کالمز

یومِ پاکستان تایخ کے آئینے میں 

Karimہر سال23مارچ کو پاکستان کے عوام ’’یوم پاکستان‘‘ کے طورپر مناتے ہیں ۔ اس روایات کو برقرار رکھتے ہوئے اس سال بھی یوم پاکستان کے موقع پر خصوصی پروگرامات کئے گئے تھے جبکہ سات سال بعد وفاقی دارلحکومت اسلام آباد میں خصوصی پروگرام منعقد ہوئے ،اس کے علاوہ ملک بھر کے مختلف سکولوں ،کالجز ،یونیورسٹیز اور دوسرے اداروں میں یوم پاکستان کے حوالے سے خصوصی تقاریب منعقد ہوئی جبکہ میڈیا میں ملی نغموں ،یوم پاکستان کے تقریبوں اور اہم شخصیات کے خطابات نشر کرنے کاسلسلہ جاری ہے ۔ نصابی کتابوں بالخصوص مطالعہ پاکستان میں پہلی جماعت سے لیکر گریجویٹ تک یہ پڑھ کہ آئے ہیں کہ 23مارچ 1940ء کو لاہور میں منعقد ہونے والی آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس میں ایک قرارداد منظور ہوئی تھی جس میں ہندوستان کے مسلمانوں کے لئے علیٰحدہ اسلامی ریاست کے قیام کا مطالبہ کیا گیا تھا، اس مطالبے(مسلمانوں کے لئے علیٰحدہ اسکامی ریاست کے قیام) کو’ نظریہ پاکستان ‘کا نام دیا جاتاہے، اس سے زیادہ کسی نصابی کتا ب میں اس اجلاس اور وہاں پیش کئے گئے’ قرارداد لاہور ‘جسے’ قراردادِ پاکستان ‘بھی کہتے ہیں سے متعلق کوئی تفصیل موجودنہیں ۔آخر کیا وجہ ہے کہ کسی بھی نصابی کتا ب میں اس حوالے سے کوئی تفصیل موجود نہیں؟ اسکاجواب شائد کسی کے پاس ہو۔ہر دور میں حکمران طبقے،ملٹری وسویلیں بیروکریسی، جاگیر داروسرمایہ داروں اور ملاؤں نے اپنی مفادات کی تحفظ کے لئے عوام کو اندھیرے میں رکھنے او رحقائق کو مسخ کرنے کے لئے تاریخ کی آبروریزی کرکے نئی نسل کو جھوٹ پر مبنی لٹریچر پڑھائے جارہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مملکت پاکستان ترقی کرنے کے بجائے روزبروز تنزلی کی جانب گامزن ہے۔ کیونکہ تاریخ کا سبق یہ ہے کہ ’جو قومین تاریخ کو مسخ کرنے کی کوشش کرتے ہیں تاریخ کے ہاتھوں تباہ ہو کر عبرت کا نشان بن جاتے ہیں ‘۔ موجودہ دور کے کچھ دانشوروں نے تاریخی سے پردہ اٹھا کر حقائق کو سامنے لانے کی کوشش کی ہے۔ نامور مورخ کے کے عزیز مارچ 1940ء کو منعقدہ آل انڈیا مسلم لیگ کے 27واں اجلاس کی رودار کچھ ان الفاظ میں بیا ن کی ہے ’’آل انڈیا مسلم لیگ کا 27واں سالانہ اجلاس لاہور میں منعقد ہوا اجلاس کا آغاز 22مارچ کوسہ پہر 3بجے شروع ہوا۔ استقبالیہ کمیٹی کے چیرمین کی حیثیت سے نواب آف ممدوٹ نے خطاب کیا اسکے بعد جناح نے بغیرتیاری کئے طویل تقریر کی اسکے بعد اجلاس کا پہلا دن اختتام پزیر ہوا۔ اگلے دن یعنی 23مارچ کو دن3بجے اجلاس دوبارہ شروع ہوا، فضل الحق نے اس موقع پر’ قراردادِلاہور‘ پیش کرتے ہوئے اس پر بحث بھی کی پھر چودہری خلیق الزمان نے اسکی تائید میں تقریر کی، اسکے بعد ظفر علی خان ،سردار اورنگ زیب اور عبداللہ ہارون نے بھی قرارداد کی حمایت میں مختصر تقاریر کئے ۔ ساتھ ہی اجلاس اگلے دن کے لئے ملتوی کردیا گیا، 24مارچ کو اجلاس دوبارہ صبح 11بجکر 15منٹ میں شروع ہوا جس میں یونائیٹڈ پراؤنس کے نواب اسماعیل خان، بلوچستان کے قاضی محمد عیسیٰ اور مدراس کے عبدالحمید نے قرارداد کے حق میں تقریر کی ۔اس موقع پر جناح بھی اجلاس میں پہنچ گئے جو کہ صبح کسی مصروفیات کی وجہ سے حاضر نہیں ہوسکے تھے انہوں نے آتے ہی اجلاس کی صدارت سنبھال لی۔جبکہ بمبئی کے ابراہیم اسماعیل چندیگر،سنٹرل پراؤنس کے سید عبدالروف شاہ،پنجاب کے ڈاکٹر محمد عالم نے قرارداد پر بحث جاری رکھی اور بڑی گرم جوشی واشتیاق کے ساتھ اسکی (قراردادِلاہورکی)حمایت کی۔ اس موقع پر جناح نے مداخلت کی اور عبدالرحمن صدیقی کو فلسطین سے متعلق اپنا قرارداد پیش کرنے کا حکم دیا۔ سید رضا علی اور عبدالحمید بدایونی نے اس قرارداد کے حق میں تقریریں کی اور اسے اسمبلی میں adoptکیا گیا ۔اسکے ساتھ ہی اجلاس وقتی طورپررات 9بجے تک ملتوی کردیا گیارات کے اجلاس میں ’قراردادِلاہور‘ پر سید ذاکر علی اور بیگم محمد علی نے دواور تقاریر کئے اسکے بعد قرارداد کے لئے ووٹنگ کا مرحلہ آیا اور اسے متفقہ طورپر منظوری دی گئی ساتھ ہی دو مزید قرارداد(خاکسار اور پارٹی آئین میں ترمیم ) بھی پیش کئے گئے معمولی بحث کے بعد انہیں بھی منظوری دی گئی بالاآخر سیشن میں دفتری عملے کا انتخاب عمل میں لایاگیا جناح صاحب نے مختصر اختتامی تقریر کی اور یوں رات 11بج کر 30منٹ کو یہ اجلاس اختتام پزیر ہوا‘‘(The murder of History in Pakistan by KK Aziz170-71)۔یعنی ’قرار داد لاہور‘ 23مارچ کو نہیں بلکہ 24مارچ 1940ء کو منظورہوا تھا سوال یہ پیداہوتاہے کہ پاکستان میں ہر سال 23مارچ کو ’یومِ پاکستان ‘کیوں منایا جاتا ہے ؟’’9جنوری کو1956ء کے آئین کاڈرافٹ بل قانون ساز اسمبلی میں پیش کیا گیا بل پر 29فروری کو فائنل بحث ہوئی آئین کو 23مارچ 1956ء کو نافذ کر دیا گیا‘‘ (The murder of History in Pakistan by KK Aziz)۔ 9سال کی طویل اور صبر آزما انتظار کے بعد ملک کو متفقہ آئین ملا تو جمہوری قوتوں نے 23مارچ کو یومِ پاکستان ڈئکلئیر کردیا ۔جب 1958ء کو جرنیل ایوب خان نے ملک میں مارشل لاء نافذ کرکے 1956ء کے آئین کو توڑدیا۔ تو23مارچ کو’یوم پاکستان‘ منانے کا کوئی مقصد باقی نہیں بچا، چنانچہ درباری کاتبوں کے ذریعے 23مارچ کے لئے جواز ڈھونڈنا شروع کیاگیا جس کے لئے تاریخ کو مسخ کرنے کے علاوہ کوئی دوسرا چارہ نہیں تھا۔ چنانچہ سرکاری مورخیں نے یہ پروپیگنڈہ گاڑدیا کہ 23مارچ 1940ء کو چونکہ ’قراردادِ لاہور‘(قراردادِپاکستان) منظورہواتھا جس میں برصغیر کے مسلمانوں کے لئے علیٰحدہ اسلامی ریاست کے قیام کا مطالبہ کیا گیا تھا یہاں سے ’یومِ پاکستان ‘کا تابہ بانہ 1940ء کے لاہور میں منعقد ہ آل انڈیا مسلم لیگ کے اس اجلاس سے جوڑا گیا۔اب ذرا ’قراردادِلاہور‘ کے متن پر نظردوڑائی جائے جو بوجوہ کسی بھی نصابی کتاب میں موجود نہیں اس قرارداد میں کہیں بھی نہ توپاکستان کا ذکر کیاگیاہے اور نہ ہی کوئی اسلامی ریاست کے قیام کا مطالبہ ۔ ’’آل انڈیا مسلم لیگ کے اس اجلاس کا متفقہ مطالبہ ہے کہ اس ملک کے لئے کوئی بھی آئینی پلان اس وقت تک قابل عمل نہ ہوگا اور نہ ہی مسلمان اسے تسلیم کرئینگے یہاں تک کہ (ملک کے) نقشے کو اس بنیاد پر دوبارہ ترتیب دیا جائے کہ جغرافیائی لحاظ سے ملحق یونٹس کی حدبندی آئینی طورپر ایک خطے میں کیجائے، اس دوبارہ ترتیب کے لئے ضروری ہے کہ عددی لحاظ سے مسلمان اکثریتی علاقوں کو دوبارہ ترتیب دیا جائے انڈیا کے شمال مغربی اور مشرقی حصوں کو ایک آئینی گروپ بندی میں رکھ کر آزاد ریاستوں (independent states) کی شکل دی جائے اور اس میں آئینی یونٹس لازماََ خودمختار اور آزاد ہو‘‘۔ (the murder of history in pakistan by kk aziz pg173) )۔غورطلب پہلویہ ہے کہ’ قراردادِ لاہور‘(قراردادِ پاکستان) میں کہیں پاکستان کا نام نہیں لیا گیا ہے جبکہ اسلامی ریاست اور نظریہ پاکستان جیسے کسی مفروضے کا بھی معمولی ساذکر بھی قراردادِ لاہور میں موجودنہیں ہے بقول غالب

جب کہ تجھ بن نہیں کوئی موجود،

پھریہ ہنگامہ اے خداکیاہے؟؟

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button