میں جج نہیں۔۔مجھے لکھنے دیجئے
آپ میرے مخالف ہیں،آپ کا تعلق فلاں پارٹی سے ہے،آپ فلاں گروپ کے لیے کام کرتے ہیں،آپ نے اس کو میرے مدمقابل لا کھڑا کیا،آپ صحافی نہیں ہے،کسی خاص ایجنڈے کی تکمیل کے لیے کام کرتے ہے،آپ جان بوجھ کر میری کردار کشی کر رہے ہیں، آپ نے میرے پارٹی معاملات میں مداخلت کی،آپ کو میرے حلقے کی سیاست کا کیا پتا،میں آپ کے مالک سے بات کروں گا،آپ کو ٹھیک کر دوں گا وغیرہ وغیرہ۔
گلگت بلتستان کے کم وبیش تمام صحافی ان باتوں سے واقف ہونگے کیونکہ صحافی اگرکہیں غلطی سے بھی کسی کے خلاف کوئی خبر لکھ دیں تو پھر وہ اس کی نظرمیں غدار بھی بن جاتا ہے،بد ترین سیاسی مخالف بھی،کسی کا ایجنٹ بھی اور مخصوص سوچ رکھنے ولا بھی۔اس طرح کی ذہنیت کے حامل افراد سے میرا سوال ہے بلکہ یہ سوال ہر صحافی کا ہوسکتا ہے کہ آخراس معاشرے میں ایک صحافی کو جج کیوں سمجھا جاتا ہے۔
بد قسمتی سے ہمارے معاشرے کا یہ ایک المیہ رہا ہے کہ لوگ صحافت کی اصل روح کوسمجھنے سے قاصر ہیں۔انہیں صحافت کی تعریف ،اصولوں،قوائدوضوابط اور طورطریقوں کا علم ہے نہ صحافیوں کی قدرومنزلت کا۔ تب ہی تو یہ لوگ صحافیوں اور صحافت کے حوالے سے جو منہ میں آجائے کہہ ڈال دیتے ہیں جس سے صحافیوں کی صحت پر تو کوئی اثر نہیں پڑتا لیکن خود ان لوگوں کو نقصان ضرور ہوسکتا ہے۔
آج کی اس تحریر میں ہم اس موضوع پر تھوڑا خامہ فرسائی کرنے کی کوشش کریں گے کہ آخر صحافت ہے کیا چیز۔دراصل صحافت بھی دیگر پیشوں کی طرح ہی کا ایک پیشہ ہے جس کا مقصد عوام الناس کو تازہ ترین حالات وواقعات سے متعلق خبریں دینا ہے چاہے ۔صحافت ایک کھٹن کام ہے کیونکہ اس میں صحافی کو قلم کی حرمت کا بھر پور خیال رکھناضروری ہوتا ہے۔اس میں تھوڑی سی بے احتیاطی سے کام لینے سے ایک صحافی کی ساری زندگی کی محنت پرپانی پھیر سکتاہے۔اس لیے صحافی اپنا قلم بہت احتیاط اورسوچ بچارسے چلاتاہے ۔ایک صحافی کی سب سے اولین ذمہ داری سچ اور حق کو ذمہ داری کے ساتھ لوگوں تک پہنچانا ہوتا ہے کیونکہ لوگ صحافی کے لکھے ہوئے الفاظ پر یقین کر لیتے ہیں۔ پھر صحافی کے لکھے ہوئے الفاظ سے خود کو ہم آہنگ کرتے ہوئے مختلف ایشوز پر اپنی رائے بھی قائم کرتے ہیں۔لہٰذاایک اچھے صحافی کوہر وقت سچ کی کھوج اور تلاش رہتا ہے اور پھر وہ سچائی کو لوگوں تک پہنچانے میں ہر وقت اور ہر حالت میں مگن رہتا ہے۔مگر بد قسمتی سے ہمارے ہاں لوگ صحافت کے اصولوں سے نا واقف اور ایک صحافی کی ذمہ داریوں اور مجبوریوں کو سمجھنے سے بھی قاصر ہیں۔وہ اس حقیقت کو بھول جاتے ہے کہ صحافی کسی کا نہیں ہوتا،سچ کی تلاش اوراس کی پرچار صحافی کاکام ہوتاہے۔ایک پیشہ ور صحافی کسی کا دوست ،حمایتی ،ہمنوا یادشمن نہیں ہوتا وہ صرف اور صرف سچائی کا پرستار ہوتا ہے ۔لیکن اس تمام تر صورتحال سے لاعلمی کے سبب گلگت بلتستان کے لوگ اور خاص طور پر سیاستدان صحافیوں کو بھی سیاست کی نظر سے دیکھتے نظر آتے ہیں۔
گلگت بلتستان میں عام انتخابات کے قریب آتے ہی بعض لوگوں کومختلف صحافیوں کے کردار پر شک ہونے لگا ہے اور وہ اس شک کی بنیاد پر سیاسی محفلوں اور بازاروں میں صحافیوں پر کھل کر تنقید کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔اس کی اصل وجہ علاقے میں کمزور صحافتی معیار بھی ہے لیکن اس میں بھی قصور صحافیوں کا نہیں بلکہ معاشرے کے افراد ہی کا ہے۔ یہاں مختلف پریشر گروپس ہیں جو آزاد، غیر جانبدار اور تحقیقی صحافت میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔اس کے باؤجود مختلف اوقات میں ہماری کوشش یہ ہوتی ہے کہ سچ ہی کولوگوں کے سامنے لایا جائے۔ ہماری صحافت کا زیادہ تر انحصار مختلف لوگوں کی طرف سے جاری کردہ بیانات ، انٹرویوزیا واقعاتی خبروں پر ہوتا ہے۔ایسے میں وہ جو کہتے ہیں یا لکھ کر دیتے ہیں اسی کو ہی شائع کرنا پڑتا ہے ۔فرض کریں کہ ایک بندہ اپنا بیان جاری کرتا ہے تووہ کبھی اپنے آپ کو کمزور نہیں کہے گا،اگر ہم کسی امیدوار سے انتخابات میں اس کی پوزیشن کا پوچھ لیں تووہ ہمیشہ کامیابی کا دعویٰ کرے گا۔ہمارے پاس ان کی پوزیشن ماپنے کا کوئی پیمانہ نہیں اور نہ ہی کوئی فیصلہ سنانے کا ۔ہمیں تو غیر جانب دار انداز میں اس کے کہے ہوئے الفاظ کو اپنے اخبار میں شائع کروانا ہوتا ہے ۔یہ ہمارا فرض ہے کہ ہم ہر بندے کی آواز سنے اور اسے عوام تک پہنچانے کی کوشش کریں۔ہمارے لیے تمام امیدوار یکساں ہیں اور ہم سب کو پلیٹ فارم مہیا کررہے ہیں۔کیونکہ ہمارا ایجنڈا سچ لوگوں تک پہنچاناہے ،تو مجھے لکھنے دیجیے ،مجھے ہر رائے کو پیش کرنے دیجئے، مجھے ایک صحافی ہی بننے دیجئے اور خدا کے لیے مجھے جج نہ بنا دیجئے۔
(مضمون نگار قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی کے شعبہ میڈیا اینڈ کمیونیکیشن میں وزٹنگ لکچراراور گلگت بلتستان کے ابھرتے ہوئے صحافی ہیں)