گلگت بلتستان میں خدماتِ قرآن
قرآن کریم اللّہ تعالی کی آخری کتاب ہے۔ اللّہ تعالیٰ نے اس مقدس اور عظیم کتاب کو ایک مقدس اور عظیم فرشتے کے ذریعے ایک مقدس وعظیم شہر میں ایک مقدس اور عظیم نبی ﷺ کے سینہ انور پر اُتارا، اس کتاب مبارک کی عظمت کی گواہی ، تقدیس کی شھادت، اگر کوئی فلسفی ، اسکالر یا دانشور دے دیتا تو اس میں قیل و قال او ر تنقید کی گنجائش ہوتی مگر اس کے لاریب ہو نے کی گواہی خود کائنات کے رب نے دی ہے۔ اللّہ جل و علا نے قرآن کریم کے ابتداء ہی میں واضح طور پر ارشاد فرمایا کہ ’’ ذلک الکتاب لا ریب فیہ، ھدی للمتقین ‘‘ اس کتاب میں شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں۔ راہ بتلاتی ہے ڈرنے والوں کو ، اللّہ تعالی نے اس کتاب مقدس کی سچائی و صفائی پر مہر ثبت کرنے کے بعد اس کی حفاظت کی ذمہ داری کا انحصار بندوں پر نہیں چھوڑا ہے جیسا سابقہ کتب سماوی کی حفاظت کی ذمہ داری اسی امت پر چھوڑ دی تھی بلکہ رب العزت نے اس آخری کتاب کی حفاظت کی ذمہ داری اپنے ذمہ لے لی ۔ اللّہ تعالی نے شفاف اور واضح الفاظ میں اعلان فرمایا کہ ’’ انّا نحن نزلنا الذکر و انا لہ لحافظون ‘‘ ہم نے قرآن کو اتارا ہے اورہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں چنانچہ چودہ صدیاں گزرنے کے باوجود قرآن مجید حرکات و سکنات کی کسی ادنی سی ردو بدل اور تبدیلی کے بغیر اپنی اصلی حالت میں موجود ہے اور روزقیامت تک اسی طرح محفوظ رہیگا۔ قرآن کریم میں کجی ڈھونڈنے کی کوشش دور رسالت ؐ ہی سے ہوئی تھی جب مشرکین اور دوسرے کفارنے قرآن کریم کو پرانے لوگوں کے قصے، شاعرانہ کلام اور خود ساختہ کوشش قرار دیا تو اللّہ تعالی نے چیلنج کیا کہ تم میں بڑے بڑے فصیح و بلیغ شاعر موجود ہیں۔ تمہارے کام کے بڑے چرچے ہیں لہذا قرآن جیسی کوئی کتاب لا کر دکھاؤ ! اللّہ نے فرمایا کہ ’’ فاتوا بمثل ھذا لقرآن ‘‘ اور اللّہ تعالی نے اجازت دی کہ اس کی تخلیق میں اپنے تمام معبودوں سے بھی مدد لے سکتے ہو۔ جب وہ قرآن جیسی کتاب لانے سے قاصر رہے تو ان کو یہ چیلنج کیا گیا ’’فاتوا بعشر سور مثلہ ‘‘کی سورتوں کی طرح دس سورتیں لاکر دکھاو، پھریہ بھی نہ ہوسکا تو اللہ نے فرمایا’’ فاتوا بسورۃ مثلہ‘‘ قرآن کریم کی ایک سورت جیسی کوئی سورت لے کر آؤ۔ نبی کریم صلی اللّہ علیہ وسلم نے سورہ کوثر کو لکھوا کر خانہ کعبہ کے دیوار پر چسپاں کر کے اعلان کر دیا کہ سورۃ کو ثر جیسی سورت بھی لا کر دکھاؤ۔ مگر کہاں کلام اللّہ اور کہاں بندوں کی رسا ئی !ا سی طرح قرآن پاک میں کجی ، کمی اور اعوجاج کی کوششیں آج تک جاری ہیں مگر جس کتاب کی حفاظت کی ذمہ داری خود خدائے ذوالجلال نے لے لی ہو اس میں تحریف و تنقیص اور کمی و بیشی کی ناپاک کوشش وسعی کرکے کون کامیابی سے ہمکنار ہو سکتا ہے۔
آج کوئی بد بخت کا غذی اوراق میں صحت قرآن اور اپنی ناپاک خواہشات کی تکمیل کیلئے قرآن کی تفسیر و ترجمہ میں تحریف و تغیر کر کے اپنے مذموم مقاصد کا پرچار اور تکمیل کی کوشش تو ضرور کرتا ہے مگر کون بتائے! ایسے خبث باطن رکھنے والے افراد ، ادارے اور مغرب نواز شخصیات کو کہ اللّہ تعالیٰ اپنی کتاب کی حفاظت کس احسن انداز میں فرما رہے ہیں ، آج ہم اگر اعداد و شمار کرنے بیٹھ جائیں کہ پوری دنیا میں حفاظ قرآن اور مفسرین قرآن کی تعداد کیا ہو گی ؟ تو شاید صدیاں لگ جائیں۔ اگر ہم صرف اور صرف وفاق المدارس العربیہ پاکستان کا گذشتہ 40 سالہ ریکارڈ دیکھ لیں تو حفاّظ اور کتاب اللہ کے پڑھنے پڑھانے والو ں کی تعداد لاکھوں سے متجاوز نظر آئیگی۔ اس سے قطع نظر، آج ہم اکیسوی صدی کے ایک بے آئین علاقے کے سب سے پسماندہ علاقے گلگت بلتستان کا طائرانہ جائزہ لیتے ہیں جہاں کی معاشی و سیاسی اور عصری تعلیم کی زبوں حالی کا کف افسوس ملنے کے علاوہ کوئی اور مداوا نہیں مگر قرآن مجید کی خدمت گذشتہ ۴۰ سال سے جس وسیع پیمانے پر ہورہی ہے اس کا گمان کسی کے حاشیہ خیال میں بھی نہیں تھا۔
ضلع دیامر میں حفظ قرآن اور ترجمہ و تفسیر کا جو اہتمام سہولیات اور بنیادی ضروریات کی عدم موجودگی میں ہو رہا ہے آج کے عیش پرست اور سہولیات کے خوگر انسان کے بس کی بات نہیں۔قاری اشرف مدظلّہ نے 33 سال سے گوہر آباد میں بلامعاوضہ انجام دیا ہے۔100 حفّاظ سے زائد کی تعداد ایسی ہے کہ جس نے پورا قرآن قاری صاحب سے حفظ کیا ہے ۔یہ حفاّظ گلگت بلتستان او ر ملک کے دیگر شہروں میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔داریل و تانگیر اور تھک نیاٹ کے علماء کرام بھی قرآن کی بہترین خدمت کررہے ہیں ۔ حفظ و ناظرہ کے علاوہ تفسیر وترجمہ پڑھانے کاجو انتظام کیا ہے وہ قابل رشک بھی ہے اور قابل تقلید بھی۔
داریل میں گذشتہ ۳۰ سال سے کئی نامور علماء کرام تفسیری دورے کروارہے ہیں جن میں مولانا عبدالحلیم صاحب اور مولاناعبدالوکیل صاحب قابل ذکر ہیں اور استاد شیخ ،مولانا عبدالکریم، مولاناسید محمد، مولانامحمد طاہربھی قرآنی خدمت میں ہمہ تن مصروف ہے۔اس طرح پورے گلگت بلتستان میں سب سے زیادہ تفسیرِ قرآن کریم پڑھانے کا اہتمام تانگیر میں ہوتا ہے۔ کئی جیّد علماء کرام حلقہ ہائے درس پورا سال جاری رکھتے ہیں اور سالانہ تعطیلات میں مختلف مقامات میں تفسیری دورے کروائے جاتے ہیں۔ امیر المجاہدین ،استادالعلماء مولاناشہزادہ خان رحمہ اللہ نے(مصنف مواہب الرحمان فی القرآن و درالمعانی فی سبع المثانی ، ) مسلسل باون سال تانگیر اپنی مدرسے میں درس قرآن و دورہ تفسیرالقرآن کروایا۔مرحوم قرآن کی تفسیری حواشی بھی لکھ رہے تھے۔شاید مکمل کی ہو۔ مولانا متر جان مرحوم نے زندگی بھر درس قرآن دیا۔ مولاناعبداللہ،شیخ الادب مولانا بختیار،مولانا عبدالقادر، مولانا عبدالقیوم، مولانا غلام الدین شاہ، مولانا عبداللہ اور مولاناعبدالشکور صاحب دیامری(مصنف اصطلاحات القرآن) کے تفسیری دورے معروف ومشہور ہیں۔سینکڑوں طلبہ ان کے تفسیری دورں میں شرکت کرتے ہیں۔قاری حیدر صا حب بھی حفط قرآن کی تعلیم دے رہے ہیں۔مولاناعبدالوکیل تھک، مولاناعبدالوہاب تھور داس،مولانامطیع الرحمان نیاٹ اور چلاس شہر میں،مولانا امان اللہ ہوڈر چلاس،مولانا سیف الرحمان،مولانا صبور، مولانا میور،مولانا محیط اور شیخ الحدیث مولاناعبدالقدوس صاحب مدظلّہ وغیرہ قرآن کریم کے ترجمہ و تفاسیر میں بڑی تگ و دو کر رہے ہیں۔ موناعبدالقدوس کے درس قرآن میں تو بڑے بڑے جیّد علماء کرام بھی شامل ہونا سعادت سمجھتے ہیں۔ اور بھی کئی حفظ کے مکاتیب پورے انہماک سے خدمت قرآن میں مصروف ہیں۔ گونر فارم کا مدرسہ انوارالصحابہ بھی دینی اور سماجی خدمات میں کوشاں ہے۔ ضلع دیامر میں درجنوں دینی ادارے درس نظامی اور حفظ قرآن کی تعلیم دے رہے ہیں۔ جہاں طلبہ و طالبات قرآنی تعلیم حاصل کررہی ہیں۔
اگر آپ ضلع دیامر سے باہر نکل کر پورے گلگت بلتستان کا ایک طائرانہ جائزہ لیں تو آپ کو کئی معیاری دینی درسگاہیں نظر آئیں گی۔ جگلوٹ میں دیامرکے ایک عظیم سپوت مولانامعاذ صاحب نے شیخ الاسلام مفتی تقی عثمانی صاحب زیدہ مجدہ کی زیر سرپرستی ایک عظیم دارالعلوم ’’ دارالعلوم تعلیم القرآن ‘‘ کے نام سے قائم کرکے کے درس نظامی کی تعلیم شروع کیا ہے۔ ان کے ہاں سالانہ دورہ تفسیرالقرآن کا خوب اہتمام ہوتا ہے۔ دارلعلوم جگلوٹ اور ترتیل القرآن تو کئی سالوں سے بہتریں قرآنی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ مدرسہ عائشہ صدیقہ للبنات جگلوٹ میں مولانا سید محمد صاحب کی نگرانی میں درس نظامی کی مکمل تعلیم دی جاتی ہے۔ جہاں سے کئی عالمات و حافظات فاضل ہوئیں ہیں۔جامعہ نصرۃالاسلام ایک عظیم الشان اور نسبتاً قدیم اوراولین دینی ادارہ ہے جس کی بنیاد دارالعلوم دیوبند کے ایک نامور فاضل، شیخ العرب والعجم حضرت مدنیؒ کے تلمیذ رشید مولانا قاضی عبدالرّزاق ؒ نے رکھی ہے ۔یہاں ۳ دہائیوں سے دینی وقرآنی تعلیم دی جا رہی ہے۔ امیر اہلسنت والجماعت و خطیب جامع مسجد گلگت قاضی نثار احمد صاحب نے کئی سال دورہ تفسیر پڑھایا ۔ قاضی صاحب بتا رہے تھے کہ بہت سارے لوگوں نے استفادہ کیا،اور میں خود بھی عربی اور اردو کے تمام تفاسیر کا بالاستیعاب مطالعہ کرتاتاکہ بہتر ین طریقے سے درس کا اہتمام ہو سکے۔ جامعہ نصرۃ الاسلام میں جامعہ کے شیخ الحدیث مولانا خلیل الرحمان داریلی، مولانا بشیر اور مولانا عبدالستار کا بھی درس قرآن ہوتا ہے۔حفظ قرآن کی بہترین تعلیم دی جاتی ہے۔ کئی قاری ہمہ وقت مصروف رہتے ہیں۔نصرۃ الاسلام کی ذیلی شاخ ،جامعہ عائشہ صدیقہ لبنات الاسلام میں پانچ سو طالبات حفظ قرآن اور قرآنی علوم سے مستفید ہورہی ہیں۔مدرسہ ابوہریرہ مناور اور مدرسہ قاسم العلوم پڑی میں بھی حفظ قرآن کی تعلیم دی جاتی ہے۔کئی اور مدارس بھی ہیں جہاں قرآن پاک پڑھایا جاتا ہے۔جامعہ الطاف الرحمان کشروٹ میں بھی تعلیم القرآن کا خاص اہتمام کیا جاتا ہے۔بسین گلگت میں بھی حفظ قرآن کی کلاسیں ہیں۔
ضلع غذر کے کپیٹل ایریا کا ہگوچ میں دارالعلوم کراچی کے فاضل مفتی شیر زمان صاحب نے ایک عظیم الشان دارالعلوم قائم کیا ہے جس میں لڑکے اور لڑکیوں کو حفظ قرآن اور درس نظامی کا سلیبس بہت ہی معیاری انداز میں پڑھایا جاتا ہے۔مفتی صاحب اور ان کی ٹیم انہماکی سے علوم قرآن و حدیث کی ترویج و تنشیر میں مصروف ہے۔ مدرسہ حدیقۃ الاسلام چٹوڑ کھنڈ اور دارالعلوم یاسین و گوپس میں بھی تعلیم القرآن کا سلسلہ کئی سالوں سے جاری ہے۔ مرکز اہلسنت سٹلائیٹ ٹاون اسکردو کے علماء کرام بہترین حکمت عملی سے کئی مدارس، مکاتب اور مساجد کاانصرام سنبھالے ہوئے ہیں وہ قابل داد بھی ہے اور قابل فخر بھی۔بلتستان کے مولانا حق نواز صاحب،مولانا ابراہیم خلیل،مولاناعبد اللہ، مفتی شریف اللہ، مفتی سرور، مولانا، مولانا یاسین،مولانا رحمت اللہ، حبیب اللہ راشدی،عطاء اللہ راشدی اور معروف شاعر مولانا احسان اللہ محسن اور دیگر علماء کی مساعی جمیلہ قابل مبارک ہے ۔ ڈغونی کی مدرسہ سلطان المدارس، براہ کی جامعہ صدیقہ للبنین والبنات،دارالعلوم غواڑی اور المرکز الاسلامی اسکردو شہر وغیرہ کے اصحاب خدمتِ قرآن میں مصروف ہیں۔ان وحشت کدوں اور ظلمت کدوں میں حق کے دیے جلانا دل گردے کا کام ہے ۔ضلع استور میں بھی کئی قرآنی مکاتب ہیں۔ قاری عبدالحکیم استوری ،قاری گلزار ،مولانا اکرام الحق اور دارالعلوم استور نے علاقے میں قرآن کی بڑی خدمت کی ہے۔
جمیعت تعلیم القرآن ٹرسٹ کی خدمات بہت زیادہ ہیں اور ان کا دائرہ کار بہت وسیع ہے۔ ہر محلہ اور مسجدمیں ان کے مکاتیب ہوتے ہیں۔ بلاشبہ تعلیم القرآن ٹرسٹ کے زیر اہتمام ہزاروں حفاظ اور ہزاروں لوگوں نے ناظرہ قرآن پڑھا۔علماء و قراء اور قاریات و فاضلات کے لئے تعلیم القرآن ٹرسٹ والے سالانہ تجویدی کورس کا انعقاد کرتے ہیں جس میں سینکڑروں علماء وحفاظ تربیتِ قرآن پاتے ہیں۔تعلیم القرآن ٹرسٹ کے لیے مولانا نذیراللہ مرحوم سے لے کر موجودہ مولانا عبدالحلیم اور قاری فیض الحق اچھی کارکردگی سے خدمت قرآن انجام دے رہے ہیں۔گلگت بلتستان میں ا قرء روضتہ الاطفال کی سنگ بنیاد جید اکابر علماء نے رکھی ہے ۔اقراء کی بنیاد میں شیخ الاسلام یوسف لدھیانوی ؒ کے ساتھ قاضی نثاراحمد کا کردار کلیدی ہے۔ اقراء نے گلگت بلتستان میں پانچ ہزارحافظ قرآن پیدا کیے۔اقراء کا سلسلہ تعلیم القرآن روز بروز بڑھتا جارہا ہے۔ پورے گلگت بلتستان میں اقراء روضۃ الاطفال کی قرآنی کلاسیں ہیں جہاں ہزاروں طلبہ و طالبات حفظ قرآن سے مستفید ہورہی ہیں۔حفظ قرآن کے بہترین نتائج مل رہے ہیں۔اقراء دینی اسکولی خدمات اس کے علاوہ ہیں۔
یقین جانیں ! میں ان اکابر علماء کرام کی کوششوں کو دیکھتا تو دل خوشی کے بلیوں اچھلتا ہے اور مجھے گلگت بلتستان کا ایک شاندار اور روشن مستقبل نظر آتا ہے اور مجھے مغرب کی باد سموم سے متاثر تمام افراد، ادارے اور ان کے مکروہ عزائم تار عنکبوت دکھائی دیتے ہیں جو قرآن کی عظمت اور حقانیت کو مٹانے کے درپے ہوتے ہیں۔ میری ان تمام منتظمین مدارس واداروں اسے گزارش ہے کہ وہ اپنے پروگراموں کو منجمد نہ ہونے دیں بلکہ مزید ترقی کی راہیں ہموار کریں۔ اصحاب ثروت سے اپیل ہے کہ ان کے ممد و معاون رہے۔ وکلاء برادری سے درخواست ہے کہ ان کے قانونی حقوق کی جنگ لڑیں۔ صحافی برادری سے خواستگار ہوں کہ ان کی خدمات کو اجاگر کر کے منظر عام پر لے آئیں۔ علماء کرام اور مدرسین عظام سے دستہ بستہ عرض ہے کہ خدمت قرآن اورخدمت دین مکمل خلوص سے کریں۔ یہ مختصر معلومات مکتبہ اہل سنت والجماعت کے حوالے سی تھی۔ گلگت بلتستان کے دوسرے مسالک کے علماء و مشائخ اپنی اپنی ترتیب سے خدمات انجام دے رہے ہیں۔ زندگی رہی تو ان کی تفصیلات سے بھی قارئین کو آگاہ کرونگا۔اللہ ہمارا حامی و ناصر ہو۔