کالمز

پرچی اور ووٹ

تحریر: ہدایت اللہ اختر 

فضلو پچھلے سال کی ملاقات کے بعد غائب تھا میری مراد ہےکہ اس سے کافی عرصے سے ملاقات نہیں ہوئی تھی ہفتے میں ایک چکر لگا نے والا فضلو اتنے عرصے سے کہاں  رہا۔  ابھی یہی سوچ ہی رہا تھا کہ دروازے سے فضلو نمودار ہوا۔شائد اسی کو دل سے دل  کو راہ ہونا کہتے ہیں ادھر کسی کی یاد آئی ادھر وہ شخص حاضر ایسے موقعوں پر اکثر لوگ کہتے ہیں کہ کاش اسی وقت کوئی دلی مراد  جاگ جاتی  یہ تو قبولیت کا وقت تھا۔اب لوگوں کی دلی مرادیں کیا ہوتی ہیں اس سے ہر کوئی بخوبی واقف ہے۔واقف کیا ہیں بلکہ سب کو اپنی خواہشیں زبانی یاد ہیں ۔

فضلو جب بھی آتا ہے  کوئی نہ کوئی  موضوع ضرور چھیڑتا ہے  پچھلے سال  اس نے  مجھ سے ایک سوال کیا تھا کہ  ضمیر کیا ہوتا ہے اسی سوال جواب اور فضلو کی سادہ باتیں  مگر خلوص و محبت سے پُر  باضمیر  فضلو جس  کے پاس سے بے ضمیری چھو کر بھی نہیں گزری ہے   مجھے بھی بہت کچھ سیکھا جاتی ہے ۔اور اسی ضمیر کے حوالے سے ہی فضلو کی باتیں  آپ قارئین تک پہنچانے میں کامیاب ہوا تھا میرا مطلب ہے  ضمیرعنوان کے نام سے   کالم  لکھ کر۔۔۔

Hidayat-Ullahاب کے بار فضلو جب آیا تو اس کے چہرے میں پریشانی کے آثار نمایا ں تھے سلام دعا کے بعد حسب عادت  کرسی کے بجائے گھاس پہ ہی بیٹھنا پسند کیا  میرے استفسار پر کہ وہ اتنے عرصے کہا رہے  اس نے  اپنے دُکھڑے سنا نے شروع کر دئے اس کے دکھڑے  وہی ہیں  جو ہر متوسط اور  غریب  خاندانوں کے ہوتے ہیں۔۔بچوں کی تعلیم۔ علاج معالجہ، آمدنی  کا قلیل ہونا،  شادی بیاہ کے مسائل اور ان پر اٹھنے والے اخراجات۔اس کی باتوں سے اندازہ یہی ہو رہا تھا کہ   عصر حاضر میں   اس کے ہاتھ بڑے تنگ ہیں اور   وہ بیل کی طرح سارا سارا دن  اپنے کام میں ہی جُتا رہتا ہے لیکن پھر بھی اپنے مسائل پہ قابو نہیں پا رہا ہے۔ باتوں باتوں میں اس نے اپنا وہی انداز اپناتے ہوئے سوال داغ دیا صاف  وہ صاحب کو صاف بولتا ہے      یہ ووٹ  کیوں ہوتا ہے میں نے کہا ووٹ تو ووٹ ہوتا ہے۔  نئے(نہیں) صاف  ووٹ  کا فائدہ کیا ہے  میں نے کہا ارے بھائی ووٹ تو آپ کا ہے  اور  بڑا فائدے کا ہے ۔وہ مجھے سمجھا نے کی کوشش کر رہا تھا اور میں اس کو کریدنے کی۔  بات دراصل یہ تھی کہ وہ مجھ سے یہ پوچھنا چا ہ رہا تھا کہ   انتخابات کس لئے ہوتے ہیں اور  اس کا فائدہ عوام کو کیا ملتا ہے۔۔۔

اس نے بتایا کہ صاف  پہلے والے ووٹ میں   ہماری پرچی کا   کا کوئی فائدہ نہیں ہوا۔اب آپ کو پتہ لگ گیا ہوگا کہ ووٹ سے اس کا مطلب انتخابات   اور پرچی سے ووٹ ہے۔۔میں نے اس سے یہ نہیں پوچھا کہ آپ نے ووٹ کس کو دیا تھا۔۔اس نے خود ہی بتایا کہ  صاف  ممبر صاف نے  ہمیں بتایا تھا کہ وہ ہماری ضرورتوں  کا خیال رکھینگے ۔گائوں میں  واٹر ٹینکی، سڑک، زکواۃ اور بے نظیر کارڈ   کا بندوبست کرینگے  لیکن صاف  ووٹ کے بعد   وہ ممبر تو  ہمیں گھنٹوں گھنٹوں انتظار کرواتا رہا اور  جھوٹی امیدیں دلاتا رہا اور ہمارے مسائل جوں کے توں ہی رہے۔ کوئی کام حل  نہیں ہوا۔ صاف  امیروں   اور اثر رسوخ رکھنے  والوں کو ترجیح دی گئی ۔ اب میں اسے کیا کہتا کہ فضلو  اسی لئے تو علامہ اقبال  نے  بندوں    کو گننے کی بات کی تھی جس میں گن گن کر ہی  غریبوں سے ووٹ لے کر ان پہ وار کیا جاتا ہے  ۔ فضلو قریبی گائوں میں رہتا ہے جہاں میں اور آپ روز نہیں تو کبھی کبھار گرمیوں میں سیر کے لئے ضرور جاتے ہیں ۔۔میں نے گائوں کا نام حذف کر دیا ہے ۔کیونکہ یہ ایک گائوں کی کہانی نہیں ہے بلکہ پورے گلگت بلتستان میں یہی کچھ ہوتا ہے ۔۔

اس کی روداد میں جو سب سے دلچسپ بات تھی وہ فضلو اور  ممبر صاحب  کی ملاقات اور ان   کےدرمیان ہونے والی گفتگو ہے فضلو نے جو مجھے سنائی۔اس گفتگو سے شاید آپ بھی کچھ اخذ کر سکیں  سپرد قرطاس کرتا ہوں

فضلوایک دن  ممبرصاحب  کے پاس پہنچ جاتا ہے

 فضلوسلام صاف

ممبر : کون ہیں آپ؟

فضلو :  صاف میں فضل  گائوں سے آیا ہوں

ممبر :  اچھا اچھا  آپ سیلاب متاثرین میں سے  ہیں

فضلو:  نئے صاف  میں سیلاب متاثرین  میں سے  نہیں ہوں

ممبر : مجھے پتہ ہے  سیلاب کے خطرے سے لوگ  خوف زدہ ہیں

فضلو : لیکن صاف میرا مسئلہ مختلف ہے.

ممبر : اوہو  سیلاب  اور امداد  کے علاوہ اور کیا مسئلہ ہو سکتا ہے؟

 فضلو۔ :  صاف   ہمارے گائوں میں  سکول  کافی عرصے سے بند ہے اور ڈسپنسری میں دوائیاں بھی نہیں ہیں  سڑک نہ ہونے کے باعث  سب پریشان ہیں

ممبر : سیلاب  کی فکر کرنے کی ضرورت نہیں    کوئی خوف نہ کھائیں  ہم آئنی صوبے  بنانے ۔۔۔۔۔

فضلو :  صاف ہمارا مسلہ  صوبے سے نہیں کارگاہ روڈ   ڈسپنسری،  دوائیوں  اور سیلاب بند بنانے کے  نام پر  فنڈ ہڑپ   کرنے والوں  اور کام نہ ہونے   سے ہے

ممبر : لاحول ولا! توبہ کرو فوراً ٹھکیدار ہمارے بھائی ہیں   وہ ہمارے لوگ ہیں سارا مسئلہ چیف سکریٹری  کا ہے   بس کل ہی تیار ہوجانا  ہڑتال کرینگے

فضلو :  صاف ہڑتال سے تو  فائدہ  ان ہی لوگوں کو ہوگا  جو پہلے ہی  ہمارا خون چوس رہے ہیں

ممبر: آپ جیسے لو گوں  کی وجہ سے  آئنی صوبہ نہیں مل رہا ہے  ادھر ہمیں  آئنی صوبہ نہیں مل رہا ہےاور ایک آپ جیسے لوگ  سکول سڑک اور صحت کی بنیادی سہولتوں  کے پیچھے اور بند سکولوں کو دوبارہ کھلوانا چاہتے ہیں ؟

فضلو :  صاف میرے بچے اور گائوں کی پوری نسل ہماری طرح جاہل  رہ جائے گی.

ممبر : آپ فکر نہ کریں  جب  صوبہ بنے گا     تو سارے مسائل حل ہونگے اور  پھر ہر طرف سکول ہی سکول  اساتذہ ہی اساتزہ دوائیاں ہی دوائیاں  اور بھی بہت ساری چیزیں   بس جی صوبہ بننے کی دیر ہے  آئنی صوبہ

فضلو : صاف میرا گائوں اور میرے بچے

ممبر: ارے بھائی کیوں بور کرتے ہو  ابھی تو کوئی سیلاب نہیں آیا ہے نا    جب سیلاب آجائے ھئی   تب میرے پاس آنا

فضلو : (سر جھکا کر) جی صاف

یہ تھی فضلو اور ممبر صا حب کی باتیں جو ان کے درمیان ہوئی  اور میں نے فضلو کی زبانی سنی اور آپ تک پہنچانے  کا فریضہ ادا کیا ۔اب آپ ہی بتائیں کہ جس خطے کی اکثریتی آبادی بھوک و افلاس میں گھری ہوئی ہو  لوگ ووٹ اور انتخاب کی پہچان نہ رکھتے ہوں    تو کیا اس خطے میں  ووٹ کے صحیح  استعمال  ہو سکتا ہے۔۔اس کالم کا لکھنے کا مطلب یہ نہیں کہ  میں اس خطے کو اختیارات ملنے کی  مخالفت کر رہا ہوں  بلکہ یہ بتانا چاہ رہا ہوں کہ ایسے معاشرے میں جہاں غریب اور متوسط طبقہ  معاشی پریشانیوں کا شکار ہو اور تمام بنیادی سہولتوں سے محروم  اور دوسری طرف  جمہوریت اور اختیارات کے نام پر اپنی تجوریاں بھرنے کا سلسلہ جاری ہو تو     جیت کس کی ہو سکتی ہے۔۔پرچی کی ووٹ کی یا ووٹ لیکر تجوریاں اور جیب بھرنے والوں کی۔۔۔فیصلہ اب عوام کے ہاتھ میں ہے کہ وہ اپنی پرچی یا ووٹ کو ڈاکو اور لٹیروں کے حق میں استعمال کرتے ہیں یا ایماندار مخلص اور غریبوں اور خطے کے لئے درد دل رکھنے والوں کے لئے۔۔

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button