چترال میں بلدیاتی انتخابات کی تیاریاں
تحریر :محکم الدین
صدر پریس کلب چترال
بلدیاتی انتخابات کے شیڈول کے اعلان کے ساتھ ہی سیا سی پارٹیوں کے اندر ہلچل مچ گئی ہے ۔روز روز نئی خبریں سننے کو مل رہی ہیں ۔ اور سیاسی جوڑتوڑ کا سلسلہ جاری ہے۔ موجودہ بلدیاتی الیکشن سابقہ انتخابات سے اس لئے منفرد ہے۔ کہ ایک طرف صوبائی حکومت کی طرف سے اسے بہت سے اختیارات دیے گئے ۔دوسری طرف اس مرتبہ چترال کی سیاسی پارٹیاں انفرادی حیثیت سے الیکشن لڑنے کی بجائے اتحاد پر اپنی توجہ زیادہ مرکوز کئے ہوئے ہیں ۔ یہ ایک طرف مقامی سطح پر سیاسی پارٹیوں کی بالیدگی اور بالغ نظری کی عکاسی کرتی ہے ۔ تو دوسری طرف یہ عوام کے اندر کسی بھی پارٹی کا اکثریتی ووٹ بینک نہ ہونے کو واضح کرتی ہے ۔ چترال میں اگرچہ کئی سیاسی پارٹیاں موجود ہیں ۔ تاہم اُن میں چند پارٹیاں ایسی ہیں ۔ جو ایک دوسرے کے مقابلے کی پارٹیاں قرار دی جا سکتی ہیں ۔ اُن میں پاکستان پیپلز پارٹی ، پاکستان تحریک انصاف ، جماعت اسلامی ،جمعیت العلماء اسلام اور آل پاکستان مسلم لیگ ( عرف عام میں شہزادہ پارٹی )شامل ہیں ۔ جبکہ دیگر پارٹیوں میں پاکستان مسلم لیگ ن اور اے این پی کا نام لیا جا سکتا ہے ۔ حالیہ بلدیاتی الیکشن میں اول الذکر پارٹیوں میں کوئی بھی اس پوزیشن میں نہیں ہے ۔ کہ وہ انفرادی حیثیت سے الیکشن لڑ کر ضلعی حکومت بنا سکے ۔ اس لئے اتحاد کا سہارا لینا اُن کی مجبوری بن گئی ہے ۔ تاکہ وہ اپنے اہداف حاصل کرنے کے قابل ہو سکیں ۔ اس سلسلے میں جماعت اسلامی نے انتہائی تیزی اور سبقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے چترال کی سطح پر جمعیت العلما ء اسلام سے اتحاد کرکے سابقہ ایم ایم اے بحال کردیا ہے ۔ اور ابتدائی طور پر اس اتحاد کے ذریعے اپنے آپ کو ایک بڑی سیاسی قوت کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی ہے ۔ بلا شبہ اس اتحاد کو امیر جماعت اسلامی چترال حاجی مغفرت شاہ کی سیاسی فعالیت قرار دی جا سکتی ہے۔ اور یہ بات حقیقت پر مبنی ہے ۔ کہ سابقہ ایم ایم اے کی حکومت کے دوران اُٹھنے والے اختلافات سے دونوں پارٹیوں کے درمیان جو بہت زیادہ دوریاں پیدا ہو گئی تھیں ۔ اُن کو اس طرح پلک جھپکتے میں حل کرکے اتحاد قائم کرنا غیر معمولی صلاحیتوں کی عکاسی کرتا ہے ۔ اس اتحاد کے پاس سیاسی داؤ پیچ کے علاوہ مسجدو منبرو مدرسہ بھی موجود ہیں ۔ جن کے ذریعے وہ ووٹروں کو اپنے حق میں استعمال کرنے کی کو شش کریں گے ۔ اُن کے پاس ایک کارڈ یہ بھی ہے ۔ کہ جماعت اسلامی موجودہ صوبائی حکومت میں مضبوط شراکت دار ہے ۔ سابقہ جنرل انتخابات میں جب ان پارٹیوں نے ایم ایم اے کے پلیٹ فارم سے الیکشن لڑا تھا ۔ تو چترال کی تاریخ میں اُس کے شاندار نتائج ایم ایم اے کو حاصل ہوئے تھے ۔ لیکن کیا اب کے اتحاد سے یہ دونوں پارٹیاں اپنے سابقہ شاندار نتائج کو دوہرانے کے قابل ہو سکتے ہیں ؟یہ یقیناًمشکل سوال ہے ۔ کیونکہ ا س اتحاد کی مد مقابل پارٹیاں بھی ہاتھ پر ہاتھ دھرے نہیں بیٹھے ہوئے ۔ وہ بھی دن رات ضلعی حکومت کی مسند پر نگاہ رکھے ہوئے ہیں ۔ اور اس حوالے سے اپنے اختلافات بھلا کر مذہبی جماعتوں کے مقابلے میں اتحاد قائم کرنے میں کسی حد تک کامیاب ہوئے ہیں ۔ جو کہ پاکستان پیپلز پارٹی، پاکستان تحریک انصاف اور آل پاکستان مسلم لیگ کے سہ فریقی اتحاد پر مشتمل ہے ۔اس اتحاد کا با قاعدہ اعلان 15اپریل کو کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے ۔اگر طلاعات کے مطابق طے شدہ غیر حتمی اتحاد کامیاب ہو جاتا ہے ۔ تو پھر دونوں اتحادوں کا ون ٹو ون مقابلہ ہو گا ۔ جس میں یقیناًدو فریقی اتحاد کو زیادہ محنت کرنی پڑے گی ۔ سہ فریقی اتحاد نے اطلاعات کے مطابق نشستیں تین حصوں میں تقسیم کر دیا ہے ۔ جس میں ہر ایک پارٹی کے حصے میں آٹھ نشستیں آئی ہیں ۔ حالیہ بلدیاتی الیکشن میں تمام پارٹیوں میں ایک بات مشترک ہے ۔ کہ دونوں طرف سے اتحاد کے باوجود تحصیل اور ضلع کونسل کے لئے موزون اور عوام کیلئے قابل قبول امیدواروں کی تلاش جاری ہے ۔ چترال میں بلدیاتی الیکشن اس لئے بھی باعث دلچسپی ہے کہ یہاں صوبائی سطح پر مختلف پارٹیوں کے قائم شدہ اتحاد کے بالکل مخالف اتحاد بن چکے ہیں ۔ صوبے میں اگر جے یوآئی ، پی پی پی اور اے این پی کے ساتھ اتحادی ہے ۔ تو چترال میں اس کا اتحاد جماعت اسلامی کے ساتھ ہے ۔ اسی طرح تحریک انصاف نے قائدین کی مزاج کے خلاف پیپلز پارٹی اور اے پی ایم ایل کے ساتھ اتحاد کر لیا ہے ۔ اب دیکھتے ہیں۔ مختلف پارٹیوں کے صوبائی اور مرکزی قیادت کی طرف سے ان اتحادوں پر رد عمل کیا ہو گا ۔ اس سلسلے میں شنید ہے ۔ کہ ملاکنڈ دویژ ن کی سطح پر ایک اجلاس تیمرگرہ میں ہونے والا ہے ۔ جس میں چترال میں انجام پانے والے اتحاد بھی زیر بحث آئیں گے ۔ اور این او سی کے بعد ہی پی پی پی اور جے یو آئی اپنے اپنے اتحاد پر کا ربند رہ سکیں گے ۔ چترال میں بلدیاتی انتخابات میں سابقہ کی نسبت زیادہ جو ش و خروش پیدا ہونے کے امکانات نظر آرہے ہیں ۔ ایک طرف موجودہ صوبائی حکومت کی طرف سے غیر معمولی اختیارات اور بجٹ فراہم کرنے کی پالیسی اور دوسری طرف سیاسی اتحاد کی وجہ سے سرگرمیوں میں بہت تیزی دیکھنے میں آرہی ہے ۔ مختلف افراد پارٹی بدل رہے ہیں ۔ اور ان کی صدائیں آئے روز پارٹی کے کارنر میٹنگز اور اجلاسوں سے آرہی ہیں ۔ دیکھنا یہ ہے کہ جوش و خروش سے انجام پانے والا موجودہ بلدیاتی نظام چترال کی ترقی اور مسائل کے حل میں کس حد تک مدد گار ثابت ہو گا ۔