شہید سیف الرحمن
تحریر ۔ ثاقب عمر گلگتی
میں جب سکول سے چھٹی کے وقت گھر کی جا نب روانہ تھا اس دوران تھکاوٹ کی کیفیت یہ تھی کہ کتا بوں سے لدا ہوا بیگ بھی بو جھ لگ رہا تھا جسم میں توانا ئی ختم ہوئی تھی بھو ک نے نڈھال کر دیا تھا اور رہی سہی کسر سخت گرمیوں کی تپتی دھوپ نے نکال دیا تھا دل یہ کہ رہا تھا کہ گھرکب پہنچونگا اور پیٹ پوجا کرکے آرام کروں انہی خیالات میں کتا بوں کا بھا ری بیگ کندھے پر لا د کر چل رہا تھا کہ اچانک ایک بڑی گا ڑی میرے قریب آکر رکی میرا دھیا ن کہیں اور تھا جب گاڑی کے ہا رن بجی تو گا ڑی کی جا نب دیکھا گا ڑی کے کالے شیشے ڈاؤن ہوئے اور گاڑی کے اندر سے جب آواز آئی تو معلوم پڑا کہ گاڑی کے اندر سے آواز دینے والاشہید سیف الر حمن ہیں ۔
غا لباًیہ وہ زما نہ تھا جب شہید سیف الر حمن مشیر تعلیم تھے اور ہما را سکول بھی اسی راستے میں واقع تھا جہاں سے سیف الرحمن قانون ساز اسمبلی کے لیے روزانہ آتے جاتے رہتے تھے۔ ساتھ ہی شہید سیف الرحمن میرا محلے کا ایک عظیم فرد تھا جس کے ساتھ ملاقاتیں ہوتی رہتی تھیں کہ آواز دی کہ گاڑی میں بیٹھو تاکہ آپ کو گھر چھوڑ دیتے ہیں کیونکہ ایک ہی محلے اور ایک ہی راستہ ہونے پر میں گاڑی میں بیٹھا جس پر شہید سیف الرحمن نے وعظ، نصحت کی اور اپنے حوالے سے بھی بتایا کہ آج میں قوم کی وہ خدمت نہیں کر سکا جو کرنا چاہیے تھا لیکن کوشش جاری ہے کہ قوم کی خدمت کر سکوں اور یہ بھی کہا کہ کبھی بھی انسانیت کا دامن نہیں چھوڑ نا تعلیم کے حصول کیلئے محد تک جدوجہد کرنا کیونکہ میں اپنی قوم کو پڑھی لکھی دیکھنا چاہتاہوں ان کے ہا تھ میں بندوق کے بجا ئے قلم دیکھنا چا ہتا ہوںآپ نوجوان ہماری قوم کے معمار ہیںیہ گفتگو کرتے ہوئے گھر کے قریب چھوڑ کر وہ اپنے گھر کی جانب چل دیئے۔یہ ایک چھو ٹا سا واقع جس کو میں بھلا نہیں سکتا اور شہید سیف الر حمن کے اس انسان دوست رویے پے آج بھی وہ ذندہ نظر آتے ہیں جہاں بھی انسا نیت کی بات ہوتی ہے تو ذہن میںیک دم شہید سیف الر حمن کا خیال آتا ہے اس کی با تیں میری لا شعور میں اس طرح اتر چکی تھی کہ میں بھلا نہیں سکتا کیونکہ ایک مشیر تعلیم کا اپنا پرو ٹوکول کا خیال نہیں رکھ کر ایک راہ چلتے طالب علم کے لئیے اپنی گاڑی رکوا کر اسے اپنی منزل پر چھوڑ جانا میرے لیئے تجسس کا باعث بنا شہید سیف الر حمن کے اس انداز مخلصانہ کو ہر سیا ست دان میں دیکھا لیکن یہ خو بی شاید کسی اور کے اندر نہیں وہ اللہ نے شہید سیف الرحمن کو عطا کیا تھا۔ 19اپریل کا مہینہ تھا اس وقت ایک سیاسی جماعت میں باضابطہ کا م کر رہا تھا اچانک فائرنگ کی آواز سنی اور اس وقت میرے ساتھ سابق مشیر امور و نو جوانان اقبال رسول بھی تھے ہم دونوں نے فائرنگ کی آواز سنتے ہی محلے کی جانب روانگی کا فیصلہ کیا جب محلے کے قریب پہنچے تو یہ عالم تھا کہ ہر شخص کے چہرے پر افسردگی تھی پوچھنے پر ہر اک ہچکچا رہا تھا اور بتلا نہیں سکتا تھا کہ فائرنگ کیوں اور کس پر ہوئی ہے جب گھر پہنچے تو معلوم پڑھا کہ سیف الرحمٰن پر فائرنگ ہوئی ہے اور وہ دار فانی سے رخصت ہو چکے ہیں یہ خبر سنتے ہی زمین پاؤں تلے سے سرک گئی اور بے ساختہ یہ آواز نکلی کہ یہ کسی خاندان پہ ظلم نہیں ہوا ہے بلکہ پورے گلگت بلتستان کے عوام کے ساتھ ہوئی ہے 19اپریل 2003کا وہ سال مہینہ دن اور آج کا دن ہے کہ روزانہ شہید سیف الرحمٰن کے آستانے کو دیکھتا ہوں اور حسرت بھری نگااہ سے اسکا شکریہ ادا کرتا ہوں کیونکہ مجھے گھر چھوڑا تھا اس وقت جلدی میں شکریہ ادا نہیں کیا تھا 12سال کا عرصہ گزرا آج تک سیف الرحمن کے مزار پر کسی بھی اہم سیاسی رہنماء نے حاضری نہیں دی اور نہ ہی کوئی اہم سیاسی اعزاز سے نوازا گیا مزار کی حالت دیکھ کر اب بھی دل خون کے آنسو روتا ہے کہ انسان دوست شخص کے ساتھ ان لوگوں نے دنیا بھی نہیں بخشا آج انکے چلے جانے پر برسی تو منائی جاتی ہے لیکن مسلم لیگ ن کا کوئی بھی اہم رہنماء ،وزیر یا مشیر انکی مزار کی طرف نہیں آیا کیونکہ میرا گھر بھی اسی جگہ واقع ہے جہاں شید سیف لرحمن کی آخری آرام گا ہ ہے گزشتہ ہفتے اچانک مسلم لیگ ن کے رہنماء نے سیف الرحمن کی مزار پر حاضری دی اور پھولوں کی چادر ڈالا اور مزار کی خود اپنے ہاتھوں سے صفائی کی جس پر دل ہی دل میں خوشی ہوئی آج میں یہی کہونگا کہ برسی میں واویلا مچانے والے وفاقی ن لیگ کے رہنماؤں کو یہ معلوم ہی نہیں ہے کہ شہید سیف الرحمن کا آستانہ کہاں اور کس حالت میں ہے ؟اور مقامی رہنماء بھی خواب خرگوش کی نیند سو رہے ہیں ایسے میں ن لیگ کے مخصوص لکھاری حضرات بھی اس جسارت کا مظاہرہ نہیں کرتے کہ وہ سیف الرحمن کو سیاسی ایوارڈ سے نوازنے کیلئے اپنا قلمی کردار ادا کریں آج مسلم لیگ ن کے شعبدہ بازوں کو شرم آنی چاہیے کہ جسکی برسی وہ منا رہے ہیں کم از کم وہ مزار پر حاضری دیں اور عوام کو بھی معلوم پڑے کہ جس کے نام سے ووٹ کی بھیک مانگ رہے ہیں ان سے ن لیگ کی قیادت کتنی عقیدت رکھتی ہے نجی ہوٹلوں میں فاتحہ خوانی کیلئے ہاتھ اٹھا کر فوٹوسیشن سے شہید سیف الرحمن کی روح کو تکلیف دیا جارہا ہے میں یہ بات اس لیئے کر رہا ہوں کہ شہید سیف الرحمن کی اپنی زندگی میں امن اخوت بھائی چارگی کیلئے کام کیا ہے میرا ن لیگ سے لگاؤ یا کوئی ذاتی یا سیاسی دشمنی نہیں ہے جس شخص کی اس دھرتی ماں کیلئے جو قربانی ہے اسکو تسلیم کرنا اور سچ کا ساتھ دینا حق کہنا اور سچ لکھنا ہمارا قومی فریضہ ہے پی پی پی اور ن لیگ کا سیاسی ٹکراؤ اپنی جگہ لیکن شہید سیف رحمن کی سیاسی بصیرت کو بھی قبول کرنا بھی اک حقیقت پسندی ہے جب تک ہم ایک دوسروں کی اچھائیوں اور برائیوں میں تمیز نہیں کرینگے تب تک قوم ترقی کر سکے گی ۔