پاک چائنا معاشی راہداری روٹ کو خفیہ رکھ کر شکوک و شبہات پیدا کیے جا رہے ہیں، پاکستان تحریک انصاف کے مرکزی رہنماؤں کی پریس کانفرنس
اسلام آباد22اپریل (پ ر) پاکستان تحریک انصاف نے چینی صدر کے حالیہ دورہ پاکستان کا خیر مقدم کرتے ہوئے خطے کے مستقبل کیلئے انتہائی اہمیت کا حامل قرار دیا۔ اس کے ساتھ پاک چائینہ اکنامک کوریڈور کے روڈ کو خفیہ رکھنے پر انتہائی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے تحریک انصاف کی قیادت نے چین کے اشتراک سے قائم ہونے والے منصوبوں میں شفافیت یقینی بنانے اور تمام صوبائی حکومتوں کو اعتماد میں لے کر اس کے ثمرات سے پوری قوم کو مستفید کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔مرکزی وائس چیئرمین اور قومی اسمبلی میں تحریک انصاف کے پارلیمانی رہنما شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ چین کے ساتھ طے پانے والے منصوبوں کی تفصیلات قوم اور ایوان کے سامنے رکھی جائیں۔
مرکزی دفتر میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ چینی صدر کے دورے کا کھلے دل سے خیر مقدم کیا۔ پارلیمانی رہنماؤں سے ملاقات کے دوران چیئرمین شامل ہوئے اورپارلیمان کے مشترکہ خطاب کے دوران بھی پوری پارلیمانی جماعت موجود تھی۔ تحریک انصاف چین کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کی نوعیت سے بخوبی آگاہ ہے۔ چینی صدر کا حالیہ دورہ اس لیے بھی انتہائی اہمیت کا حامل تھا کہ اس میں اقتصادی انفراسٹرکچر کے خدوخال پر بات ہوئی۔ چین دنیا کی دوسری بڑی اقتصادی قوت ہے، چین کے زرمبادلہ کے ذخائر اور دیگر صلاحیت سے پاکستان فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ اکنامک کوریڈور کا معاملہ بھی اس دورے کے دوران اٹھایا گیا اور یہ بات ذہن نشین کی جائے کہ اکنامک کوریڈور منصوبہ نیا نہیں بلکہ سابقہ ادوار میں بھی اس پر قابل ذکر کام ہوا۔ ان کا کہنا تھا کہ اکنامک کوریڈور منصوبہ خطے کی صورت حال پر انتہائی مثبت اثرات مرتب کریگا۔ ان کے مطابق چین نے اپنی دوستی کا حق ادا کر دیا تاہم حالیہ دورے میں چند اہم امور بھی سامنے آئے جن میں چینی ماہرین اور باشندوں کی سکیورٹی سرفہرست ہے۔
چین کے صدر کے دورے سے پاکستان کو ایک اہم موقع میسر آیا ہے جس سے فائدہ بھی اٹھایا جا سکتا ہے اور اسے ضائع بھی کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ چین نے اپنی تیاری مکمل کر رکھی ہے دیکھنا ہے پاکستان کی تیاری کتنی ہے۔ اپنی گفتگو کے دوران تحریک انصاف کے رہنمانے کہا کہ چینی صدر کے دورے کو جماعتی رنگ دینے کی کوشش کی گئی، ہونا یہ چاہیے کہ تمام جماعتوں اور صوبائی حکومتوں کو اعتماد میں لیا جائے، خیبرپختونخواہ کے وزیر اعلی کے موقف کو واضح کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پورے دورے کے دوران اور اس کے حوالے سے خیبر پختونخواہ کی صوبائی حکومت کو یکسر نظر انداز کیا گیا۔ اسی طرح بلوچستان اور سندھ کی حکومتوں کو بھی فراموش کیا گیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ حکومت کی جانب سے وزیراعظم کے عشائیے میں بھی محض چیئرمین تحریک انصاف ہی واحد سیاسی رہنما تھے جنہیں مدعو نہیں کیا گیا جبکہ چینی سفارتخانے نے انہیں دعوت دی۔ اسی طرح چینی صدر کے دورہ پاکستان میں تاخیر کو تحریک انصاف کے دھرنے سے منسلک کرنے کی حکومتی کوشش کو بھی انہوں نے انتہائی نامناسب قرار دیا۔ اپنی گفتگو کے دوران چین کے ساتھ کیے گئے معاہدوں کی شفافیت اور اخراجات کی تفصیلات سے آگاہی کا مطالبہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ منصوبوں میں شفافیت سے ان منصوبوں کے حقیقی ثمرات تک رسائی ممکن بنائی جا سکتی ہے۔ رکن قومی اسمبلی اسد عمر نے اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے استفسار کیا کہ ۔
۔کیا عوامی نمائندوں سے اس کی تفصیلات شئیر نہیں کی جانی چاہیے تھی ؟
کیا ایوان بالا میں اس پر تفصیلی بحث نہیں کی جانی چاہیے تھی۔؟
اسدعمر کے مطابق حکومت نے اپنے طرز عمل سے پارلیمانی جمہوریت کو شدید دھچکا پہنچایا ہے۔ اسد عمر نے بتایا کہ وفاقی وزیراحسن اقبال کی جانب سے وعدے کے باوجود پاک چائینہ اکنامک کوریڈور کی تفصیلات قوم کے سامنے رکھنے بالکل اجتناب کیا گیا۔ اپنی گفتگو کے دوران اسد عمر نے کہا کہ چین کے ساتھ طے کیے گئے معاہدوں میں ایک جماعت کے علاوہ صوبائیت کا رنگ بھی نمایاں ہے۔ انہوں نے استفسار کیا کہ ۔
پاک چائینہ اکنامک کوریڈور کا حقیقی روٹ کیا ہے۔
روٹ سے پنجاب اور دیگر صوبوں کوکتنا فائدہ ہو گا۔
ان معاہدوں کے نتیجے میں لگنے والے منصوبوں میں پنجاب میں لگنے والوں کا تناسب کیا ہے اور دیگر تین صوبے اس سے کیسے مستفید ہوں گے۔
چین کی جانب سے فراہم کی جانے والی رقوم/قرضوں کی نوعیت شرائط کیا ہیں۔
ان قرضوں کا بوجھ کون برداشت کرے گا اور معیشت پر ان کے کیا اثرات مرتب ہوں گے۔
کیا ان قرضوں سے عوام کی زندگیوں میں کچھ بہتری آئے گی ۔
پارلیمان میں ان تمام عوامل کو اٹھانے کا اعلان کرتے ہوئے تحریک انصاف کی قیادت نے حکومت سے وضاحت کی ۔ایک سوال کے جواب میں تحریک انصاف کے وائس چیئرمین نے پارلیمان میں تحریک انصاف کے اراکین کی موجودگی کے حوالے سے اسپیکر کی رولنگ اور اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلے کو اہم قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس حوالے سے پیش کی جانے والی تحریک کی کوئی اہمیت نہیں۔ ان کے مطابق متحدہ قومی موومنٹ نے یہ مسئلہ محض قومی اسمبلی میں ہی کیوں اٹھایا۔ انہوں نے کہا کہ متحدہ نے مشرف دور میں فوجی ڈکٹیٹر کا ساتھ دیا اور سترہویں ترمیم کا پورے زور و شور سے ساتھ دیا۔