منشیات کے استعمال سے معاشرے اور نوجوانوں پر اثرات
کرائمنا لوجسٹ وزیر غلام حیدر شگری
ہمارا دین اسلام دنیاکا واحد دین ہے اور ہمارے دین میں منشیات بیچنے کو ،منشیات سے نشہ کرنے کو اور منشیات کے پھیلاؤ میں کسی بھی قسم کی مدد کرنے کو حرام قرار دیتا ہے ۔ آج دنیا کے جدید تحقیق بتاری رہی ہے کہ اس وقت دنیا میں ساٹھ فیصد برائی کے کام اور Sencetive Crimeمنشیات کی وجہ سے ہورہے ہیں ۔ مغربی محقق (مائیکل ہارٹ نے لکھا ہے) کہ دنیا میں منشیات سے چھٹکارا پانے کے لئے اسلام کی طرف راغب کرنا پڑے گا ۔ مگر افسوس اس وقت مسلم ممالک تو منشیات فروشوں کا مرکز بن چکا ہے ۔ ایک (Research)سروے کے مطابق اس وقت اسلامی جمہویہ پاکستان میں ایک کروڑ سے زائد لو گ منشیات کا شکار ہیں ۔ مختلف اینگل پے زنا، بدکاری ، و دیگر جرائم اتنی تیزی سے بڑھ گئے ہیں اس وقت ہمارے معاشرے میں منشیات کا بڑھتا ہوا ستعمال ہر برائی کی جڑ بن چکا ہے ۔ بہت افسوس ہے ۔ گلگت بلتستان جیسا پُر امن خطے میں بھی منشیات کی بیماری بُری طرح سے پھیل رہی ہے ۔ کہنے پر مجبو ر ہوں گلگت بلتستان میں اس بُری بیماری پھیلانے کے پیچھے بااثر لوگوں کے ہاتھ دیکھائی دیتے ہیں ۔ اس بُری بیماری کے اثرات سے آج کل پُر امن ادب بلتستان میں ایسے ہولناک واقعہ ہو رہے ہیں یہاں تک کہ ماں بہنیں بھی محفوظ نہیں ہیں ۔ اس سے زیادہ اثرات کیا ہوسکتاہے۔ عورتوں کی عزت کے ساتھ کھیل رہی ہے پے در پے گلگت بلتستان جیسے پُر امن علاقہ میں کبھی لڑکوں کے ساتھ ذیادتی تو کبھی لڑکیوں کے ساتھ جنسی ذیادتی ، کبھی قتل جیسے واقعات رونما ہورہے ہیں ۔ بہرحال یہ سب کچھ اسی کی کڑی ہے اس کی گہری وجوہات منشیات کے اثرات دکھائی دیتے ہیں ۔ منشیات نشہ ایک ایسی بیماری اور عادت ہے کہ جس کی وجہ سے عوام تباہ و برباد ہو جاتی ہے اور لوگوں میں انسانیت ختم ہو جاتی ہے انسانیت حیوانیت میں تبدیل ہوجاتی ہے اس کی ہوش و حواس اور عقل باقی نہیں رہتی ۔ نہ صرف عقل بلکہ اس سے غیر ت و شرف کرم ، شرم و حیاء ، ماؤں بہنوں کے درمیان تمیز و ترتیب ، عزت و وقار ختم ہوجاتا ہے ۔ جس کی وجہ سے آج کل زیادہ تر نوجوان طبقہ زنااور دیگر شرمناک کاموں کی طرف مائل ہو رہا ہے ۔ نشے کی حالت میں اپن خواہشات کی خاطر کسی مرد عورت کی زندگی بربادکرنا بہت ہی سنگین جرم Felony Crimeمیں شمار ہوتا ہے اس سنگین جرم کو قانون کے نقطہ نظر سے روکنے کا بہترین فارمولا موقع پر سخت سزا دینا چاہیے کیوں کہ سخت جرم کا حل سخت سزا ہے ۔
ہمارے پُر امن معاشرے میں ایسا کیوں ہو رہا ہے ۔ یہ ایک سوالیہ نشان ہے ؟
میں بحیثیت کرائمنا لوجی کا طالب ہو ۔ میرا زیاد ہ تر وقت منشیات کے مشاہدہ میں گزرتا ہے ۔ یہ سب کچھ منشیات کی وجہ سے ہورہا ہے ۔ ہمارا دشمن یعنی مفاد پرست لوگ بہتر جانتے ہیں کہ کسی بھی معاشرے میں فتنہ و فساد، تباہی اور بُری بیماری پھیلانا ہے تو سب سے پہلے اس معاشرے میں منشیات کو عام کرتے ہیں ۔ جب منشیات عام ہو گئی تو تباہی اور بربادی پھیلنے میں وقت نہیں لگتا ۔ نوجوان اور طلبہ طبقہ اس کڑی میں آجائے تو خود بخود معاشرے میں Various Prespectiveپر جرائم کے Ratioبڑھتا چلا جاتا ہے ۔ یہ تھیوری (Crimilogical Prespective) کے مطابق ہے یہی تھیوری معاشرے میں جرائم پھیلانے کا پہلا قدم ہے ۔ ہمیں اپنے معاشرے میں اس بیماری کو ٹکنے نہیں دینا چاہیے ۔ اسے روکنا، اس کا خاتمہ کرنا ، اس کا کاروبار کرنے والوں کو قانون کے شکنجہ میں لانا ، قانون نافذ کرنے والے اداروں اور سیکیورٹی اداروں کا یہ فرض بنتا ہے کہ ہمارے سیکیورٹی اور تفتیشی اداروں کو یہ سب کچھ پتہ ہے اس بُری بیماری منشیات کا باقاعدہ باثر لوگوں کا انٹرنلی نیٹرورک چل رہا ہے ۔ اگر ہم اس نیٹ ورک کو مکمل منقطع کرکے جرائم سے نجات دلانا ہے تو اس کا حل احتجاج ، شور و شرابہ بیان بازی ، فیس بک پر تصویر ی شیئر کرنے سے نہیں رُکتا ۔ بلکہ اس کا واحد حل ہمیں خواب غفلت سے بیدار ہوکرگلگت بلتستان بلخصوص بلتستان کے تمام مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے مذہبی رہنماؤں کے درمیان ایک کمیٹی تشکیل کرنے کی اشد ضرورت ہے ۔ اس کمیٹی کے پلیٹ فارم پر مذہبی رہنماؤں کے زیر نگرانی ان کے تعاون سے ہم اپنے پُر امن خطے میں بُرائی پھیلائی والے بااثر لوگوں کے اندرونی نیٹ ورک کا قلع قمہ کرکے منشیات اڈوں کا مکمل خاتمہ کرکے ہم اپنے معاشرے کو دوبارہ خوشگوار اور پُر امن کا گہوارہ بنا سکتے ہیں ۔