کالمز

اُلو کون

Hidayat-Ullahنہ جانے آج مجھے چرند اور پرند  کیوں یاد یاد آرہے ہیں  خاص کر  ایسے جانور  جو شریف اور   سست تصور کئے جاتے ہیں ،اونٹ گدھا، اُلو طوطا، بھینس  ان جانوروں کے متعلق کہاوتیں اور ضرب المثال بھی بڑے   موجودہیں ۔ ایک محاورہ  ہے اونٹ رے اونٹ تیری کونسی کل سیدھی۔ یہ کہاوت کب کہی گئی اور کس نے کہی لیکن جس نے بھی کہی ہے کمال کی بات   کہی ہے   ہمارے  حکومتی انداز اور ٹھاٹ بھاٹ کو دیکھا جائےتو یہ کہاوت  سو فیصد درست اور حقیقت پر مبنی لگتی ہے  میرے خیال میں  حکومتی اہل کاروں کی عیاشیاں رشوت اور کرپشن  کا تفصیل سے  ذکر کرنے کے بجائےاس محاورے  میں موجود  اونٹ  کے لفظ کو ہٹا   کر حکومت  لکھ دیا جائے تو  اونٹ رے اونٹ والا محاورہ سب کی سمجھ میں  آئیگا ورنہ تو ہم جیسے  عقل کے کورے   اونٹ کو ہی بے ڈھنگا جانور سمجھتے  رہئنگے   ۔کہیں میں  بھینس کے آگےبین  تو نہیں بجا رہا  ہوں ۔بین  کے دُھن ایک ایسی دُھن  ہے  جس پہ ہر  سانپ   جھو م اٹھتا ہے   پر یہاں تو معمالہ ہی الٹا ہے  بھینس  سانپ تھوڑی ہے کہ جھوم اٹھے ۔ یہ بھینس کے آگے بین  بجانے کا قصہ اب پرانا ہوچکا ہے اب تو  جدید دور  ہے اس لئے  اس  محاورے کے بجائے     جس کی گورنری اس کی  بھینس ہونا چاہئے ۔آپ کے ذہن میں بات آئی ہوگی  کہ محاورہ تو جس کی لاٹھی اس کی بھینس ہے  یہ  جس کی گورنری  اس کی بھینس    کہاں سے  ٹپک پڑا    تو جناب  آپ کی خدمت  میں عرض ہے کہ یہ محاورہ  مجھے طوطے نے بتایا اور طوطا  ایک ایسا پرندہ ہے  جو رٹے کا ماہر ہے  اور جب  کسی چیز کو رٹ کرتا ہے تو  کبھی نہیں بھولتا اس پرندے کو میاں مٹھو بھی کہتے ہیں   اس کی بہت ساری قسموں میں سے   ایک قسم    طوطا چشم بھی ہے  جس کی ہمارے معاشرے میں کوئی کمی نہیں  اور جس معاشرے میں حکومتی اقدام سے نا اہل اور ناکارہ  لوگ  ایسے منصب پہ فائز ہوں  جہاں سے  وہ اپنے سے زیادہ اہل لوگوں پر  حکم چلائیں  تو   ایسے ہی محاورے    سامنے آتے رہئنگے ۔سب  کو ایک ہی فکر  کھائے جا رہی ہے کہ ان  کی  طوطی بولی جائے پر ہم طوطی   کے جو بول بولنا چاہتے ہیں  اس کی کی آواز   نقار خانے  تک  ہی  نہیں پہنچ پاتی۔ اب  اس محاورے کا مطلب پوری طرح آپ کی سمجھ میں آیا ہوگا اس پہ  مزید  وقت ضائع کئے بغیر گدھے  کی طرف مڑتے ہیں  گدھا بھی انتہائی شریف اور کار آمد جانور ہے ۔اس جانور کے متعلق بھی  بہت سارے محاورے  اکثر اوقات   مختلف موقعوں پر استعمال میں لائے جاتے ہیں۔ گدھے کا لفظ  ہمیشہ احمق کے معانی میں استعمال کیا جاتا ہے  اور  یہ ہر ملک میں پائے جاتے ہیں۔گدھے کا ذکر ہو اور گھوڑے کا نام نہ  آجائے یہ کیسے ممکن ہے  اور پھر انسان گدھا اور گھوڑا   ان کا تو چولی دامن کا ساتھ ہے۔تبھی  تو انسانوں کو  ممتاز کرنے کے لئے گدھا گھوڑا ایک بھاؤ     والا محاورہ استعمال میں لایا گیا ہے۔یہاں گدھا خراب چیز یا کام کا اور گھوڑا اچھی چیز یا کام کا استعارہ ہے اسی طرح ایک اور محاورہ    گدھا کیا جانے زعفران کی قدر  یعنی نا اہل آدمی کو اچھے کام کی قدر نہیں ہوتی اب ان دو محاوروں کا تجزیہ جدید تقاضوں  کے مطابق  کیا جائے تو  بات ہمارے پلے  خود بخود  آسکتی ہے  پہلے محاورے کو حکومت اور عوام ایک بھائو   اور دوسرے کو    ممبر  کیا جانے ووٹ کی قدر  پڑھا جائے تو  شائد بات کو صحیح طرح  سمجھنے میں آسانی رہے   ورنہ دوسروں کو احمق اور اپنے آپ کو  ہوشیار سمجھنے کی غلطی اور  زک اٹھاتے ہی رہئنگے  ۔اب تو آپ  ان محاوروں کا  مطلب اچھی طرح جان چکے ہونگے    گھوڑا ایک تیز جانور ہے کمال پھرتی  دکھانے میں  اس کا ثانی کوئی نہیں  اس طرح  حکومت  وقت بھی  پھرتی دکھانے کی ماہر ہے صرف  اخباری بیانوں کے چابک سےعوامی گدھوں کو  ہانکتی ہے  اور عوام   گدھوں کو گھوڑے  سمجھ کر   اپنے ووٹ کی قدر و منزلت   کھو دیتے  ہیں    اب ان دو صورتوں میں   گدھے والے محاورے عوام پر ہی  صادق آتے  ہیں  یہ میرا کہنا ہے وہ اس لئے کہ  عوام  جب بے حس  اور  اپنی ذمہ داری   سے  پہلو تہی کریں  اور  نہ گائے ہے اور نہ گائے کا بچہ کے محاورے پر عمل پیرا  نظر آجائیں   یعنی ہر قسم کی ذمہ داری سے اپنی جان چھڑانے والے کا کردار نبھائنگے  تو  ایسے میں انہیں اُلو کی یاد نہیں آئیگی  تو پھر کس کی یاد آ سکتی ہے جو آنکھیں بند کئے سوتا ہی رہتا ہے  شائد  الو کی کاہلی  اور  سونے کی  خاصیت  کی بنا پر ہی  عوام  الو کو بہت پسند کرتے ہیں اور ہر وقت الو ہی  کی باتیں کرتے ہیں اور ہر بات میں ایک دوسرے کو الو ہی کہتے ہیں  جسے آپ اور میں اپنی  روزمرہ  زندگی میں سنتے رہتے ہیں  جیسے   کیا الو بنتے ہو۔ تم تو الو کے الو رہوگے۔ کبھی کبھار حدوں سے   اتنے آگے جاتے ہیں کہ  ایک دوسرے کو اُلو کی دُم اور  الو کا   پٹھہ کہنے سے بھی نہیں چونکتے  اسی سے اندازہ کیا جانا چاہئے کہ ہمیں الو کتنا عزیز ہے۔اپنا الو سیدھا کرنے کی کوشش میں ہمیشہ الو ہی بنے رہتے ہیں  کیا اب بھی ہمیں  اپنے الو بننے سے انکار ہے

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button