کالمز

گلگت بلتستان ، سیاسی تجزیہ

از : شریف ولی کھرمنگی
از : شریف ولی کھرمنگی

گلگت بلتستان میں آجکل انتخابات کاموسم ہے۔ قانون ساز کونسل، قانون ساز اسمبلی اور اب صوبائی اسمبلی کے ناموں سے موسوم ادارہ جس کیلئے علاقے کو ۲۴ بالواسطہ انتخابی حلقوں میں تقسیم کیا گیا ہے اسوقت وفاقی حکومتی پارٹی نون لیگ،سابق حکومتی پارٹی پی پی پی ، تحریک انصاف ، ایم ڈبلیو ایم سمیت کئی دیگر چھوٹی بڑی تنظیموں اور آزاد امیدواروں کی جانب سے عوامی رابطوں ، جلسے جلوسوں ، نعروں اور جوڑ توڑ نے عوام کو تقریبا تمام تر دیگر امور سے دور کیا ہوا ہے۔ آٹھ جون کو الیکشن کی تاریخ معین ہے اور اس سلسلے میں نون لیگ حکومتی مشینری کے تحت اعلانات بھی کر رہے ہیں تو وعدے وعید بھی، حالانکہ انہیں وفاق میں حکومت ملے دو سال ہوگئے تقریبا لیکن اب خوب ظاہر ہوتا ہے کہ سارے جذبے اور عوام سے محبتیں در اصل ووٹ لینے کیلئے ہی ہیں۔ دوسری طرف علاقے میں گزشتہ پانچ سال حکومت کرنیوالی جماعت پی پی پی ہے جنہیں کئی حلقوں میں اپنے ہی مراعات یافتہ وزرا و سکریٹریز کی جانب سے بے وفائی کا سامنا کرنا پڑا اور نتیجتا کئی حلقوں میں کوئی قابل ذکر امیدوار ہی نہیں مل سکا، جس میں سب سے دلچسپ سابق صدر سید جعفر شاہ کا الیکشن نہ لڑنے کا فیصلہ، بلتستان کے حلقوں سے وزیر رہنے والے وزیر حسن اور سکریٹری سید محمد علی شاہ کھرمنگ کی بیوفائی بھی قابل ذکر ہیں۔ اسی طرح حلقہ نمبر تین سے سابق وزیر قانون وزیر شکیل کے بعد پی پی اس حلقے سے بھی اہمیت کھوچکے ہیں۔نون لیگ کی جانب سے کھرمنگ شگر و دیگر اضلاع کے اعلانات پر بر وقت عملدرآمد کچھ حد تک فائدہ ضرور دے سکتا ہے لیکن اب دیر کر چکا ہے پی پی کی طرح اور عوام کا اب دوبارہ انکی طرف آنا اتنا آسان نہیں رہا۔پی پی اور نون لیگ کے لئے اصل مقابلہ اسوقت جن دو پارٹیوں سے ہے وہ تحریک انصاف اور ایم ڈبلیو ایم ہے جنہوں نے گزشتہ حکومت کو بھی بہت ٹف ٹائم دیا تھا اور اس حکومت کو بھی اصولی موقف میں اب تک کمزور ثابت کر چکے ہیں۔اور اگر ایم ڈبلیو ایم اور تحریک انصاف کی مشترکہ حکمت عملی اور سیٹ ایڈجسٹمنت ہو جائے تو اس صورت میں نون لیگ کیلئے مزید پریشانی کا سبب بن سکتا ہے اور پی پی کا تو اللہ ہی حافظ۔ بلتستان ڈویژن کے حلقہ نمبر پانچ میں کھرمنگ ضلع بنانے کے عوض اقبال حسن کو فائدہ ملنے کے امکانات موجود ہیں لیکن ڈاکٹر شجاعت اور امجد زیدی اگر ایک دوسرے کی سپورٹ کرے تو یہ بھی ناممکن ہوجائیگا۔ اسی طرح شگر ضلع بنوا کر راجہ اعظم خان کیلئے ہونیوالی فیور کو عمران ندیم کیساتھ ایم ڈبلیو ایم کی مشترکہ حکمت عملی سے روک سکتا ہے البتہ پی پی کیساتھ ایم ڈبلیو ایم کا اتحاد ناممکن نظر آرہا ہے۔ ایم ڈبلیو ایم کیلئے سکردو حلقہ نمبر دو سے کاچو امتیاز کی سیٹ تقریبا پکی لگ رہی ہے اور شفاف الیکشن کی صورت میں حلقہ نمبر تین میں بھی وزیر سلیم کیلئے اچھی چانسزنظر آرہی ہیں۔ لیکن حلقہ نمبر ایک میں ایم ڈبلیو ایم تحریک انصاف کے راجہ جلال کی حمایت کرکے اکبر تابان اور سید مہدی شاہ کی سیاست کو فل سٹاپ لگوا سکتا ہے۔ اسی طرح گنگچھے کے حلقوں میں آمنہ انصاری تحریک انصاف کیلئے اور حاجی اقبال دوسرے حلقے میں اب تک چھائے ہوئے ہیں، نون لیگی امیدواروں کیلئے بھی کچھ حد تک امکانات موجود ہیں بشرطیکہ حکومت ضلع کیلئے باقی علاقوں کیطرح بروقت کوئی بڑا اعلان کردے۔

کچھ احباب کہتے ہیں کہ گلگت بلتستان میں الیکشنز شخصیات کی ہوتی ہیں اور پارٹیز کا اثر زیادہ نہیں ہوتا، مجھے ان باتوں سے کچھ حد تک اختلاف ہے۔ مثلا حلقہ نمبر ایک میں حاجی اکبر تابان نون لیگ اور اسکے عہدے کی وجہ سے ہی کچھ حد تک مقبول ہیں، راجہ جلال کی اہمیت اسلئے زیادہ ہوگئی ہے کیونکہ وہ تحریک انصاف کا حصہ بن چکے ہیں وہ بھی مہدی شاہ صاحب کی پی پی سے نکل کر، اسی طرح حلقہ نمبر دو سے شیخ نثاراسلئے کسی کھاتے میں نہیں کیونکہ وہ پہلے پانچ سال پی پی کی حکومت میں کوئی کارکردگی نہیں دکھا سکے جبکہ کاچو امتیاز اسلئے مقبول ہیں کیونکہ وہ مجلس وحدت مسلمین کے ٹکٹ ہولڈر ہیں اور سید محمد علی شاہ اسی حلقے میں نون لیگ کا امیدوارہے۔حلقہ نمبر تین سے فدا ناشاد کی اپنی اہمیت سہی لیکن وزیر سلیم کی اہمیت ایم ڈبلیو ایم کی وجہ سے ہی ہے، اور شگر میں راجہ اعظم کو لوگ آزما چکے تھے مگر اب شگر ضلع بننے کی صورت میں انکا نون لیگ میں ہوناموثر ہوسکتا ہے۔ البتہ عمران ندیم کی اپنی شخصیت ٹھیک ہے لیکن پی پی کی ٹکٹ ان کیلئے خوش آئیند نہیں۔ حلقہ نمبر پانچ میں امجد زیدی کیلئے آزاد الیکشن لڑنے اور تحریک انصاف میں جانے میں زیادہ فرق نہیں تھا البتہ مجلس سے اتحاد کی صورت اسی طرح ممکن ہے جب وہ تحریک انصاف کے پلیٹ فارم سے ہو، اسطرح پارٹی کی اہمیت واضح ہے، اسی طرح اقبال حسن پہلے قاف لیگ میں سید محمد علی شاہ رضوی سے ہار چکے ہیں اب دونوں ایک ساتھ کھڑے ہیں نون لیگ میں۔روندو سے وزیر حسن کو نون لیگ سے ٹھکرانے اور پی پی میں واپس قبول نہ ہونے کی وجہ سے ایم ڈبلیو ایم کے راجہ ناصر علیخان کیلئے آسانی پیدا ہوگئی ہے البتہ اسلامی تحریک کے انڈر سکندر علی کافی حدتک علما کے سہارے لوگوں کو ساتھ ملانے میں کامیاب دکھائی دے رہے ہیں۔

ان تمام حقائق کے بعد سوچنے کی بات یہ ہے کہ علاقے کے حقوق اور انکا حصول کیسے ممکن ہے؟ پی پی نے پانچ سال حکومت کرنے کیلئے ایک پیکیج دیا اور اضلاع وغیرہ کا اعلان کیا جو کہ اب تک ممکن نہیں ہوسکا، نون لیگ نے بھی اعلانات کئے ممکن ہے انکو کچھ حد تک عملدرآمد کرنا ہی پڑے، لیکن کیا یہی ہمارے حقوق ہیں؟ یقیناًنہیں۔ بلکہ نون لیگ اور پی پی دونوں اپنے اعلان کردہ اعلانات پر سو فیصد بھی عملدرآمد کروائیں تو بھی ہم بنیادی شہری حقوق سے بہت دورر ہیں گے۔ گزشتہ حکومت میں رہنے والوں نے بھی بڑے وعدے وعید کئے تھے، بڑے بڑے دعووں کیساتھ الیکشن جیتے مگر اسی بے اختیار کونسل سے آگے نہیں بڑھ پائے۔ اس بار تحریک انصاف اور مجلس وحدت مسلمین بھی اسی منشور کو لیکر الیکشن لڑ رہے ہیں۔ اور جسطرح درج بالا سطور میں بلتستان ریجن میں انکی پوزیشنز کو واضح کیا ، انکے لیے بھی امتحان قریب ہے۔ ان سب میں مجلس وحدت مسلمین نے ایک آفر بڑی زبردست کی تھی کہ اگر نون لیگ گلگت بلتستان کو عبوری صوبہ کا درجہ دیکر وفاقی پارلیمان میں سیٹیں دے تو الیکشن میں انکے حق میں بیٹھ جائیں گے، لیکن نون لیگ فی الوقت پی پی کی ہی روش پر لگ رہا ہے ورنہ یہ کوئی اتنامشکل کام نہیں تھا۔ احباب کہتے ہیں کہ اس میں کشمیر کاز پرپاکستانی موقف کمزور پڑیگا، میرے خیال میں انڈیا نے ۶۸سالوں میں اس کاز پرآپکی نہیں مانی توکب تک اس بہانے گلگت بلتستان کے عوام کورگڑادیتا رہے گا؟انڈین کشمیر اور آزاد کشمیر میں جو سیٹ اپ دیئے ہوئے ہیں اسی طرح کا کوئی عبوری سیٹ اپ بھی دیکر علاقے کو کچھ حد تک چھے دہائیوں کی احساس کمتری سے نکال سکتا ہے لیکن اب تک کوئی اس ایشو پر مخلص نہیں دکھائی دے رہا۔ ایک گروہ قوم پرستوں کا تھا جو سٹیٹ سبجیکٹ رول ، الگ ریاست وغیرہ کے نعرے بہت لگاتے آرہے تھے،لیکن اس موجودہ غیر آئینی سیٹ کے اندر ہونیوالے الیکشن میں کوئی آزاد ، کوئی کسی وفاقی جماعت میں تو کوئی قوم پرست جماعت کی شناخت پر الیکشن میں کھڑے ہونا ہی انکی قوم پرستی کے نعروں اور بالاورستان وغیرہ کے آئین کی قلعی کھولنے کیلئے کافی لگ ہے۔ البتہ میری اپنی دانست میں عوامی اتحاد و اتفاق کیساتھ حقوق سے آگاہی اور اس کیلئے پختہ عزم رکھنے والے امیدواروں کا چناو ہی اکثیر کی حیثیت رکھ سکتا ہے۔اس لئے ابن الوقت چڑھتے سورج کے پجاریوں، اقربا پرور ، اور عوامی امنگوں کو ماضی میں روندکر مفاد پرستی کرنے والوں کو یکسر مسترد کرکے اور علاقہ ، مسلک، زبان ، رشتہ داری وغیرہ کے خول سے نکل کر مخلص، نڈر ، غیرت مند اور بے داغ ماضی رکھنے والے تعلیم یافتہ باشعور افراد کو ہی ووٹ دینا ہر ایک کو اپنے اوپر واجب قرار دینا ہی حقوق کے حصول کی طرف پہلا مثبت قدم ہوگا۔

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button