پروفیسرکمالؔ الہامی کی’’ الہامیاں‘‘
پروفیسر حشمت علی کمالؔ الہامی صاحب سے میرا تعلق صرف اتنا سا ہے کہ وہ میرے مستقل قاری ہیں اور کبھی کبھار میری کسی تحریر پر فون کرکے تبصرہ بھی فرمایا کرتے ہیں ۔ میں بھی اکثر فون پر خریت دریافت کرتا ہوں تاہم میں ان کے نام اور کام سے کافی پہلے سے واقف ہوں۔اور ہم دونوں محکمہ ایجوکیشن گلگت بلتستان کا حصہ ہیں۔وہ ڈگری کالج بلتستان میں اور میں ڈگری کالج گلگت میں تدریسی خدمات سے منسلک ہوں۔میری عمر سے زیادہ ان کا تجربہ ہے۔ ان کا کلام الہامی ہوتا ہے یعنی پروفیسر حشمت کمالؔ الہامی کا کلام۔پروفیسر کمالؔ الہامی کی خوبصورت و مزین کتاب’’ رباعیاتِ کمال ؔ الہامی‘‘ اور ہاتھ کالکھا ہوا مختصر اصلی مسودہ موصول ہوا ہے۔میں ان کی شاعری میں کھو گیا ہوں۔الہام اور تنقید پر مختصر بات کرتے ہوئے پروفیسر کمالؔ کے الہامی کلام پرطائرانہ نظر دوڑاؤنگا۔ اگرچہ یہ کام پختہ اہل قلم کا ہے۔
الہام کیا ہے؟ ۔ یہ سوال مجھے برسوں سے تنگ کررہا ہے۔کیا شاعروں کی اصطلاح میں ’’آمد‘‘ کا جو مفہوم مراد لیا جاتا ہے وہ الہام ہے؟ بہر صورت یہ طے یہ ہے کہ دین اسلام میں الہام کی حقیقت موجود ہے مگر وحی متلو اور غیر متلو دونوں سے بہت کم درجے کی۔جب بغیر کسی شعوری کوشش کے کسی کو غیب سے رہنمائی ملے تو اس کو کشف و الہام کہتے ہیں۔ کشف و الہام غیر نبی کو ہوتا ہے۔ میرا وجدان اور مطالعہ مجھے یہ سمجھا رہا ہے کہ الہام یا کشف، یہ ایک مذہبی واردات یا مذہبی تجربہ کی بنیاد پر حاصل ہونے والا علم ہے۔ مگر یہ وحی متلو اور غیر متلوکے علم کی طرح نہ ناقابل اعتما د علم ہے اور نہ ہی الہام اور کشف کی بنیاد پر حتمی اور قطعی فیصلے کیے جاسکتے ہیں۔اور نہ اجتہاد کی طرح الہام کے متعین قوانین و ضوابط ہوتے ہیں۔ الہام کے قابل غور اور قابل قبو ل ہونے کے لیے شرط اول یہ ہے کہ وہ وحی متلو اور غیر متلو یعنی قرآن و حدیث کے مطابق ہو۔واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔
الہام، کشف، وجدان، آمد وغیرہ کی اصطلاحات صوفیاء اور شعراء میں بہت ہی زیر بحث رہتی ہیں اور انہیں میں ہی ان کا غلغلہ رہتا ہے۔ جب کسی شاعر سے کلام سنانے کاکہو تو فورا کہہ دیتا ہے کہ ابھی آمد نہیں ہورہی ۔تاہم یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ نبی اور غیر نبی کے الہام میں ایک بنیادی فرق یہ پایا جاتا ہے کہ نبی پر جب بھی وحی و الہام ہوتا وہ سو فیصد درست ہوتا ہے۔ نبی کومعلوم ہوتا ہے کہ فلاں بات براہِ راست اللہ تعالی کی طرف سے یا فرشتے کی طرف سے اس تک منتقل کی جارہی ہے۔ جبکہ دیگر لوگوں کا معاملہ الگ ہے چاہیے کتنا بڑا صوفی ،ولی اور شاعر کیوں نہ ہو۔ ان کا احساس یا تو وجدانی نوعیت کا ہوتا ہے یا ایک خواب کی صورت میں بات دل و دماغ میں ڈال دی جاتی ہے۔تو ظاہر ہے کہ الہام محترم ضرور ہے لیکن اس میں یقین کا عنصر نہیں ہوتا اور نہ شرعی طور پر متعبر کہلایا جاسکتا ہے۔ اس کی زیادہ سے زیادہ حیثیت ایک ذاتی راہ نما ئی جیسے ہوگی۔
اساتذہ ادب سے سنا ہے کہ تنقید کا مطلب انفارمیشن میں اضافہ کرنا نہیں بلکہ علم میں اضافہ کرنا ہے۔علم اور معلومات میں کیا فرق ہے؟۔ اس بحث کو پھر کھبی ڈسکس کرتے ہیں۔ تاہم تنقید نقد سے ماخوذ ہے جو عربی زبان کا لفظ ہے۔تنقید کی اردو معنی کھرے اور کھوٹے کو پرکھنے کے ہیں۔اصطلاح ادب میں کسی نثرنگار یا شاعر کے ادبی فن پارے کے حُسن و قُبح کا احاطہ کرتے ہوئے اس کا مقام بیان کرنا ہوتا ہے۔اس فن پارے کی خوبیوں و خامیوں کو جانچتے ہوئے یہ بیان کرنا مقصود ہوتا ہے کہ صاحبِ فنِ پارے نے اپنے موضوع کے ساتھ کہاں تک انصاف کیا ہے۔یعنی قواعد و ضوابط کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے کسی فن پارے (تخلیق)پر بے لاگ تبصرہ و تجزیہ کا نام تنقید کہلاتاہے۔شاید تنقید میں نظیریات و اعتقادات پر بات کم کی جاتی ہے۔ اور نہ ہی غلط اور صحیح اور حق اور باطل کے فتویے صادر کیے جاتے ہیں۔اہل فرنگ تنقید کو Criticismکہتے ہیں۔اگر یہ تنقید کسی شاعر کی شاعری پر کی جائے تو یہ بتانا مقصود ہوتا ہے کہ شاعر شاعری کیوں کرتا ہے؟اس شاعری کو کیوں پڑھا جاتا ہے؟۔اور اس شاعری کی شعری حُسن و قبح پر بھی بات کی جاتی ہے۔قارئین ! خود اندازہ لگائے کہ تنقید والا مشکل کام میرے جیسے طالب علموں کے بس کی بات کہاں، اور وہ بھی اگر’’ کلام الہامی‘‘ ہو۔ لہذا بہتر یہی ہے کہ ’’الہامی کلام ‘‘کو پرکھنے اور جانچنے کا کام جید اہل علم اور مستند ادیب ہی کریں گے۔
تاہم اس لمبی چوڑی بحث کے بعد میں یہ عرض کرنے میں حق بجانب ہوں کہ پروفیسر حشمت کمالؔ کا کلام الہامی ہوتا ہے۔ ان کی رباعیات کا مطالعہ بتاتا ہے کہ غیرمعمولی کلام ہے۔ ظاہر ہے پھر ان کا کلام’’ الہامی‘‘ ہی ہوا۔ان کے کلام میںآمد اور وَجدکا پُرتو ہوتا ہے۔الہامی صاحب کا بعض الہامی کلام کو تو بہت ہی شہرت نصیب ہوئی ہے۔ ان کا یہ شعر تو معروف عام و خاص ہے۔
پہاڑی سلسلے چارو ں طرف اور بیچ میں ہم
مثالِ گوہرِ نایاب ہم پتھر میں رہتے ہیں
میں آج بھی اپنی اس رائے پر قائم ہوں جس کا کبھی اظہار کیا تھا کہ ’’مجھے یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ اٹھائیس ہزار مربع میل پر پھیلا پورا گلگت بلتستان ادبی و علمی حوالے سے مکمل بانجھ ہے۔اگر دو چار لوگ ادب بالخصوص خالص ادب لکھتے ہیں تو اس کا اطلاق پورے علاقے پر نہیں کیا جا سکتا ہے۔عربی اور انگریزی ادب تخلیق کرنے والے تو شاید دو چار بھی نہیں ، البتہ اردو ادب لکھنے والے چند احباب ہیں بھی تو ان کی پذیرائی نہیں۔ وجہ صاف ظاہر ہے کہ پورا معاشرہ بے ادب ہوچکا ہے۔‘‘ تو پروفیسرکمالؔ الہامی صاحب کا شمار بھی ان دو چار خالص ادب لکھنے والوں میں ہوتا ہے۔ان کی شاعری کا ایک عنصر مذہبی شاعری بھی ہے جو اپنی ہی مسلکی ترجمانی میں نمایاں نظرآتی ہے۔اس کا فائدہ بھی بہت ہوتا ہے تاہم نقصان یہ ہوتا ہے کہ ان کے چاہنے والوں کو ٹھیسیں پہنچتی ہیں۔قارئین کرام!اب کلامِ الہامی کے چند ادبی فن پارے اپ کے سامنے رکھتا ہوں۔ بالخصوص غیر مطبوع مسودہ سے چند غزلیہ اشعار جو مجھے بہت اچھے لگے ہیں۔
اپنی ایک غزل میں گلگت بلتستان کے تمام پہاڑوں کی نمائندگی کرتے ہوئے علاقے کی حفاظت کی بات کرتے ہیں۔
ہم کھڑے سَرحدِ ایماں پہ ہیں ’’کے ٹو‘‘ کی طرح
دستِ کفار سے سیاچن کو بچانے کے لیے
لپکے یخ بستہ ہوا، برف کا موسم آیا
نانگا پربت کے کھُلے سر کو چھپانے کے لیے
راکا پوشی کھڑا ہے برف کا سہرا باندھے
ریشمی راہ سے، محبوب کو لانے کے لیے
ایک غزل میں حیات انسانی کو انتہائی سلاست سے یوں بیان کرتے ہیں۔
دنیائے حادثات کا کیا اعتبار ہے
انسان کی حیات کا کیا اعتبار ہے
دریائے حادثات میں ڈوبے ہیں سارے لوگ
کشتی کی اب نجات کا کیا اعتبار ہے
ایک دوسری غزل میں ادب کے بارے میں کمالؔ ادب سے عرض کرتے ہیں۔
ہر بے ادب سے ربط ہمارا نہیں رہا
اہل ادب کے سامنے تُو سر جھکا لیا
آب جُو جاتا ہے ہر جانب اُچھلتا کودتا
پُرسکوں دریا کے پانی میں ہے گہرائی بہت
فکرِ شاعر رک نہیں سکتی، کہ ہے آب رواں
جمتی ہے ٹھہرے ہوئے پانی پہ تو کائی بہت
جاہلوں کے ہاتھ میں بکتا نہیں جس کا قلم
اُس میں ہوتا ہے کمالؔ ِ لطفِ گویائی بہت
جناب الہامی صاحب نے اپنی ایک نظم ’’ شہرنامہ‘‘ کے عنوان سے لکھی ہے۔ بہت ہی دلکش منظر کشی کی ہے۔ اس کے چند ایک اشعار آپ کے ذوقِ لطیف کے لیے پیش خدمت ہیں۔
’’شہرنامہ ‘‘کے ایک شعر میں محتسب کے احتساب کا بھانڈا یوں پھوڑتے ہیں۔
محتسب کیسے کرے گا مُجرموں کا احتساب
. اس کے اپنے جرم سے پردہ ہٹا ہے شہر میں
گلگت بلتستان کے ناساز گار حالات کی منظر کشی کرتے ہوئے’’شہرنامے‘‘ میں ارشاد کرتے ہیں۔کمالؔ الہامی کا ایک ایک بند پڑھتے جائیں اور اپنے شہر پرآشوب کا حقیقی تجزیے پر سر دُھنتے جائیں۔
دَفعتاً اک شور بے معنٰی اٹھا ہے شہر میں خوف و ہشت؛ وہم کا محشر بپا ہے شہر میں
کرچکا ہے کُوچ کب سے، الفتوں کا قافلہ نفرتوں کا روپ آکر بَسا ہے شہر میں
ڈس رہا ہے دوستوں کو چُن کو انجانے میں وہ اذژدھا اک خودفریبی کا پَلا ہے شہر میں
زلزلے میں گرگئے سارے مریدوں کے محل جھونپڑا مرشد کا، تنہا رہ گیا ہے شہر میں
گرچکا ہے قلعہ تنظم واَمن و اتحاد جس کا ملبہ ہر طرف بکھرا ہوا ہے شہر میں
جڑ گئے ہیں دنیوی رشتوں میں، سارے اہل دین دین کا مضبوط رشتہ تو کَٹا ہے شہر میں
قدر وقیمت علم و دانش کی، کہاں اس دور میں جَہل و ناسمجھی کا ہی رتبہ بڑا ہے شہر میں
قارئین کرام! آئیے اب کمالؔ الہامی صاحب کی رعبایات پر سرسری نظر ڈالتے ہیں۔الہامی صاحب کی شخصیت کی طرح ان کی کتاب بھی مزین و مرتب ہے۔ انتہائی خوبصورت ٹائٹل کے ساتھ اعلیٰ پیپر میں شائع ہونے والی اس کتاب میں رباعیات الہامی کا الہام ہوتا جارہا ہے۔ جہاں سے اٹھا کر پڑھو ، پڑھنے کو ہی دل چاہتا ہے۔ کتاب کے آغاز میں کئی نامور قلم کاروں نے توضیحی و توصیفی تقاریظ و تبصرے لکھے ہیں۔ کتاب میں کمالؔ الہامی صاحب نے عنوان باندھا ہے اور اسی عنوان پر رباعی کہا ہے۔ سچ یہ ہے کہ عنوان کا حق ادا کیا ہے۔اور ان عنوانات کو حروف تہجی کے طور پر مرتَب کیا ہے۔ ٹوٹل 534 رباعیات ہیں۔ہر ایک کا موضوع الگ ہے۔ ہر رباعی قطعے میں الگ لطف ہے۔ ا ن کے چند عنوانات اور ان کی رباعی شاعری سے آپ کو بھی محظوظ کرتے ہیں۔ اگرچہ کمالؔ الہامی کی شخصیت اور رباعیاتِ الہامی کی فنی و شاعری حیثیت، قلیل کے بجائے کثیر کے متقاضی ہیں مگر قلتِ وقت و صفحہ کی وجہ سے اختصار کرنے پر مجبور ہیں۔
عنوان باندھا ہے۔ ’’ اللہ جَمیل، ویحب الَجمال‘‘
ہر حُسن کا خالق، وہ خدا ، خود ہے حسِیں
جتنے بھی حَسیں ہیں، وہ خدا کے ہیں قَرِیں
محبوب ہیں اللہ کو، یہ حسن وجمال
دنیا بنی اَنگشتری، اور حُسن ، نگیں
ایک رباعی کا نام ہے ’’ یونیورسٹی‘‘۔ یونیورسٹی یعنی جامعہ پر کمال قطعہ ہے۔یہ لاز می نہیں کہ پاکستانی دینی و عصری جامعات کمالؔ صاحب کی بیان کردہ یونیورسٹی سے منطبق کھائیں۔یونیورسٹی ایک عالمی لفظ ہے۔
جاری ہے یہاں، چشمۂ تحقیقِ علوم
دیکھو تو! یہاں، اہل علم کا ہے ہجوم
یہ جامعہ ہے۔ اس کا ہر اک شعبہ ہے چرخ
اور جس میں چمکتے نظر آتے ہیں نجوم
کمالؔ الہامی صاحب کا ایک اور قطعہ جو ’’ حُسنِ محبوب ‘‘ پر عرض کیا ہے رقم کرتا ہوں۔لازمی نہیں کہ محبوب سے مراد وہی محبوب ہو جو نوجوان لڑکے لڑکیوں کا ہوتا ہے۔یا افسانوی اور الف لیلوی کہانیوں میں ہوتا ہے بلکہ یہ محبوب کوئی بوڑھا یا بوڑھی بھی ہوسکتی ہے۔اور پھرذُریت میں سب سے بڑھ کر محبوب تو محبوبِ خدا ہے۔خدا اور محبوبِ خدا دونوں کا حسن وجمال چارسو بکھرا ہوا ہے۔یہی کمالؔ بیان کرتے ہیں۔
اک جلوۂ تابندہ ہے، حسنِ محبوب
اک اُلفتِ پایندہ ہے ہے، حسنِ محبوب
عاشق کی نظر سے، یہ نہیں چھپ سکتا
ہر سمت، پراگندہ ہے۔ حُسنِ محبوب
قارئین ! تنگیِ داماں کی وجہ سے اختصار کرنے پر مجبور ہوں ورنہ بہت ساری رباعیات آپ کے گوش گزار کرتا۔پروفیسر کمالؔ الہامی صاحب کی شاعری میں حسن وجمال بھی ہے اور دنیا و آخرت کی درد بھی۔تہذیب و تمدن کی بیان بھی ہے اور جذبات و اعتقادات کا ذکر بھی۔ اتنے سارے عنوانات قائم کرکے زندگی کے ہر شعبے پر کمالؔ حکمت سے ارشادات کیے ہیں۔عربی، اردواور فارسی کے الفاظ کا استعمال برمحل ہے۔گرائمر کے رموزو اوقاف کی مدد سے قاری کو پڑھنے کے لیے سہولت پیدا کی گئی ہے۔جو لوگ بیت بازی کے شوقین ہوتے ہیں ان کے لیے بھی رباعیات الہامی میں بہت سارا سامان رکھا ہوا ہے۔کمالؔ صاحب کے ادب پارے(شاعری) فن پاروں کے اصول و ضوابط پر کتنے پورے اترتے ہیں اس کا فیصلہ کہنہ مشق شعراء ہی کریں گے۔ ہم نے تو ان کی شاعری سے مزے لیناتھا لے لیا۔ اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔
نوٹ: یہ مقالہ بلتستان کا معروف ادبی مجلہ’’ موج ادب‘‘ کے پروفیسر کمالؔ الہامی نمبر کے لیے خصوصی لکھا گیا ہے۔وہاں بھی دیگر اہل ادب کی تحاریر کے ساتھ شائع ہوگا۔8-5-2015