کالمز

پاک چین اقتصادی راہداری اور گلگت بلتستان

پاکستان اور ہمسایہ ملک چین کے مابین پاک چین اقتصادی راہداری کے30منصبوں سمیت کم و بیش48ارب ڈالر کے51معاہدوں پر گزشتہ دنوں وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں دستخط ہوگئے ۔دونوں ممالک کے درمیان دیرینہ دوستی کی ایک نئی مثال قائم کرکے چینی صدرشی چن پنگ واپس چین جبکہ پاکستانی وزیراعظم میاں نواز شریف یہ خوشخبری لیکر سعودی عرب پہنچ گئے۔

انٹرنیٹ پر دستیاب دستاویزات کے مطابق دونوں ممالک کے مابین جن معاہدوں پر باضابطہ دستخط ہوئے اور جن پردستخط نہیں ہوئے ان میں بدقسمتی سے گلگت بلتستان کاکوئی ذکر ہے نہ ہی حکومت گلگت بلتستان کو کسی منصوبے پر دستخط کرنے کا اختیار دیا گیا ہے ۔ جبکہ اس کے مقابلے میں حکومت پنجاب،سندھ،بلوچستان اور خیبرپختونخواہ کو بعض منصوبوں میں باضابطہ شراکت دار بنا دیا گیا ہے۔ جس سے ایک بار پھر یہ بات عیاں ہوگئی کہ پاکستانی حکمرانوں کو گلگت بلتستان کی تعمیروترقی اور عوام کی خوشحالی سے کوئی غرض نہیں۔ 

Safdar Logoستم ظریفی کی انتہا یہ ہے کہ ایک طرف وفاقی حکمران گلگت بلتستان کے عوام کو بنیادی حقوق فراہم کرکے انہیں ملک کے دیگر صوبوں کے عوام کے برابر لانے کا ڈھنڈوراپیٹتے نظر آتے ہیں تو دوسری طرف عالمی نوعیت کے منصوبوں کے فوائدسے یہاں کے عوام کو جان بوجھ کر محروم رکھا جارہا۔حالانکہ پاکستان اورچین کے مابین جس قدر بے مثال دوستی آج قائم ہوئی ہے وہ صرف اور صرف گلگت بلتستان ہی کی وجہ سے ہوئی ہے جو خنجراب سے حویلیاں تک موجودہ شاہراہ ریشم کی شکل میں ہمارے سامنے زندہ مثال ہے۔

فرض کریں اگر1970کی دہائی میں اگر دونوں ممالک کے درمیان یہ سڑک تعمیر نہ کی جاتی تو کیا آج حکومت پاکستان کے لئے چین کے ساتھ اربوں ڈالر کے منصوبوں پر دستخط کرنا ممکن تھا؟اگر دونوں ممالک کے مابین یہ دوستی آج ہمالیہ کی بلندیوں کو چھورہی ہے تو اس کا صلہ گلگت بلتستان کے عوام کو ہی جاتا ہے کیونکہ انہوں نے پاکستان کے وسیع تر مفاد کی خاطر اپنا سینا چیر کر شاہراہ ریشم کی تعمیر کی اجازت دیدی تھی۔اس اہم قربانی کے ساتھ گلگت بلتستان کے عوام نے دونوں ممالک سے یہ توقعات بھی وابستہ رکھی تھیں کہ جنوبی ایشیاء کے دواہم ممالک کے مابین اس زمینی راستے کے بن جانے سے خطے سے پسماندگی کا خاتمہ ہوجائیگا جس کا براہ راست اثر عوام کی زندگیوں پر پڑے گا ۔مگر بدقسمتی سے عوام کا یہ خواب حقیقت سے شرمندہ تعبیر نہ ہوسکا۔

تاریخ گواہ ہے کہ ابتداء میں جب شاہراہ ریشم جسے شاہراہ قراقرم بھی کہا جاتا ہے ، جب تعمیر ہورہی تھی تو اس وقت پاکستانی حکمران اس شاہراہ کی ذد میں آنے والی زمینوں کے مالکان کو اونے پونے میں معاوضے ادا کرکے اپنا مقصد حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے تھے۔ بعد آزاں حکومت چین کے تعاون سے اسی شاہراہ کی کشادگی منصوبے میں بھی دھرتی کے باسیوں کے ساتھ یہی سلوک روا رکھا گیا۔پہلے ان سے کہا گیا کہ ہم آپ کی زمینوں کو چیر کراپنی تجارت کو فروغ دینے کے لئے سڑک بنارہے ہیں جس کے بدلے میں آپ کو معاوضہ ادا کیا جائیگا مگر جب شاہراہ کی تعمیر کا کام مکمل ہوا تو غریب متاثرین سے کسی نے بھی معاوضوں کی ادائیگی کا نہیں پوچھا۔جس کی وجہ سے آج کئی برس گزرجانے کے باوجود قربانی کا بکرہ بننے والے لوگ اپنی ملکیتی اراضیات کے معاوضوں کے حصول کے لئے انتظامیہ اور نیشنل ہائی وے اتھارٹی کے دفاتر کی خاک چھاننے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ جبکہ بے رحم حکمران ٹس سے مس نہیں ہوکر اسی شاہراہ کے بل بوتے پر چینی حکام کے ساتھ نت نئے منصوبوں پردستخط کرنے میں مصروف عمل ہیں۔

قانون وانصاف کا تقاضا تو یہ تھا کہ پہلے شاہراہ قراقرم توسیعی منصوبے کی زد میں آنے والی زمینوں کے مالکان کے معاوضے ادا کئے جاتے پھر اقتصادی راہدای جیسے منصوبوں کے اجراء کے حوالے سے گلگت بلتستان کے عوام کو اعتماد میں لیا جاتا لیکن وفاقی حکمرانوں نے ایسا کرنے کا گوارہ تک نہیں کیا۔اس کے برعکس وفاقی حکومت کی جانب سے اقتصادی راہداری کے منصوبوں میں گلگت بلتستان کی بجائے پنجاب کوزیادہ فائدہ دینے کو ترجیح دی گئی اور اس سلسلے میں دونوں ممالک کے درمیان ہونے والی نشستوں میں وزیراعلیٰ گلگت بلتستان کی جگہ خادم اعلیٰ پنجاب کوشامل بحث کیا گیا۔ حالانکہ معاہدوں کے تحت اقتصادی راہداری نے کاشغر سے سوست بارڈر کے راستے گلگت بلتستان کے حدود میں داخل ہوکر خیبر پختونخوا سے ہوتا ہوا گوادر میں جاکراختتام پذیر ہوناہے اور اس سلسلے میں پنجاب کی بجائے گلگت بلتستان اور بلوچستا ن حکومت کو اعتماد میں لینا ازحد ضروری تھا۔

منصوبے تحت خنجرب سے لیکر گوادر تک مختلف مقامات پر آٹھ اکنامک زونز بننے جارہے ہیں جن میں بھی ابھی تک گلگت بلتستان میں کوئی زون کے بنائے جانے کا کوئی زکر موجود نہیں ہے۔وفاقی حکمران اس اہم منصوبے کی کامیابی کی راہ میں حائل رکاوٹیں دور کرنے اور گلگت بلتستان کی متنازعہ حیثیت سے متعلق عالمی برادری کے تحفظات دور کرنے کی خاطر زبانی طور پر یہ بات ضرور کہہ دیتے ہیں کہ اقتصادی راہداری کے آٹھ اکنامک زونز میں سے ایک زون گلگت بلتستان میں بھی بنایا جارہا ہے۔مگر سوال یہ ہے کہ اگر واقعتاً آٹھ اکنامک زونز میں سے گلگت بلتستان میں بھی کوئی زون بن رہا ہے تو حکومت چین اور حکومت پاکستان کے مابین ہونے والے تحریری معاہدوں میں اس کا ذکر کیوں نہیں کیا گیا؟ 

یہ محض ایک ڈرامہ اور گلگت بلتستان کے عوام کو بے وقوف بنانے کے سوا کچھ نہیں۔اگر وفاقی حکمران گلگت بلتستان میں اکنامک زون بنانے میں مخلص ہوتے تو وزیراعظم نواز شریف اپنے دورہ گلگت کے موقع پرسابق حکومتوں کے کئے ہوئے اعلانات کو پھر سے دہرانے کی بجائے علاقے میں اکنامک زون بنانے کا بابانگ دحل اعلان کرلیتے۔شائد اس حوالے سے وفاقی حکمرانوں کی نیتوں میں فتور ہے تب ہی تو وزیراعظم بھی اپنی تقریر میں آلو،ٹماٹر اورخشک میوہ جات کے کاروبار کے فوائد اور لیپ ٹاپ اورکمپیوٹر میں فرق بیان کرکے عوام کو بے وقوف بناکررخصت ہوئے۔ورنہ ایک اچھی خاصی شرح خواندگی کے حامل خطے کے عوام کیا یہ بھی نہیں معلوم ہوسکتا ہے کہ لیپ ٹاپ اور کمپیوٹر میں کیا فرق ہوتاہے۔ 

اقتصادی راہداری منصوبوں سے گلگت بلتستان کو محروم رکھنے میں خطے کے صوبائی حکمران بھی وفاقی حکمرانوں کے ساتھ ساتھ برابر کے شریک ہیں کیونکہ یہ صوبائی حکومت کی اولین ذمہ داری بنتی تھی کہ وہ ایسے تمام منصوبے جن کا گلگت بلتستان سے براہ راست تعلق ہو،ان سے متعلق اپنے مطالبات اور تحفظات سے قبل از وقت وفاق کو اگاہ کریں مگر بدقسمتی سے انہوں نے ایسا نہیں کیا۔پھر جب سب کچھ ہاتھ سے نکل گیا تو آخر میں جاکرآسمان سرپر اٹھالیا کہ جی اقتصادی راہداری کے حوالے سے منعقدہ تقریب میں اسٹیج پر نہیں بٹھاکرگلگت بلتستان کے عوام کی توہین کی گئی۔ گلگت بلتستان کے نام نہاد نمائندوں کے اس معصومانہ مطالبے کو وفاق کے شاطر حکمرانوں نے یک دم خندہ پیشانی سے قبول کیا اور ہنزہ کے میر کو اٹھاکر اسٹیج پر بٹھا عوام پر باور کرایا کہ لوجی ہم نے آپ کا مطالبہ منظور کرلیا۔ کاش گلگت بلتستان کے ان ناعاقبت اندیش

نمائندوں کو یہ بات سمجھ میں آجاتی کہ انہی حکمرانوں کی وجہ سے تو ہم لوگ گزشتہ67سالوں سے اپنے آئینی حقوق اور شناخت سے محروم چلے آرہے ہیں۔جبکہ ملک میں ہر آنے والی حکومت جھوٹے دعوؤں کے ذریعے ہمیں ٹرخاتی چلی آرہی ہے کہ ہم گلگت بلتستان کو آئینی حقوق دلاکردم لیں گے۔گلگت بلتستان کے ان نام نہاد نمائندوں کو اس بات کی بھی سمجھ آنی چاہیے تھی کہ انہی وفاقی حکمرانوں نے چند سال قبل گلگت بلتستان کے حدود میں بننے والی ڈیم کا نام دیامر ڈیم سے تبدیل کرکے دیامر بھاشا ڈیم رکھ کرخطے کے عوام کے حقوق پر بدترین ڈاکہ ڈال دیا تو اب یہ لوگ کیونکرہمارے خیرخواہ بن سکتے ہیں۔ اس ڈیم کا نام محض اس لئے بدلا گیا تھا کہ ڈیم کی رائلٹی پوری کی پوری گلگت بلتستان کونہ مل جائے جو خطے کے عوام نے ایک مجبوری کے تحت قبول کیا ۔ اس کے علاوہ بہت سارے ایسے موقعوں پر وفاقی حکمرانوں نے گلگت بلتستان کا نام استعمال کرکے اپنے لئے فوائد حاصل کئے اور کررہے ہیں جن کے بارے میں ہمارے ان نام نہاد نمائندوں کو کوئی پتہ بھی نہیں چل سکتا۔ سوال یہ بھی ہے کہ جب شہید لالک جان(نشان حیدر)، معروف کوہ پیماہ اشرف امان ،نذیرصابر،حسن سدپارہ،ثمینہ بیگ،مرزہ علی کے علاوہ کے ٹو،نانگا پربت،دیوسائی،شندوراور دیگر اہم مقامات کا جب ذکر آتا ہے تو گلگت بلتستان پاکستان کا حصہ بن سکتا ہے تو اقتصادی راہداری میں شراکت داری کی بات آجاتی ہے خاموشی کیوں چھائی رہتی ہے۔

بس یہی ایک سوال ہے جس پر گلگت بلتستان کے ہرفرد کو غوروفکر کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ لوگ ہماری خاموشی اور شرافت سے فائدہ اٹھاکر کل کو بونجی ڈیم کے معاملے میں بھی ہمارے ساتھ دودوہاتھ نہ کرجائے۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button