کالمز

پانی،جنگل اور ہوا کے دشمن

تحریر: عبدالودود عطّاری
طا لبعلم گورنمنٹ ڈگری گالج گلگت

environmentہمارے معاشرے میں روز مرہ استعمال ہونے والی اشیاء کا صحیح استعمال نہ کرنے سے تمام شہری متاثر ہوتے ہیں۔اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایسی ایسی نعمتوں سے نوازا ہے جس کا شمار ممکن نہیں ۔ان نعمتوں کا شکر ادا کرنا تو دور کی بات ہم ان نعمتوں کا صحیح استعمال بھی نہیں کرتے۔ پانی اللہ تعالیٰ کی عظیم نعمت ہے۔ ایک لمحے کیلئے سوچئے۔۔ اگر دنیا میں پانی نہ ہوتا تو دنیا کا منظر کیسا ہوتا۔پانی نہ ہونے کی وجہ سے درختوں میں پھل نہ ہوتے،پھل تو کیا درخت بھی نہ ہوتے۔ ہم جو روزانہ گھر میں کھانے کیلئے چیزیں لاتے ہیں وہ تمام اشیاء پانی کیوجہ سے تیار ہوتی ہیں۔ پانی کی ہمیں قدر نہیں ہے کیونکہ یہ ہمیں مفت ملتا ہے اور بڑے شہروں میں اکثر لوگ پانی خرید کر استعمال کرتے ہیں اور وہ لوگ جن کو پانی مفت میں ملتا ہے وہ ضرورت کے مطابق پانی کا استعمال کرتے تو شہروں میں70 فیصد لوگ پانی کی عظیم نعمت سے محروم نہ ہوتے۔بحیثیت شہری ہمارا یہ فرض ہوتا ہے کہ ہم پانی کو ضرورت سے زیادہ استعمال نہ کریں اور بلاوجہ اپنے نلکے کی ٹوٹی کو کھلا نہ رکھیں۔ایک نلکہ جس کی ٹھوٹی لیک ہو تی ہے اس سے ایک ایک قطرہ پانی ٹپکتا ہے اور ہم اس قطرہ پانی کو نظرانداز کرتے ہیں۔اس کا کتنا زیادہ نقصان ہوتا ہے۔ آ یئے اسے ایک مثال کے ذریعے سے معلوم کرتے ہیں۔گلگت جوٹیال میں ایک بوائز ہاسٹل تھا جس میں دو طلباء الگ الگ روم میں رہتے تھے ایک کا نام ساجد تھا اور دوسرا کاعمران۔دونوں نمازی لڑکے تھے۔ اس محلے میں 24 گھنٹے میں صرف آدھا گھنٹہ پانی آتا تھا لیکن بد قسمتی سے ایک روز تو پورے 28 گھنٹے لائن میں پانی نہیں آیا۔ صبح ہوئی تو ساجد نے وردی پہن لی نائی شاپ میں جاکر ہاتھ منہ دھویا اور کالج چلا گیا۔عمران نے نلکے کی طرف دیکھا تو نلکے سے ایک ایک قطرہ پانی تقریباً ہر 15 سکینڈ بعد ٹپک رہا تھا اور سوچا کہ کیوں نہ بالٹی کو اس نلکے کے نیچے رکھا جائے ۔کالج سے آنے تک شاید بالٹی بھر جائے اور پریشان ہونا نہ پڑے ۔ اس نے ایسا ہی کیا بالٹی کو نلکے کے نیچے رکھ کر کالج چلا گیا۔ چھٹی کے بعد وہ دونوں جب ہاسٹل آئے تو ساجد بہت پریشان ہوا اس کے پاس پانی ہی نہیں تھا اب اس نے قضائے حاجات بھی کرنی تھی اور وضو بھی۔وہ پریشان ہوا ۔ عمران نے بالٹی کی طرف دیکھا تو تقریباً آدھی سے زیادہ بھر گئی تھی ۔ وہ وضو کرکے مسجد کی طرف نکلا ۔کھانا پینا تو ان دونوں کاہوٹل میں تھا لیکن مسئلہ تھا تو باتھ روم کا۔ دیکھا آپ نے کہ کس طرح قطرہ پانی کو نظر انداز کرنے کیوجہ سے ساجد کو پریشانی کا سامنا ہوا اور اس سے نماز بھی چھڑ گئی اور عمران نے ایک قطرہ پانی کی قدر کی تو وہ پریشانی سے بچا اور آرام سے نماز بھی ادا کی۔

اس طرح ایک اور عظیم نعمت جنگل کی شکل میں ہمارے درمیان موجود ہے جسکا کٹاؤ آج کل ہمارے معاشرے میں عام ہوگیا ہے ۔باہر کے اکثر ملکوں میں جنگل کا کٹاؤ بہت بڑا جرم ہے۔ ہمارے ہاں بھی جرم ہے لیکن اتنا نہیں جتنا کہ باہر کے ملکوں میں ہے۔ ہمارے ایک ٹیچر نے ہمیں ایک واقع سنایا۔ ان کا ایک دوست باہر کے کسی ملک میں گیا تھا اس کو جنگل میں گھومنے اور درختوں کیساتھ کھیلنے کا بہت شوق تھا وہ اپنے معمول کے مطابق جنگل میں گیا اور ایک چاقو سے درختوں کیساتھ کھیلنے لگا یعنی وہ چاہتا تھا کہ دور سے چاقو کو پھنکا جائے اور درخت کیساتھ لگ کر چپک جائے۔اس دوران اچانک سے دو پولیس کانسٹیبل وہاں پہنچے اور اس کو گرفتار کرنے لگے ۔اس نے پوچھا کہ میرا جرم کیا ہے آخر مجھے کس جرم میں گرفتار کیا جارہا ہے تب ایک کانسٹیبل نے کہا کہ جاندار کیساتھ ظلم اور ان کو تکلیف دینے کے جرم میں آپ کو گرفتار کیا جارہا ہے۔ پاکستانی مجرم نے کہا کہ میں نے تو ایسا کوئی کام نہیں کیا ہے۔ آپ کو ضرور کوئی غلط فہمی ہوئی ہو گی تو پولیس نے کہاکہ کیا آپ کو یہ درخت بے جان نظر آتے ہیں کیا یہ درخت ہوا ،پانی اور روشنی کی وجہ سے زندہ نہیں ہیں کیا یہ درخت بڑھتا نہیں ہے کیا اس کی نشو نما نہیں ہوتی؟؟؟۔ پھر پاکستانی نے اپنا جرم قبول کیا اور معافی مانگ کر شہر کے کچھ بڑے لوگوں کیساتھ تعلقات کا حوالہ دے کر جان چھڑا ئی ۔ایک درخت کیساتھ چاقو سے کھیلنے پر اتنی سختی اور سزا باہر کے ملکوں میں دی جاتی ہے ۔کاش ہمارے ملک میں بھی ایسا قانون ہوتا تو آج ہمارے ملک کے پہاڑننگے اور میدان و جنگل ویران نظر نہ آتے اور ہمارا ماحول صاف ستھرا نظر آتا اور زمینی کٹاؤ جیسے نقصانات سے ہم بچ جاتے۔

ہوا بھی اللہ تعالی کی عظیم نعمت ہے جس کو ہم نے خود آلودہ کیا ہوا ہے۔ دھواں دینے والی گاڑیوں،فیکٹریوں سے نکلنے والا دھواں اور جنریٹروں کا بے جا استعمال سے فضا آلودہ ہوجاتی ہے۔ ایک ہی گھر کے تین تین چار چار افراد اپنی الگ الگ گاڑیوں میں گھومتے ہیں جس کی وجہ سے نہ صرف فضا آلودہ ہوتی ہے بلکہ اس کی وجہ سے شور کی آلودگی بھی پیدا ہوتی ہے اور یہی نہیں ملک کی معیشت پر بھی کسی حد تک اثر پڑتا ہے۔ ماحول کو صاف ستھرا رکھنا صر ف چند ایک اداروں کی ذمہ داری نہیں ہے بلکہ ہم سب کی بھی ذمہ داری ہے کہ ہم اپنے ماحول کو صاف ستھرا رکھیں۔ گلگت جٹیال کے بس سٹیشن کی ایک دیوار پر یہ جملہ لکھا ہوا تھا۔’ کتے کے بچے یہاں پیشاپ مت کرو‘۔ اس کے باوجود بھی لوگ وہاں پر پیشاپ کرتے ہیں یہ سمجھ کے کہ یہاں گلگت میں آوراہ کتے زیادہ ہیں۔ اس لئے یہ ہدایت کتوں کے بچوں کیلئے ہو گی ہم تو انسان ہیں۔ ارے ہم اگر انسان ہیں تو پھر ایسی جگہوں میں گندگی کیوں پھیلاتے ہیں۔۔۔۔؟ گلگت بلتستان کی طرف آنے والے تمام سیاح اور دوسرے شہروں کے لوگ پہلا قدم بس سٹیشن پر رکھتے ہیں۔ان کو ہم یہ سبق دیتے ہیں کہ آتے وقت گندگی میں قدم رکھو اور جاتے وقت گندگی سے پاؤں اٹھاؤ۔صفائی نصف ایمان ہے۔ اس پر غور کریں اور براہ کرم کوڑا کرکٹ باہر سڑکوں میں پھینکنے کے بجائے کوڑا دان میں ڈالیں اور حکومت کو بھی چاہیے کہ وہ عوامی ٹوائیلٹس زیادہ سے زیادہ تعمیر کر ے۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button