کالمز

تالیاں مت بجاؤ 

hayatزندہ قومیں تالیاں بجایا نہیں کرتیں ۔ تاریخ کی کتابیں کھنگالو ۔ قصے کہانیاں پر کھو ۔ روایات پر غور کرو تو تمہیں کہیں تالیاں نظر نہیں آئیں گی۔ ’’شاباشی ‘‘ دل سے نکلا ہوا احساس ہوتا ہے ۔ احساس کے ہاتھ نہیں ہوتے ۔ نہ احساس آوازوں کا مختاج ہے ۔ میدان کا ر زار میں تلواریں ٹکراتی ہیں بزم کون ومکان میں زلزلہ آتا ہے ۔ یہ تالیوں کی آوازیں نہیں ہوتیں۔ عزم وہمت کے میدانوں میں کہیں تالیاں بجائی نہیں جاتیں ۔ رنگ وبوکی دنیا میں دیکھتے دیکھتے۔آنکھں خیرہ ہو جاتی ہیں دل مسوس ہوجاتے ہیں ہوش ٹھکانے نہیں رہتا تالیوں کا ہوش کہاں رہتا ہے ۔ کوئی اللہ کی نعمتوں اور رحمتوں کا احساس کر ے اس کے انعا م سے خوش ہو تو سجدے میں گرتا ہے تالیاں نہیں بجاتے ۔ فخر موجود ات ؐ کے لئے کسی نے تالی نہیں بجائی سکندرمقدونیہ سے اٹھا کسی نے تالی نہیں بجائی ۔ منگول مشرق بعید سے طوفان بن کے آئے کسی نے تالی نہیں بجائی ۔ حکیم اُمت کے کسی شر دل پذیر پر انسوو بہے تالی نہیں بجی ۔ قائد اعظم اغیار کے آگے چٹان بن کے کھڑے رہے اس وقت تالیوں کی ضرورت نہیں تھی ۔ وہاں خون کے قطروں اور عزم وہمت کے آنسووں کی ضرورت تھی۔ 1965 ؁ء میں قوم کے شیردل سپوت محاذوں پہ جان دے رہے تھے۔ پوری قوم سجدے میں گری ہوئی تھی ۔ سب نے انسو بہائے تالی نہیں بجائی ۔ تالیاں مت بجاؤ یہ چھوٹوں کا کام ہے ۔ اپنے لیڈروں کو تالیوں سے دھوکہ نہ دو ۔ وہ تالیاں سن کر دھوکہ اور خوش فہمی میں مبتلا ہو جائیں گے ۔ اگر آپ تالیاں بجانے میں سنجیدہ ہیں تو خدا خیر کرے تمہیں خوش فہمی ہے اور تالیاں سننے والوں کی سادگی ہے۔ تو پھر ہم سب کچی عقل گھر وند ے بنائے بچے ہیں ۔ قابل رحم ہیں ۔ تالیاں مت بجاؤ اپنے بڑوں، اپنے بزرگوں اور اپنے لیڈروں کو انڈر سٹیمیٹ نہ کر و ۔ کہنے والے سٹیچ پہ آکر کہتا ہے کہ سڑکیں ’’میں ‘‘ نے بنایا ۔ تم تالیاں بجاتے ہو۔ پیسہ قوم کا ہے ہنر مند، مزدور،انجینئر سب قوم کے ہیں ۔ تمہیں اختیار کا موقع ملا اختیار والا تالیاں سن کر خوش نہیں ہوتا ۔تالیاں مت بجاؤ تالیاں سن کر کرنے والا کہنے والا اور سننے والا سب دھوکہ کھاتے ہیں ۔ لوگ کھیل تماشیوں میں تالیاں بجا تے ہیں مگر کھیل میں کمال دیکھا نے والے کے پاس تالی سننے کی فرصت نہیں ہوتی ۔ ان ک مرضی اور منزل کھیل ہے۔ اس کی حوصلہ افزائی اپنی جگہ لیکن ہم تالیوں میں گم ہو جاتے ہیں ۔ تالیاں سن کر منزل بھول جاتے ہیں ۔ ہماری منزل تالیاں نہیں ۔ بیٹے کے اچھے کام پر باپ تالی نہ بجائے ۔ اس تالی نے ہمیں جوش اور ہوش دونوں سے خالی کر دیا ہے ۔ قوموں کی صفوں میں جگہ بنانے کے لئے خاموشی سے اپنے کام میں جُت جانا جا ہیے ۔ کام مقصد ہو کامیابی منزل ہو ۔ لوگوں نے ایسا ہی کیا ۔ زندہ قوموں میں تالیاں بجانے والے نہ ہونے کے برابر ہوتے ہیں سب تالیوں کے حقدار ہوتے ہیں ۔ ’’غیرت ‘‘ کی آواز کو ’’پکار‘‘اور تالیوں کی آواز کو ’’شور ‘‘ کہتے ہیں ۔ ہمیں ’’پکار ‘‘ ’’گونج‘‘’’دھائی ‘‘ اور فریاد کی نہیں ’’پکار ‘‘ کی ضرورت ہے۔ اب یہ قوم ’’پکار‘‘ کے قابل ہوگئی ہے ناقابل تسخیر ،ناقابل شکست اور چٹان ۔۔۔جسے دنیا میں مقام ہے آفرین کرو بے شک وہ دعا کے الفاظ ہیں ۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button