھر پہنچی ،ماں کے ہاتھ میں رکھی اور اس کے رخسار پہ بوسہ دیا۔ماں تڑپی پھر نیلی چھت کی طرف ماں نے نگاہ کی۔ماں نے100روپے دیا وہ دوڑ کے معاشرتی علوم کے لئے کاپی خرید لائی۔۔۔مگر اس بچی کو کیا پتہ کہ’’عادل حکمران‘‘کیا ہوتا ہے’’فلاحی ریاست‘‘کس خواب کانام ہے’’سہولیات‘‘اور ’’بنیادی حقوق‘‘کسے کہتے ہیں۔خوشحالی کہاں سے جنم لیتی ہے اس بچی کی طرح اور کتنے لوگ ہیں ان کو کچھ پتہ نہیں۔بڑے بڑے محلات جوباہر سے بے شک اندھیرے میں ڈوبے ہوئے ہیں مگر اندر روشنیاں ہیں ان کی ایک شام کاکھانا غریبوں میں بانٹا جائے تو کتنے گھر روشن ہونگے۔ان محلوں میں رہنے والے بچوں کو ’’معاشرتی علوم ‘‘کی کاپی کی کوئی فکر نہیں۔شاید ان کو یہ بھی پتہ نہ ہو کہ معاشرہ کیا ہوتا ہے اور معاشرتی علوم میں کیا کچھ لکھا ہوا ہوتا ہے۔بچیوں کے لئے وظیفہ مقرر کرنے والی یہ حکومت جو کسی کی بھی ہو خراج تحسین کا مستحق ہے اور جس حکومت نے اس کو برقرار رکھی ہے شاباش کے مستحق ہے۔ان حکمرانوں کو احساس ہونا چاہیئے کہ ان کی رعایا میں کئی ایسی بچیاں ہیں جن کے پاس نہ جوتے ہیں نہ معاشرتی علوم کی کاپیاں ہیں ۔ان کے لئے یوں انتظام کرنے والی حکومت ہی’’فلاحی‘‘کہلائے گی اور اس بچی کے آنسو اور آنسوؤں کی جگہ جنم لینے والی مسکراہٹ ان حکمرانوں کی اخرت سنوارنے کے لئے کافی ہے۔یہی آہیں ،آنسو اور مسکراہٹیں ہیں جو حکومتیں گراتی بھی ہیں بچاتی بھی ہیں۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button