ثقافت

خیبرپختونخواہ کلچرل ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے پشاور میں چترال کلچراینڈ میوزیکل پروگرام کا اہتمام کیا گیا 

1

پشاور (کریم اللہ) پشاور کے نشتر حال میں خیبرپختونخواہ کلچرل ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے چترال کلچرل اینڈ میوزیکل شوکا اہتمام کیا گیا جس میں چترال کے نامور فنکاروگلوکاروں اور میوزیکل بینڈ نے حصہ لیا ۔پروگرام میں حصہ لینے والے فنکاروں میں نامور گائیک شجاع الحق، ظفر حیات، دیدار علی افشان، افسر علی آباد،منور شاہ رنگین،توکل خان اور دوسرے نامور فنکاروں نے حصہ لیا۔پروگرام کا آغاز قومی ترانے سے ہوا پروگرام کی نظامت قاضی عنایت جلیل عنبر کررہے تھے۔اسکے بعد چترال کے گلوروفنکاروں نے کہوار زبان میں موسیقی اور گانا پیش کیا جبکہ دھول کی تھاپ اور موسیقی کے سرور میں مدہوش نوجوانوں نے روایتی رقص سے حاضریں کو محظوظ کیا ۔موسیقاروں نے باری باری اسٹیج پر آکر اپنے فن کا بھر پور مظاہرہ کیا محفل موسیقی کے درمیان کامیڈی آئیٹم پیش کرنے کے لئے آفسر علی آباد،منور شاہ رنگین اور توکل خان نے اسٹیج پر آکر مزاحیہ آئیٹم پیش کر شرکا سے خوب داد وصول کیا۔اس محفل موسیقی میں چترال کے خواتین اور مرد وں نے بھر پورانداز سے شرکت کرکے پروگرام کو کامیاب بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ پروگرام کے مہمان خصوصی ایم پی اے مستوج سید سردار حسین تھے۔

2

ایم پی اے سردارحسین نے حکومت خیبر پختونخواہ کے کلچرل ڈیپارٹمنٹ کا شکریہ اداکرتے ہوئے کہا کہ پشاور سمیت صوبے کے گوشے گوشے میں اس قسم کے پروگراما ت کی ضرورت ہے کیونکہ جس قوم میں فنون لطیفہ اور موسیقی کا رواج ہوان میں شدت پسندی اور تخریب کاری پیدا نہیں ہوتی ۔ اسی لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمارے معاشرے میں موجود دہشتگردی کے لئے جوابی بیانیہ کے طورپر اپنے کلچر اور ثقافت کو سامنے لائے جب تک لوگ اپنے کلچر سے وافق نہ ہو اور معاشرہ موسیقی وفنون لطیفہ سے محروم ہوجائے وہاں تخریب ودہشت جنم لیتی ہے ۔ پشاور میں دہشتگردوں نے حملہ کرکے جب لہولہاں کیا تھا تو یہاں کے باشندوں میں مایوسی اور ناامیدی پھیل چکی تھی تو ایسے حالات میں اس معاشرے کو اس قسم کی صحت مند سرگرمیوں کی ضرورت تھی جو کہ خیبر پختونخواہ کے کلچرل ڈیپارٹمنٹ نے اس سلسلے میں پیش رفت کی ہے جو کہ یقیناًقابل تعریف امر ہے ۔ ایم پی اے کا کہنا تھا کہ خیبر پختونخواہ اور مرکزی حکومت کو چاہئے کہ وہ چترال کو ایک ضلع کے طورپر ڈیل نہ کریں کیونکہ چترال ایک ضلع نہیں بلکہ ایک ریاست کی حیثیت سے موجود ہے کیونکہ اس پروگرام میں جس کلچر کو پیش کیاگیا وہ صرف چترال کا نہیں بلکہ لاکھوں مربع کلومیٹر پر محیط ہندوکش ،قراقرم اور پامیر کے پہاڑی علاقوں میں موجود چترال ،گلگت بلتستان اور تاجکستان تک کے علاقے کی نمائندگی کرتے ہیں یہی وجہ ہے کہ حکومت کواس پورے تہذیب کو مدنظر رکھنا چاہئے ۔ ہنزہ سے لیکر تاجکستان اور چقانسرائے تک کا علاقہ اپنی ریچ کلچر اور تہذیب کی وجہ سے نمایا ن مقام کے حامل ہے چونکہ اس خطے کے لوگ پرامن اور تہذیب یافتہ ہے اور اپنے کلچر سے محبت رکھتے ہیں یہی وجہ ہے کہ اس علاقے میں کوئی ناخوشگوار واقعات رونما نہیں ہوتے۔ حکومت پاکستان نے اس علاقے کو گزشتہ 68برسوں سے نظرانداز رکھا ہے جس کی وجہ سے علاقہ انتہائی پسماندہ اور غربت وافلاس کا شکار ہے جس کی جانب بھرپور توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔ایم پی اے مستوج سردارحسین نے اپنی تقریر میں کہا کہ چترال وہ واحد ریاست ہے جن کے حکمرانوں نے غیر مشروط طورپر پاکستان کی حمایت کی تھی جبکہ باقی شاہی ریاستوں نے الحاق کے وقت کئی ایک شرائط عائد کئے تھے۔ چترال کی موسیقی اور ثقافت کا حوالہ دیتے ہوہے انہوں نے کہا کہ چترال کی ثقافت اور ثقافتی اوزار برسوں کے ارتقائی مراحل سے گزر کر موجودہ شکل میں آئے ہیں اسی لئے نئی نسل کو چاہئے کہ وہ اپنے روایات کو تھامے جبکہ انہیں جدید انداز میں تبدیل کرنا بھی ناگزیر ہے کیونکہ جس ثقافت میں جدید یت کے ساتھ ہم آہنگی کی گنجائش نہ ہو وہ حالات کے تقاضوں سے مقابلہ نہیں کرسکتی ہے ۔ پشاور میں منعقدہ کلچر ل شو کی اہمیت کے حوالے سے سردارحسین کا کہنا تھا کہ اس قسم کی ثقافتی شو کی پشاور میں اس لئے بھی ضرورت تھی کہ چترال کے بہت سارے لوگ پشاور میں آکر مقیم ہوگئے ہیں اور ان کوچترال میں منعقد ہونے والے ثقافتی پروگراموں میں شرکت کا موقع نہیں ملتا جس کی وجہ سے یہاں ابھرنے والی نئی نسلوں کو اپنی ثقافتی ورثے سے کٹ جاتے ہیں اور اگر انسان اپنی روایات وثقافت سے کٹ جائے تو انسان تو رہتا ہے لیکن ان کی کوئی تشخص باقی نہیں رہتی ۔اس قسم کے پروگرامات سے چترال سے باہر رہنے والے لوگوں بالخصوص نوجوانوں کو اپنے روایات سے منسلک رہنے میں مدد ملے گی۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button