کالمز

عقل اور نقل

Hidayat-Ullahنقل را چہ عقل کا محاورہ پڑھ کر ہمارے دل میں خیال آیا کہ یہ محاورہ کہیں غلط تو نہیں لکھا گیا ہے لوگوں کا کہنا یہی ہے کہ  نقل کے لئے عقل کی ضرورت ہوتی ہےپر محاورے کے مطابق تو نقل کے لئے کوئی عقل وکل کی ضرورت ہی نہیں۔ کچھ کا کہنا یہ بھی ہے کہ نقل کے لئے عقل کی نہیں بلکہ فون کی ضرورت ہے۔۔کافی غور و خوص کے بعد یہ بات سمجھ آئی کہ نقل کے بارے جو بھی بات ان تینوں صورتوں میں کہی گئی ہے۔ہر زمانےکے لئے صادق نظر آتی ہیں۔آپ بھی اگر عقل سے کام لیتے ہوئے سوچ کی نقل کرینگے تو آپ پر بھی آشکارا ہوگا کہ عقل بڑی کہ یا بھینس۔۔کیا یہ بات عقل میں آئی نہیں شائد میں نے عقل آرائی والی بات کہہ دی ہے اس لئے  عقل پتھر پڑ گئی ہے۔چلو جی آسان الفاظ میں لکھ دیتے ہیں کہ ہماری عقل اتنی موٹی ہوگئی ہے کہ  ہر وقت بس عقل کے گھوڑے ہی دوڑاتے رہتے ہیں ورنہ عقلمندی تو یہی ہے کہ ہر چیز سے ایسے روٹھے رہو جیسے جانتے نہیں پہچانتے نہیں۔لیکن ایسا بھی ہمارے لئے ممکن نہیں پھر لوگ یہی کہئنگے کہ اس کی تو عقل گھاس چرنی گئی ہے۔ کہنے والےتوبہت کچھ کہتے ہیں لیکن مجال ہے کہ کسی کے کان میں جوں بھی رینگے۔۔اب تو عقل اور نقل کے الفاظ کسی کے لئے بھی اجنبی نہیں رہے ہیں۔کیا بچے کیا والدین اور کیا اساتذہ سب کی زبان پر عقل سے زیادہ نقل کا ورد سننے اور دیکھنے کو ملتا ہے۔خاص کر امتحان کے دنوں میں تو عقل اور نقل دونوں اپنے عروج پہ ہوتے ہیں۔ان دنوں کو اگر ہم عقل اور نقل کی بہار کہیں تو مناسب  ہوگا۔ وہ اس لئے کہ ان دنوں میں چاہئے طالب علم ہوں یا والدین یا اساتذہ اپنی عقل سے نقل کے ایسے ایسے طریقے ایجاد کرتے ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔۔ عقل اور نقل کے بارے اور بھی بہت سارے محاورے ہیں پر عقلمند کے لئےایک اشارہ کافی ہے پر اکتفا کرتے ہوئے  آگے کی طرف عقل دوڑاتے ہوئے  اپنی عقلمندی کو بھی جانچنے  کو دل کرتا ہے کہ  ہم عقل بھی رکھتے ہیں یا کہ صرف اپنے آپ کو عقلمند کہلانا ہی  پسند کرتے ہیں ۔جونہی  یہ سوچ ہمارے ذہن میں ابھری تو ہماری عقل جواب دے گئی اور ایک دم کہیں سے نقل کا خیال  کود کر ذہن میں چھا گیا۔ اور ہم سے ہمکلام ہوا ۔

نقل میا ں بولے ۔۔بھائی محاورہ غلط نہیں لکھا گیا ہے یہ نقل را چہ عقل ہی ہے۔اپنے آپ کو اتنا بڑا عقلمند نہ سمجھنا۔ہم نے جب دھیرے سے کہا کہ نقل میاں تمہیں پانے کے لئے تو عقل کی ضرورت۔۔۔۔ میری بات مکمل ہی نہیں ہوئی تھی کہ نقل  میاں  بولے تمھاری فارسی کمزور ہے  بہتر کرو تو ٹھیک ہے۔ میں نے کہا نقل میاں فارسی سے  مجھے ایک شعر یاد آیا سنا دوں۔۔ وہ بولے ارشاد میں نے اسے فارسی کا شعر سنا دیا۔

علم تا از عشق برخوردار نیست
جز تماشہ خانہء افکار نیست

نقل میاں بولے شعر تو آپ نے صحیح پڑھا پر مطلب بھی سمجھ گئے ہو یا کہ بس رٹے سے یاد کیا ہے۔۔میں نے جواب دیا نقل میاں سمجھ اور سمجھانے کا اب زمانہ کہاں  اب تو سکولوں میں طوطے پالے جاتے ہیں۔جن کو چوری کھانے کی فکر ہے اور چوری کھلانے والے  یہ نہیں دیکھتے کہ چوری کیسی ہے ۔۔نقل میاں بولے ارے بابا یہ تو اپنے اقبال کا شعرہے یہ وہ اقبال تھے جو اپنے نوجوانوںوں کو شاہین کہتے تھے یہ شعر تو انہوں نے ان شاہینوں کے لئے کہا تھا جو ستا روں پہ کمند ڈالتے تھے پر آج زمانہ بدل گیا ہے۔۔اور آج کل کے شاہین عقل سے پھل کھانے والے اور فیض اٹھانے والے علم کی تلاش میں  نہیں بلکہ  اس علم کے لئے سر گرداں رہتے ہیں  جو صرف  افکار کے تماشہ خانہ کے سوا کچھ نہیں ۔۔۔ نقل میاں نے باتوں باتوں میں اقبال کے شعر کی تشریح فرمائی تو میں نے اپنے گریباں میں جھانکا تو دل سے آوازآئی۔  ٹھیک ہی تو کہہ رہا ہے نقل میاں۔ اب تو ہمارے دلوں کی تختی پر  نقل کرنے کی بات نقش  ہوگئی ہے۔ کیا کریں  اساتذہ نے اس کے سوا  دوسرا حرف یاد ہی نہیں کرایا ہے ۔۔ نقل میاں بولے ہمیشہ نقل  کے گھوڑے ہی دوڑاتے رہوگے یا کبھی عقل کے ناخن بھی لوگے۔۔میں نے عرض کیا نقل میاں یہ عقل کے ناخن بھی ہوتے ہیں کیا۔اور یہ کہاں سے ملتے ہیں۔۔نقل میاں بولے ارے بابا لگتا ایسا ہے کہ عقل تجھے چھو کر بھی نہیں گزری ہے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ سارا زور عقل دوڑانے پر صرف کروگے یا  کبھی نقل اتارنے کی بھی کوشش کروگے۔ جو دور جدید کاا سب سے بڑا فن اور کامیابی کی ضمانت سمجھا جاتا ہے۔ میں نے پوچھا نقل تو کی جاتی ہے یہ اتارنا کیا ہوتا ہے۔۔۔وہ بولے او عقل کے اندھے  نقل تو نقل ہے  چاہئے اس کو اتارو یا کرو بلکہ اب تو نقل اتاری اور کی نہیں جاتی بلکہ نقل ماری جاتی ہے۔ اور نقل مارنے  والے چٹخارے لے لے کر اپنے اپنے طریقہ وارادات کا یوں تذکرہ کرتے ہیں جیسے  کسی کو دورود شریف سنا رہے ہوں ۔۔نقل میاں کی یہ باتیں سنکر میں نے ان سے کہا کہ نقل میاں  آپ جو باتیں بتا رہےہیں وہ تو میری سمجھ سے بالا تر ہیں ۔ نقل میاں نے مجھے نصحیت فرمائی کہ  بابا ان باتوں کو سمجھنا ہے تو ذرا  امتحانی مراکز کی سیر کرو تو خود بخود تمھاری عقل ٹھکا نے آئیگی ۔۔۔نقل میاں تو یہ کہہ کر ذہن سے رفو چکر ہوگئے پر عقل نے کہا ذرا نقل میاں کی نصحیت پر عمل کرتے ہوئے  ان امتحانی مراکزکا معائنہ ضرور کرنا چاہئے اب جو میں نے ان امتحانی مراکز کو دیکھا تو  نقل میاں کی باتیں سو فیصد درست ثابت ہوئی اور بے اختیار میرے منہ سے اقبال کا یہ  شعر نکل پڑا

شکایت ہے مجھے یا رب! خداوندان مکتب سے
سبق شاہیں بچوں کو دے رہے ہیں خاکبازی کا

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button