کالمز

صحافتی لوٹے

Mamtazسیاسی لوٹوں پر کہانیاں بنانے والے آج خود صحافتی لوٹوں کی صف میں کھڑے ہو گئے ہیں. سیاسی لوٹوں کے پیچھے سیاسی اور کچھ دیگر نظریات ہوتے ہیں، مگر صحافتی لوٹوں کے سامنے بڑی تنخواہ اور مراعات کے علاوہ کوئی چیز حائل نہیں ہوتی. اور مان بھی لیتے ہیں کہ بڑی تنخواہ اور مراعات کے پیچھے جانا کوئی حماقت بھی تو نہیں، مگر کامران خان جیسے صحافی جو اپنے بارے میں خود کہتے ہیں کہ میں نے بیس ہزار سے زائد تحقیقاتی رپورٹس کیے ہیں، ایسے میں سوال یہ ہے کہ ایگزٹ اور بول کو جائن کرنے سے پہلے ان اداروں کے بارے میں تھوڑی سی تحقیق کی زحمت کیوں نہیں کی. کیوں کہ کامران خان ہی سب سے پہلے اور سینئر صحافی تھے جس نے سب سے پہلے بول میں شمولیت اختیار کر لی تھی. اور ان کے دیکھا دیکھی دیگر صحافی بھی آنکھیں بند کئے بول میں شامل ہوتے گئے. اور اب بول کے بولنے سے قبل انھوں نے خود ہی بول دیئے کہ آیندہ بول میں رہینگے نہ ہی بول کے لئے بولینگے.

دوسری انتہائی مضحکہ خیز اور شرم کی بات یہ بھی ہے کہ ہم یہ کہتے ہیں کہ پاکستان میں میڈیا مکمل آزاد ہے، تو ایسے میں جو تحقیقاتی رپورٹ نیو یارک ٹائمز کے صحافی ڈکلین واش نے شائع کی ایسی جرات اور کوشش کسی پاکستانی صحافی اور میڈیا ادارے نے بروقت کیوں نہیں کی. اس سے یہ بات کھل کر سامنے آگئی ہے کہ ہمارے میڈیا کے اداروں سے تحقیقاتی رپورٹنگ یا تو مکمل طور پر ختم ہو چکی ہے یا پھر کوئی اس طرف توجہ ہی نہیں دیتا. ہونا تو یہ چاہیئے کہ تحقیقاتی رپورٹنگ کا شعبہ مکمل فعال ہو، اور اہم عالمی، علاقائی اور قومی مفادات کو مدنظر رکھ کر تحقیقاتی رپورٹنگ کو فروغ دیا جائے.

پاکستان میں گزشتہ کئی سالوں سے تعلیم سمیت متعدد اہم شعبے زبوں حالی کا شکار ہیں. اگر ان شعبوں میں ہونے والی بد انتظامی، بد عنوانی اور دیگر خرابیوں کو بہتر انداز میں حقائق اور ثبوتوں کے ساتھ سامنے لانے کے لیے کوئی تحقیقاتی رپورٹنگ کی جاتی تو آج ان محکموں اور شعبوں کا نقشہ الگ ہوتا. بد عنوانی بڑی حد تک کم ہو چکی ہوتی اور یہ شعبے زوال کے بجائے ترقی کی جانب گامزن ہوتے. نیو یارک ٹائمز کے صحافی ڈکلین واش کی یہ تحقیقاتی رپورٹ ہماری آنکھیں کھولنے کے لئے کافی ہے کہ کس طرح ایک رپورٹ نے ایگزٹ اور بول(بقول شعیب شیخ پاکستان کا سب سے بڑا آئی ٹی ادارہ اور سب سے بڑا میڈیا نیٹ ورک) کو کہاں سے کہاں پہنچا دیا اور کس طرح کے حقائق ہم سب کے سامنے آگئے. اسی لئے ہی تو میڈیا کو کسی بھی ریاست کا چھوٹا ستون قرار دیا جا رہا ہے، یہاں ایک اور سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم ریاست کے اس چوتھے ستون کا حق ادا کر رہے ہیں.

کیا ہر وقت اخبارات کو سیاستدانوں کے بیانات سے بھر دینا اور اور ٹی وی چینلوں میں سیاستدانوں کے درمیان جھگڑے کر وا کر اپنے چینلوں کی رینکنگ بڑھانے سے اس ریاست کے چوتھے ستون کا حق ادا ہو جاتا ہے. یقیناً جواب نفی میں ہوگا. اگر پاکستان کو ترقی پذیر سے ترقی یافتہ قوموں کی صف میں لے جانا ہے، تو میڈیا میں بھی مثبت تبدیلیاں لانی ہونگی. زیادہ اخبارات اور میڈیا آرگنائزیشن کا سامنے آنا کوئی بڑی بات نہیں ہے، مگر قوم کی بہتر انداز میں رہنمائی اور قومی اداروں اور وہاں کام کرنے والوں کا صحیح معنوں میں احتساب کرنا اصل مقصد ہونا چاہیئے.

ایگزٹ اور بول کے واقعے کی مکمل اور شفاف تحقیقات ہونی چاہئے، اور حقائق پوری قوم کے سامنے آنی چاہئے. اگر واقعی غیر قانونی کام ان کمپنیوں سے سرزد ہوا ہے، تو انہیں قانون کے مطابق سزا ملنی چاہیے. اس وقت پاکستان کا عالمی سطح پر امیج بچوں اورعورتوں سمیت اقلیتوں پر حملے، خودکش دھماکوں، طالبانائزیشن اور داخلی سیکورٹی صورتحال کی وجہ سے پہلے سے ہی کوئی بہتر نہیں ہے، ایسے میں ایک عالمی سطح کے جعلی ڈگریوں کے سکینڈل سے مزید خراب ہو جائے گا. جسے سوشل میڈیا میں ایک پوسٹ کافی مقبول ہو رہا ہے، جس میں لکھا گیا ہے کہ پاکستانیوں کو بھاری فیسیں دے کر تعلیمی اداروں میں پڑھنے کی کیا ضرورت ہیں، انکے وہاں تو ڈاکٹریٹ تک کی ڈگریاں با آسانی گھر کے ایڈریس پر بیجھ دی جاتی ہیں.

واقعہ خواہ چھوٹا ہو یا بڑا اگر ملک و قوم کی بدنامی کا با عث بنے تو اس کے خلاف قانون کو بروقت حرکت میں آنا چاہیے. ایگزٹ اور بول کے اسکینڈل سے ایک سوال یہ بھی سامنے آرہا ہے جب یہ ادارہ ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے کام کر رہا تھا اور اس طرح کی غیر قانونی کام میں ملوث تھا تو ملکی تحقیقاتی اداروں نے کوئی کاروائی کیوں نہیں کی، اسے اتنا فری ہینڈ کیوں دیا گیا. یقیناً چوہدری نثار صاحب ہی اس سوال کا بہتر جواب دینگے.

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button