ہندوکش کے پہاڑی سلسلوں کے درمیان واقع سرسبز وشاداب خطہ چترال آبی اور معدنی وسائل سے مالامال ہونے کے علاوہ اپنے سینے میں دنیا کے قدیم تہذیبوں کوزندہ رکھاہوا ہی۔ اگرچہ اس خطے میں انسانی آبادی کی ابتداء سے متعلق کوئی حتمی تاریخی مواد موجود نہیں البتہ علاقے میں موجود آثارِ قدیمہ کے ذخائرکے مطالعے سے اس نتیجے پر پہنچا جاسکتا ہے کہ یہ خطہ قبل از مسیح سے آباد تھی ۔خطے میں بدھ مت ،ہندمت اور زرتشتی جیسے قدیم ترین تہذیبوں کے اثرات بھی موجود ہے جبکہ بہت سارے ایسے رسم ورواج بھی علاقے میں پوری آب وتاب سے موجود ہے جن کی تاریخ دورِ حاضر کے محقیقین کے مطابق تین ہزار برس سے بھی پرانی ہے ان میں قدیم فارسی تہوار نوروز علاقہ چترال اور گلگت بلتستان میں اب بھی جوش وخروش سے منایاجاتا ہے ۔اسکے علاوہ ضلع چترال اپنے یہاں موجود دنیا کی قدیم ترین اور منفرد کیلاش تہذیب کی وجہ سے دورِ حاضر میں دنیا کی توجہ اپنی جانب مبذول کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔ کیلاش تہذیب نہ صرف چترال کی پہچا ن ہے بلکہ دنیامیں اس تنوع اور رنگارنگی سے بھرپور اس تہذیب وثقافت کی وجہ سے پاکستان کونمایاں مقام حاصل ہیں۔
کیلاش تہذیب:
کیلاش دنیا کی قدیم ترین تہذیب ہے ،جوبیک وقت ایک مذہب بھی ہے ،ثقافت بھی جبکہ اس تہذیب کے حامل لوگوں کی زبان کو بھی کلاشہ کہاجاتاہے اس حوالے سے دیکھاجائے تو کیلاش دنیا کی قدیم ترین تہذیب کی صورت میں دورِ حاضر میں بھی چترال کے پرامن ماحول میں بھرپور انداز سے موجود ہے ۔کیلاش کے نسلی تعلق اور ان کی ابتداء سے متعلق کوئی حتمی رائے قائم کرنا ممکن نہیں البتہ دورِ حاضرمیں کیلاش تہذیب سے متعلق دونظریات بڑاہی مشہور ہے ایک تصور یہ ہے کہ ان کا تعلق قدیم آریا ء نسل سے ہیں جو کہ اب چترال کے تین دیہات بمبوریت ،بیریر اور رمبور میں صرف چار سے پانچ ہزار نفوس پر مشتمل آبادی تک محدود ہوکررہ گئی ہے ۔دوسرا لیکن زیادہ مقبول روایت یہ ہے کہ یہ یونانی النسل قوم ہے جب سکندر اعظم کی فوجین موجودہ افعانستان سے گرزرہی تھی تو اس لشکر کے بہت سارے ارکان اس خطے میں رہ گئے اور وہ یہاں آکر آبادہوگئے ایرانی سیاح محمود دانشور کیلاش تہذیب پر یوں رقمطراز ہے ’’یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ یہ رسم زرتشتیوں سے مستعار لی گئی ہوکافروں کی پچاس فیصدی رسمیں زرتشتیوں سے ملتی ہیں تاریخ بتاتی ہے کہ زرتشتی ایران سے نکل کر اپنے مذہب کو غیر ممالک میں پھیلاتے رہے ‘‘۔’’بعض مورخوں کا خیال ہے کہ کافروں کا تعلق قدیم یونانیوں سے ہے لیکن یہ صیحح ہے کہ ان کی بعض عادات قدیم یونانیوں سے ملتی جلتی ہیں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جب حملہ ہوا تو اسوقت چند اثرات باقی رہ گئے تھے ۔ورنہ یہ کافر دراصل قدیم آریہ لوگوں کے نسل سے ہیں ‘‘(کافرستان ،محمود دانشورصفحہ نمبر 12-92)، (اشپاتا،محمد عنایت اللہ،صفحہ 9)۔
&جبکہ تاریخِ چترال کے مصنف مرزہ محمد غفران لکھتے ہیں ’’ اس قوم کی اصلیت کا اس سے زیادہ کچھ معلوم نہیں کہ وہ باشگل کے اصل باشندے تھے دسویں صدی عیسوی کے دوران وہ اس ملک (چترال ) میں آئے اور یہیں کے ہوگئے ۔وہ خود یقین رکھتے ہیں کہ سیام سے آئے ہیں وہ یقین سے یہ بیان نہیں کرسکتے ہیں کہ سیام کہاں ہے بعض مورخین نے یہ بیان کیا ہے کہ سکندر اعظم یا دوسرے جرنیلوں کے سپاہ کے پسماندہ لوگوں کی اولاد ہیں جو باشگل (کنڑاور نورستان)کے وادیوں میں رہ گئے تھی۔مگر اس کا بھی کوئی مستند ثبوت نہیں ملتا‘‘۔(نئی تاریخ چترال از مرزہ محمد غفران صفحہ 3) ۔
کیا کیلاش یونانی نسل سے تعلق رکھتے ہیں ؟:
جدید محقیقین نے کیلاش زبان وادب ،ثقافت، رسم ورواج اور یونانی زبان وادب ،ثقافت اور رسوم ورواج میں موجود مماثلات پر تفصیل سے تحقیق کیا ہے وہ یہ رائے قائم کرتے ہیں کہ دراصل کیلاش یونانیوں کے نسل سے تعلق رکھتے ہیں ۔محمد عنایت اللہ کیلاش تہذیب وتمدن پر ریسرچ کرکی’ اشپاتا ‘نام سے ایک جامع کتاب لکھنے والا مقامی مصنف اور استاد ہی( اشپاتا دراصل کیلاش سلام ہے )۔اشپاتا کو اگر کیلاش تہذیب کا بائبل کہاجائے تو بے جانہ ہوگا اپنے کتاب میں فاضل مصنف کیلاش اور یونانیوں کے تعلق کوکچھ ان الفاظ میں بیان کیاہے ’’سکندراعظم کی اس دنیا سے انتقال کے بعد یونان کی عظیم ریاست قائم نہ رہ سکی اور کئی حصوں میں بٹ گئی ایک حصے کا سربراہ سکندری جرنیلelef Kosہوگیا کہاجاتاہے کہ اس کی حکومت شام،ترکی سے ہوکر ہندوکش تک پھیلی ہوئی تھی۔ کیلاش کی روایتی گانوں میں Salakshaاور قصے کہانیوں میں Kalasaجیسے نام ملتے ہیں ۔ کیلاش Kalasaکو اپنا جدِ امجد بتاتے ہیں ممکن ہے کہ Kalasaسکندر کے ساتھ آئی فوج کا کمانڈرہواہو۔یہ بھی ممکن ہے کہ کیلاش Kalasaکے زیر کمان فوجیوں کی اولاد سے ہوں ۔سکندر کے جانے کے بعد پسماندہ فوجی اپنے جرنیل کی یاد میں تقریب مناتے ہوں اور یہی Kalasa تغیر زمانہ کے ساتھ بدل کر Kalasaسے Kalashaاورalashaسے بھی بدل کرalashبن گیا ہو۔
کھو پسی کیلاش خواتین کی ایسی ٹوپی ہے جو غمی اورخوشی میں پہنی جاتی ہے اسی ٹوپی میں پیشانی کے عین اوپر کیلاش خواتین پرندے کا رنگدار پر لگادیتی ہے یہی روایت سکندر اعظم کے فوجیوں کی تھی وہ فوجی اپنی عظمت جتاتے ہوئے فوجی ٹوپی پر اسی قسم کے رنگدار پر لگایاکرتے تھی۔کیلاش لوگ نشیب کی بجائے ڈھلوانوں میں مکانات بنانے کو اپنی برتری خیال کرتے ہیں ۔یہی برتری کا احساس یونان کے شمالی علاقائی لوگوں کو بھی ہے وہاں پر بھی ابھری جگہوں پر مکانات بنانے کو اپنی برتری خیال کیاجاتاہے کیلاش بولی میں ادھر آئو کے لئے ’’الے لا‘‘ بولاجاتاہے جبکہ یونان میں یہی لفظ اسی معنی میں ’’ایلا‘‘بولاجاتاہے ۔
کیلاش کا ایک دیوتا’’ رامائین‘‘کہلاتاہے ادھر یونان میں اسی دیوتاکو ’’رامائین‘‘بولاجاتاہے ۔اسی رامائین سے جو عقائد یہاں پیوستہ ہیں وہی عقائد یونان میں بھی اسی دیوتا سے وابسطہ ہیں۔
کیلاش کی دوشق ،چااور دریژلک ناچ انہی ناموں کے ساتھ یونان کے شمالی سرحدات میں اب بھی موجود ہیں۔ناچ کے دوران کیلاش خواتین کے بازو ایک دوسرے کے کمر سے قصداََ یا سہواََ کھلنے کو بدشگونی خیال کیاجاتاہے انہی ناچوں کے دوران بازوکھلنے کے عمل کو یونان میں بھی بدشگونی سے تعبیر کیاجاتاہے ۔بارش سے تنگ آکر سیام جانے کی بات کا جہاں تک تعلق ہے وہ اصل میں سیام نہیں بلکہ شام ہے سکندر اعظم کے دور میں شام کا علاقہ ترقی یافتہ تجارتی مرکز تھا ۔ہوسکتاہے کہ سکندرسے بچھڑے فوجیوں کا تعلق شام سے رہاہواور یہی شام بدل کر سیام بن گیا ہو۔
کیلاش خواتین جو قمیص پہنتی ہیں یہی قمیص اسی گلوگاری کے ساتھ یونان کے شمالی علاقوں میں پہنی جاتی ہے کیلاش زبان میں اس قمیص کو ’سنگاچی ‘کہاجاتا ہے جبکہ یونان کی شمالی زبان میں اس کو Sagastiاور Sakasiکہاجاتاہے کیلاش کھوپھسی ٹوپی کو یونانی میں Kopusکہاجاتاہی۔
فلپ چونکہ سکندر اعظم کا باپ تھا وہ جب انتقال کر گیا تو اس کے باقیات کو ایک یادگاری صندوق میں بند کرکے رکھ دیاگیا سورج دیوتا،پھول اور ستارہ سکندر کے مذہبی علامات تھے اور یہ علامات اس یادگاری صندوق کے چاروں طرف بنائے گئے ہیں ۔ان علامات کا مفہوم برتری ، عروج ،بہادری او رخوش بختی لیاجاتاہے یہی علامات انہی تصورات کے ساتھ کیلاش مذہب میں صدیوں سے رائج ہیں۔ کیلاش گھروں کے دروازوں ،گھر کے اندرونی ستوتوں اور مذہبی گھرجستکھان کے دروازوں سمیت اندر کے ستونوں میں کندہ کرکے نمایاں دیکھائی دیتے ہیں۔ سکندر اعظم کی ٹوپی میں مینڈھے کی سینگ نمایاں ہے یہ تصور یونانی سکوں میں آج بھی موجود ہے ادھر کیلاش میں بھی یہ علامت مروج ہے ،ان کے گھروں کے دروازوں اور جستکھان کے اندردیواروں پر یہ تصویردیکھی جاسکتی ہی۔ کیلاش کا سلام اشپاتاہے یونانی زبان میں یہی سلامapathaسے اداہوتاہی‘‘ ۔اس قسم کے بے شمار دلائل سے محمد عنایت اللہ نے اپنی کتاب اشپاتا میں کیلاش کو یونانی تہذیب کے باقیات ظاہر کرنے کی کوشش کی ہے ۔
اس سے قطع نظر کہ کیلاش آرین ہے یا یونانی یاکسی اور نسل سے ان کا تعلق ہے یہ حقیقت ہے کہ زمانہ قدیم میں یہ قوم اسلام کی آمد سے قبل چترال پر حکومت کی تھی جسے مقامی روایات میں ’کیلاش دور‘ کہاجاتا ہے جبکہ دورِ حاضر کے بعض جدید محقیقین نے لداخ کے دوردراز پہاڑی سلسلوں میں ایک ایسی نسل دریافت کی ہے جس کے رہن سہن کے طریقے ،رسم ورواج اور ثقافت العرض زندگی کے بیشتر معمولات چترال کے کیلاش سے ملتے جلتے ہیں اسی لئے یہ رائے قائم کی جاتی ہے کہ شائد زمانہ قدیم میں چترال سے لیکر گلگت سکردواور لداخ تک کا علاقہ کیلاش تہذیب کے زیرِ سایہ رہاہواور جس کے باقیات اب بھی چترال کے وادی کیلاش اور سکردو سے ملحق لداخ میں اب بھی موجود ہے ۔ چترال کے بلندوبالاپہاڑیوں میں مقیم کیلاش اپنی منفرد ثقافت ،رنگارنگ تہذیبی اثرات ،موسیقی سے عشق اور رہن سہن کی وجہ سے دنیا بھر کے سیاحوں کی توجہ اپنی جانب مبذول کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں ۔’کیلاش گوم‘یعنی کافرستان کے تین دیہات میں رہنے والے کیلاش قبیلے کی کل آبادی تقریباََ تین سے پانچ ہزار کے قریب ہے جبکہ کلاشیہ زبان وثقافت معدومیت کے خطرے سے دوچار ہے ۔
چلم جشٹ:
وادی چترال اور گلگت بلتستان میں موسمِ بہار کی آمد مارچ کے مہینے سے شروع ہوتی ہے یہاں کی آبادی کا ایک حصہ 21مارچ کو جشن نوروز منا کر بہار کی آمد کا باقاعدہ استقبال کرتے ہیں۔ البتہ وادی کیلاش میں جشن بہار مئی کے پہلے یا دوسرے ہفتے میں منعقد ہوتی ہی، اس حوالے سے وادی میں تین دن تک رقص وموسیقی ،پینے پلانے اور لذیزکھانوں کا بندوبست کیا جاتاہے ۔محمد عنایت اللہ اپنی کتاب آشپاتا میں چلم جشٹ کی تہوار سے متعلق لکھتے ہیں ’’کیلاش کی تینوں وادیوں میں بسنے والے کیلاش اپنے سال کا آغاز چلم جشٹ تہوار سے کرتے ہیں۔ یہ ایک شکرانہ کا رسم ہی۔ عبادت بھی ہے اور رضائے الہٰی کا آسان اور ہنستا بستا حصول بھی ہے ۔ اس کا منانا اور اس میں بھر پور شرکت ہر چھوٹے بڑی،مرد وزن کیلاش کے لئے لازمی ہی۔ یہی وجہ ہے کہ کیلاش برادری خوب نکھر کر اورجذباتی لگائوکے ساتھ اس میں شرکت کرتی ہے ‘‘ ۔ ’’اس تہوار میں خوشی خوشی شرکت کے ساتھ صدقات کی بھرمار کرنا ایک فطری بات ہے چلم جشٹ تہوار کیلاش کے لئے روحانی تازگی کے ساتھ جسمانی مسرت کی نشونما کا آغاز ہے ‘‘۔(اشپاتاصفحہ56)۔’’سردیوں کا دورانیہ کیلاش قبیلے کے لئے سوہانِ روح سے کم نہیں، خداخدا کرکے سردیاں گزارتے ہی یہ قبیلہ بطورشکرانہ اللہ کے حضور ایک تہوار مناتی ہے جسے کیلاش زبان میں’چلم جشٹ‘ کہاجاتاہے سردیوں کے طویل آیام میں سارے لوگ گھروں کے اندر دب گئے تھی۔ آگ تاپ تاپ کر اور گھروں کے اندر گھسے گھسے بہت بوریت ہوگئی تھی ،باہر کی زندگی بڑی سخت تھی برف باری کا راج تھا۔ سکڑا بدن اکتاہٹ کا شکار تھا۔ ایسے کھٹن حالات میں موت کا پیغام کسی بھی وقت آسکتاتھا ۔ آفاتِ سماوی کا نزول ہوسکتاتھا، مگر اللہ نے ہر مصیبت سے بچا کر بہار سے دوچار کردیا ۔خشک مگر سرسبز وشاداب زمین پر چلنے پھرنے اور بھرپور زندگی گزارنے کا جب اللہ نے موقع دیا تو اسی خوشی میں خدا کوراضی نہ کرنا سراسر ناانصافی ہے ۔خوشی کے ان لمحات میں شکرانہ خداوندی کے لئے کیلاش قبیلہ سال کا پہلا تہوار چلم جشٹ مناتی ہے ‘‘۔(اشپاتاازمحمد عنایت اللہ صفحہ 16)۔
کیلاش سے متعلق بے بنیادمفروضات :
عمومی تاثر یہ ہے کہ کیلاش گوم یعنی کافرستان یا وادی کیلاش کے باسی کیلاش عقائدکے پیروکار وں کے ہاں مادر پیدر آزادی ہے ان کے یہاں کسی رشتے ناطے کا کوئی تصور سرے سے موجود نہیںہوتا۔’’میں ایک استاد کی حیثیت سے کیلاش کی پسماندہ وادی بیریر میں آگیا اب کیلاش سے باضابطہ اور باقاعدہ واسطہ پڑا یہاں پر آنے والے سیاحوں سے میل جول بڑھانا ایک فطری بات تھی۔ سیاحو ں کی زبانی کیلاش قبیلہ سے متعلق باتین سن کر تعجب ہوتارہا ۔ایک دن کا واقعہ ایسا ہوا کہ ہم اساتذہ بڑے راستے پر آرہے تھے کہ قریب ہی ایک گھاس پر کھڑی چند کیلاش لڑکیوں نے ہمیں پکارا جو ملکی سیاحوں کے گھیرے میں آچکی تھیں۔ہم وہاں پر گئے تو پتہ چلا کہ چند منچلے اوباش قسم کے ملکی سیاح کیلاش لڑکیوں کے ساتھ گلے میں ہاتھ ڈال کر فوٹوکھینچنے کی خواہش کررہے ہیں۔لڑکیاں خوفزدہ ہیں اور سیاح اصرارکررہے ہیں ہمارے ٹوکنے اور تفصیل سے سمجھانے پر بھی وہ مطمئن نہ ہوئے اور کیلاش سے متعلق اپنی پڑھائی اور سنی سنائی باتوں کا حوالہ دیتے رہے ۔بہرحال ہم نے ان کو قائل کیا اور وہ معذرت کے ساتھ چلتے بنے یہ اور ایسی کتنی باتین ہونگی جو یہاں آنے والوں نے اپنی دانست میں یاکسی بدطنیت کی باتوں میں آکر اپنے سیاحتی سفرناموں میں لکھ ڈالیں یا زبانی بتادیں جنکا سہارالیکر یہاں آنے والوں نے کیلاش کی سماجی زندگی کو بے حیائی کی کھلی منڈی میں دوٹکوں کے عوض کوڑی کے بھائوبھیج ڈالنے کوتیار ہیں ایسی تحریروں سے شناسائی پاکر یہاں آنے والے کیلاش سماج کی جو درگت کرتے ہیں وہ قابل آفسوس ہوتاہی‘‘۔(اشپاتا،صفحہ)۔
کیلاش عقیدہ :
کیلاش جسے حرفِ عام میں کافرکہاجاتا ہے ان سے متعلق یہ تصور موجود ہے کہ ان کے ہاں نہ تو مذہب کا تصور ہے اور نہ ہی عقیدے کا رجحان بس ان کی زندگی سارے حدودوقیود سے ماوراء دنیاوی عیش وعشرت میں گزرجاتی ہے حالانکہ یہ ایک بے بنیادلغو تصور ہے جنکاحقیقت سے دورکابھی تعلق نہیں کیلاش برادری کے ہاں اگر چہ کوئی خاص پیغمبر یا مذہبی کتاب تو موجود نہیں لیکن عقائد کے حوالے سے وہ توحید کے قائل ہی۔ اشپاتانامی کتاب کے مصنف لکھتے ہیں کہ میں کیلاش مذہب وعقیدے سے متعلق جاننے کے لئے ایک عمر رسیدہ کیلاش کے پاس پہنچا۔ ’’چچاجان اللہ کے بارے میں کچھ جانتے ہیں ؟ اس کائنات کو اورانسان کو پیدا کرنے والا کوئی ہے بھی یا یہ ویسے خود بخود چالوہے ؟ ’’میں براہ راست اللہ کا نام لیکر چچا سے پوچھا ۔چچاجان نے نسوار ڈالاتھا اب نسوار کو باہر پھینک کر بڑے ادب سے ہاتھ سے منہ صاف کیا اوریوں گویاہوئی۔
’’استادجی !کھدا(خدا)ایک ہے اس نے ہمیں پیدا کیا ہے ہمیں رزق دیتاہے ہماری پرورش کرتاہے وہ موت دیتا ہے وہ کھدا(خدا)اس کائنات کا اکیلاکھداہے ۔‘‘
چچاجان !کھداکے ساتھ کھدائی میں کوئی اور شریک ہیں یا اسکے برابرہیں ؟‘‘
’’استاد جی!اسکاکوئی شریک یا اسکاکوئی برابر نہیں ہے وہ ایک ہے سب کا کھدا ہی۔‘‘چونکہ کیلاش کئی ایک دیوتائوں کو بھی ما نتے ہیں جن سے مختلف افعال موصوم کیاجاتاہے اس حوالے سے مصنف لکھتے ہیں ۔
’’چچاجان!تمہارے یہ دیوتا کیا خدائی میں شریک یا خدا کے برابر یا رزق یا موت دینے والا کوئی ؟‘‘
چچا جان نے نسوار روشن دماغ کی پیڑی منہ میں رکھا اور مجھ سے مخاطب ہوکرکہنے لگا۔
’’نہیں بھائی جان!ان دیوتائوں میں سے کوئی بھی خدائی میں شریک یا رزاق یا مالک نہیں ۔بس خدا ایک ہی خدا ہے ہر مذہب کا عبادت خانہ ہے اور مسلمان کاعبادت خانہ مسجد ہے جہاں وہ اپنے خدا کی عبادت کرتے ہیں ہمارے یہ دیوتا بھی ہمارے عبادت خانے ہیں ۔جہاں پر ہم اپنے خدا کی عبادت کرتے ہیں ‘‘۔’’دیوتائوں سے صرف اتنا کہتے ہیں کہ ہماری بات پوری سفارش کے ساتھ خدا کو پیش کریں اورمسائل یا آرزئوں کی تکمیل کی جلدمنظوری لے آئیںتم دیکھتے نہیں کہ ہم اس کے سامنے اپنا سر نہیں جھکاتے ہیں اگر دیوتا کو خداکہتے تو ہمارے سر بھی جھک جاتی۔ یہ خدا تک جانے کا ایک وسیلہ ہے ہماری عبادت گاہ ہیں خدانہیں ‘‘۔(اشپاتاصفحہ7-58 )۔
کیلاش عقیدے کے پیروکار آخرت پر ایمان رکھتے ہیں ’’آخرت کی زندگی پر ایمان ہے ا س دنیا کے بعد دوسری زندگی ہے ۔جہاں جنت،دورزخ اور بیریر جیسی تین زندگیاں ہیں کیلاش مذہب میں ان سے وعدہ کیا گیا ہے کہ مرنے کے بعد بیریر میں قائم ان کی حالیہ زندگی ان کومل جائے گی ۔اسکاحصول تب آسان ہوگا جب یہاں خوب دل لگاکرجوش وجذبے کے ساتھ ناچاجائے گا،گیت گایاجائے گا۔کیلاش کی حالیہ خوش باش زندگی سے خوش ہو کر ان کا کھدا قیامت کے دن انہیں اسی طرح کی زندگی عطاکریگا‘‘۔’’کیلاش مذہب کے ماننے والوں کا عقیدہ یہ ہے کہ محمدؐ مسلمانوں کا پیغمبر ہی۔کیلاش کی دیوتائیں جو کھداتک جانے کے وسیلے ہیں ان کی وساطت سے ہم خدا تک جاتے ہیں ان کوخوش کرتے ہیں اس سے آگے رسول کے بارے میں انہیں علم نہیں‘‘۔(وادی کیلاش کے تینوں وادیوں میں سے بیریر پسماندہ لیکن پھلوں بالخصوص انگوروں سے مالامال ہے بیریر کو ارضی جنت کہنا زیادہ درست ہوگا)۔
کیلاش میں فوتگی کی رسم :
ہمارے سماج کا عمومی نفسیات یہ ہے کہ جب کسی معاشرے میں فوتگی واقع ہوجائے تو وفات پانے والوں کے خاندان کے ساتھ سارامعاشرہ سوگوار ہوتا ہے لیکن کیلاش معاشرہ اس کے بالکل الٹ ہے جب کوئی کیلاش وفات پاجائے تو خاندان سمیت سارے علاقے کے لوگ جمع ہوکر اس کی یاد میں محفل موسیقی سجاتے ہیں مرنے والے کی تعریف ہوتی ہے وہ کہتے ہیں کہ ہم اس پرسوگ نہیں مناتے کیونکہ دنیا گناہوں اوربرائیوں کا مسکن ہے اب کوئی ان گناہوں اوربرائیوں سے بچ کر اپنے رب کے حضور جائے تو ہم کیوں غم منائے ؟’’کسی گھر میں کسی کیلاش مرد کی موت قریب ہو تو محلہ کے بوڑھے اور بوڑھیاں بیمار کی چارپائی کے چاروں طرف بیٹھ جاتے ہیں ۔اسکی موت کا انتظار کیاجاتاہے ۔سب کی نظریں جانے والے پر ،جانے والا اکیلا ہی اپنا درد سہتا ہے ۔کوئی دم کوئی دعاکوئی مالش یا نبض شناسی کچھ بھی نہیں ۔ انجہانی ہونے پر رومال سے جبڑا سرپر باندھا جاتاہی۔ اور اسی طرح چارپائی میں چھوڑ کر رات گئے تک اسکی تعریف کی جاتی ہے ۔خواتین اپنے سروں کے بال کھول دیتی ہیں۔صبح کو اطلاعی فائرنگ کی جاتی ہے دوسرے دو وادیوں میں پیغام بھیجاجاتاہے ۔انجہانی مالدار ہوتو پھر تو وادی کی عیش ہے اگر غریب ہے تو یک روزہ جشن پھر بھی لازم ہی‘‘۔
’’کیلاش کا سوگ عجیب خوشیوں او رمسرتوں کا سوگ ہوتاہے میت کو اجتماعی ناچ گاہ ’’جستگھان ‘‘میں رکھ دیا جاتاہے ۔مالدار کی فوتگی پر میت کو چار دن تک کمرے میں رکھ کر اسکے گرد ناچنا،گانا،ڈھول بجانا اور کھلی آزادی کے ساتھ سگریٹ وغیرہ پینا کیلاش قبیلہ کا سوگ ہے ۔ ہوائی فائرنگ چھوٹی لڑائی کا منظر پیش کرتی ہے شراب تو محبوب مشروب ہی۔ غریب کیلاش کی موت پر سوگ کا خرچہ اسکی اپنی برادری اجتماعی امداد سے برداشت کرتی ہے ۔عورت آنجہانیہ کے بارے مذہب کا حکم چوبیس گھنٹے کے اندراندر دفنانے کا ہے ۔رسم سوگ بھی اسی وادی یا اپنے ہی گھر میں محدود منانے کاحکم ہے ۔دوسرے وادیوں میں اسکی اطلاع نہیں کیجاتی ہے ۔انجہانی اپنی حیات میں دوسرے کالاشوں کی موت پر ناچا ہواہوتاہے اس لئے جب خود مر جاتاہے تو اسکو انتظار رہتاہے کہ اس کی میت کے گرد ناچاجائے ۔اس ناچ اور اپنی تعریف میں گیت سن کر وہ خوش رہتاہے ۔سارے ناچ ،گیت ،ڈھول کی ڈم ڈم اور فائرنگ کی آوازسے وہ محظوظ ہوتاہے مگر اس کااظہار نہیں کرسکتا ‘‘۔ (اشپاتا،ازمحمد عنایت اللہ صفحہ1)۔
اس سال بھی مئی کے دوسرے ہفتے وادی کیلاش میں جشن بہاران کاتہوار’ چیلم جوشٹ‘ روایتی جوش وخروش سے منایا گیا ۔جو اس امر کاغمازہے کہ جہاں ایک چھوٹی سی اقلیت ہمارے معاشرے کی رنگارنگی ،گوناگونی کو ختم کرکے یک قطبیت کو مسلط کرنے کی کوشش کررہے ہیں وہیں معاشرے کی ایک خاموش اکثریت ایسی بھی ہے جو عقائد کو اپنی ذات تک محدود رکھتے ہوئے سماج میں موجود اختلافِ رائے ، گوناگونی ورنگارنگی کوفروع دینے کی کوششوں میں مصروف ہے ۔وقت کا تقاضہ یہ ہے اگر ہمیں اپنے معاشرے میں امن وبھائی چارگی اور مثبت رویوں کو فروع دینا ہے تو معاشرے کی اس رنگارنگی کا دوبارہ پرزورانداز سے احیا ء کیاجائی۔ اس کے بے غیر پائیدار امن اور سخت گیریت ودہشتگردی کاخاتمہ مشکل نہیں بلکہ ناممکن ہے ۔وادی کیلاش میں منایاجانے والا چلم جشٹ کا تہوارچترال کی پر امن معاشرے کی خوبصورتی اور مستحکم تہذیبی روایات کی موجودگی کا آئینہ دارہے ۔آئے ہم عہدکریں کہ معاشرے میں امن کے فروع کے لئے عقائد کو اپنی ذات تک محدودرکھ کر سماج کی اجتماعی خوشی اور روایات کے فروع میں اپنا کرداراداکریں۔کیونکہ
شکوہء ظلمت ِ شب سے تو کہیں بہتر تھا
اپنے حصے کی کوئی شمع تو جلاتے جاتے