ڈاکٹر عنایت اللہ فیضیؔ جزو میں کُل اور قطرے میں دجلہ
؎ دامِ ہر موج میں ہے حلقۂ صد کام نہنگ دیکھے کیا گزرے ہے قطرے پہ گہر ہونے تک
کہا یہ جاتا ہے کہ سمندر میں پائی جانے والی ایک خاص مچھلی ( سیپی) کے بطن میں دنیا کا سب سے قیمتی پتھر’’ گہر ‘‘ پایاجاتا ہے ۔ سائنس سے قطع نظر خیال یہ کیا جاتا ہے کہ آسمان سے بارش کے بے شمار قطروں کے ساتھ ایک بوند ایسی بھی ٹپکتی ہے کہ جس کے اندر گہرِ نایاب بننے کی صلاحیت قدرتی طور پر موجود ہوتی ہے لیکن گہر بننے کا یہ سفر کامیابی سے اُس وقت ہمکنار ہوتا ہے جب وہ سمندر پر گرنے کے بعد اُس خاص مچھلی کے پیٹ میں چلا جائے جس کے اندر اُسے پرورش کرنے کا قدرتی نظام موجود ہوتا ہے۔ لیکن قطرے کیلئے یہ سفر بہت مشکل اور اذیت ناک ہوتاہے کیوںکہ سمندر کی ہر لہر کے ساتھ سینکڑوں منہ والے مگر مچھ اُسی ایک قطرے کے انتظار میں اپنے خونخوار دہن وا کئے ہر لمحہ چوکس ہیں۔ اب یہاں غور طلب بات اُس قطرے کی حکمت عملی ہے کہ وہ کیسے اپنے آپ کو ان وحشی شکاریوں سے بچا کر اپنے روشن مستقبل کا تعین کرسکتا ہے۔ اس فلسفے سے قطع نظر ایک خیال یہ بھی ہے کہ یہ قطرہ اگر کسی خاص سانپ کے پیٹ میں چلا جائے تو زہر مہرہ بھی بن جاتا ہے ۔
ڈاکٹر صاحب بھی اپنی زندگی کے لئے ایسے ہی دشوار گزار راستوں کا انتخاب کرتے ہیں کیوں کہ اُسے بھی دنیا کی سب سے قیمتی موتی بن کے اُبھر ناہے ۔ڈاکٹر صاحب کی شخصیت پر لکھنے والے بہت ہوں گے لیکن میں اپنی مثال اُس بُڑھیے کی سمجتا ہوں جو ماہ کنعان کو خریدنے صرف ایک مُٹھی بھر اُون لے کے بولی کی جگہ پر پہنچ گئی تھی ۔
فیضیؔ سے میں بھی فیضیاب ہوا ہوں، 1985 سے 1987 تک انٹر کالج بونی میں جن طلبأکو آپ نے پڑھایا اُن میں،میں بھی شامل تھا۔ حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا کی صداقت سے اپنے استاد پر لکھنا میرا فرض بنتا ہے۔ اگرچہ میرے قلم میں وہ قدرت نہیں ہوگی کہ میں اس فرض کو کما حقہ نبھا سکوں ۔میں وہی لکھوں گا جو میں نے محترم ڈاکٹر صاحب کو خود اپنی دونوں آنکھو ں سے دیکھا ،خود سنا اور خود پایا۔ لیکن مشکل یہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب کی شخصیت کے کس پہلو پر لکھا جائے؟ خلوص و صداقت،فہم و ادراک،علم و ادب، شعر و شاعری ،نرمی و ملائمت، ،ظرافت و ذہانت ،مذہب و سیاست،تصنیف و تالیف، اور یہاں تک کہ زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں جس پر ڈاکٹر صاحب مکمل دسترس نہ رکھتے ہوں۔ آپ کی زندگی کا ہر پہلو اپنی جگہ ایک تاریخ ہے ۔ میں ایک طرحی غزل میں فیضی ؔ صاحب ( ؎ پھتوکان سورا اشرو بار نیکی)، کا مقطع آپکے نذر کرنے کی ہمت باندھتا ہوں فرماتے ہیں ؎ اے فیضیوں ؔ طوفان کورہ خمیس کیہ خبار تہ تاتو بطانہ سمندار نیکی ۔ ۔ ۔۔فیضیؔ صاحب اپنے تیئں شاید طوفان بننا چاہتے تھے لیکن فطرت نے اُس قطرے کو جگر لالہ میں تھنڈک پیدا کرنے کے لئے بنایا تھا ۔ یہ ۵۸۹۱ کی بات ہے کہ بونی کے چھوٹے سے بازار میں قدرے مختصر قد کاٹھ کا ایک بندہ ،گندمی رنگ کی شلوار قمیض میں ملبوس ، سر پر چترالی ٹوپی سجائے ، گھنی سیاہ داڑھی ، پُرنور چہرے پر محبت سے بھر پور مسکراہٹ ،ہاتھ میں ایک ڈائری اور چند مسودے تھامے، اپنے قد کی نسبت سے زیادہ لمبے قدموں سے اپنے شانے قدرے اُوپر اُوپر اُٹھاتے ہوئے بازار میں سب لوگوں کو دائیں ہاتھ سے سلام اور بائیں ہاتھ تعظیماً سینے پر پیوست کئے آداب آداب کئے گزر گئے ۔ موصو ف کے بازار سے گزرنے کے بعد لوگ ایک دوسرے سے پوچھنے اور ایک دوسرے کو بتانے لگے کہ یہ فیضیؔ صاحب ہیں،یہ بہت بڑے شاعر ہیں۔ ابھی انٹر کالج میں لیکچرار لگے ہیں وغیرہ وغیرہ ۔یہ وہ زمانہ تھا جب بونی میں ابھی ابھی انٹر کالج کا قیام عمل میں آیا تھا اور لیکچرارعنایت اللہ فیضیؔ کی تقرری اسی کالج کے لئے ہوئی تھی ، ہم اُس کالج کے پہلے بیچ کے طلبا تھے۔
اگلے دن فیضیؔ صاحب سے کالج میں ملاقات ہوئی ۔ پہلی ملاقات میں مجھے کچھ ایسا محسوس ہوا کہ گویا ؎ برسوں کے بعد دیکھا اک شخص دِلربأ سا ۔ پہلے بھی لوگ آئے کتنے ہی زندگی میں وہ ہر طرح سے لیکن اوروں سے وہ جدا تھا ۔ فیضیؔ صاحب کیا آئیگویا پورا دبستان آیا ۔ ادبی نشست، تنقیدوتحقیق،مشاعرے ، مباحثے ،تحریر اور تقاریر کے سلسلے ایسے شروع ہوئے کہ تمام طلبأ کی توجہ ادب کی طرف مبذول ہوئی ۔ فیضیؔ صاحب نے کمرہ جماعت کو ادب ،آداب اور محبت کا گہوارہ بنائے رکھا ۔فیضیؔ صاحب ایک دن کے لئے بھی کہیں کام سے جاتے تو کالج سُونا سُونا سا لگتا ۔ اور جب مختصر چھٹی کے بعد آتے تو کالج کے طلبأ استقبال کے لئے مین روڈ تک جاتے اور محترم کو ایک جلوس کی شکل میں کمرہ جماعت تک لے آیا جاتا۔ڈاکٹر صاحب طلبا ٔ کیidden Curriculum سے تربیت کے حامی تھے آپ ہمیں کسی بھی شرارت پر ڈانٹتے نہیں تھے البتہ کسی اور وقت میں ایسی ہی صورت حال کا سامنا کرتے ہوئے خود ایک نمونہ بن کے سامنے آتے تھے ۔ عجیب استاد تھے جب کبھی کوئی طالب علم کسی کام سے آپ کے پاس جاتا تو آپ ہمیشہ کھڑے ہو کر استقبال کرتے ۔ اور طلبہ کے ہر کام کو بڑی توجہ اور دقیق نظرسے نہ صرف دیکھتے بلکہ کوئی نوٹ یا کمنٹ بھی لکھا کرتے اور نوٹ بھی ایسا کہ جس سے اپنی کمزوری کا بھی احساس ہو اور اعلیٰ حوصلہ بھی ملے ۔
بالائی چترال میں نوجوانوں کو علمی رجحان دلانے میں جتنا ڈاکٹر صاحب کا کردار ہے اُتنا کسی اور کا نہیں۔ فیضیؔ صاحب کی کوششوں سے بونی میں دو مرتبہ کل چترال مشاعر ے ہوئے۔ ان میں سے ایک مشاعرہ بونی کی معروف علم دوست شخصیت صوبیدار محمد دبور خان کے دولت کدے میں جبکہ دوسرا گورنمنٹ ہائی سکول بونی میں ہو ا۔ دونوں مشاعروں میں چترال کے اعلیٰ پائے کے شعرا نے شرکت کی ۔ ان مشاعروں سے نہ صرف ادب کی ترویج ہوئی بلکہ چترالی قوم میں پائے جانے ثقافتی و مسلکی فاصلے بھی کم ہوئے ،نشیبی اور بالائی چترال کے باسی ایک دوسرے کے زیادہ قریب آگیے۔ اُن دو مشاعروں سے محبت کی جو فضأ پھیلی وہ اب بھی وسیع سے وسییع تر ہوتی جا رہی ہے ۔ میں یہاں پر صاحب موصوف کی ادبی خدمات کا ذکر شروع کروں گا تو ہم ایک لا متناہی منزل کی طرف رختِ سفر باندھیں گے۔ لہذا میں کوشش یہ کر وں گا کہ ڈاکٹر صاحب کے بچپن ، تعلیم اور ملازمت کے حوالے سے کچھ معلومات آپ کے ساتھ بانٹ سکوں ۔
ڈاکٹر فیضیؔ صاحب کی اس دنیا میں آمد 14 اگست سن 1952کو جمعرات کے دن ہوئی ۔ابتدائی تعلیم گورنمنٹ پرائمری سکول بلیم (وادی لاسپور کا ایک خوبصورت گاوں ) میں حاصل کی۔ بلیم وہ مردم خیز گاؤں ہے جس نے کرنل اکرم اللہ ، محمد یوسف شہزاد ، ایڈوکیٹ شہاب الدین کے علاوہ ڈاکٹر عنایت اللہ فیضیؔ جیسی نابغۂ روزگار شخصیات کو اپنی گود میں پرورش کی ۔ سن 1959 سے اُس وقت کے عنایت اللہ نے سکو ل جانا شروع کیا ۔عنایت اللہ کی خوش قسمتی یہ تھی کہ آپ کے والد ماجد مولانا محمد اشرف اُسی سکول میں مدرّس تھے لہذا آپ کی خوب علمی پرورش ہوئی ۔ 1965 کو گورنمنٹ ہا ئی سکول چترال میں داخلہ لیا۔ یہاں چترال کے نامور علم دوست اساتذہ مرحوم غلام عمر،محمد زمان،امیر زادہ خان،میر فیاض،وقار احمد ،محمد زمان اور رحمت ولی کی زیر نگرانی میٹرک تک تعلیم حاصل کی ۔ اساتذہ کے علاوہ اس سکول میں محنتی دوستوں کی رفاقت بھی ساتھ رہی جن میں معراج خا ن ، محمد یعقوب(موردیر) محمد عرفان ( گول دور) عنایت اللہ اسیر ( ایون) شہا الدین ( لاسپور) کے علاوہ لٹکوہ بریشگرام سے سید زرم شاہ اور سید عبدل علیم شاہ سے صاحب موصوف کا گہرا یارانہ تھا جوکہ دونوں آج کل شعبۂ تعلیم میں درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔
اُس زمانے میں چترال خاص میں لوگوں کا ادبی ذوق بام عروج پر تھا جس کی سب سے بڑی وجہ تینو ں مہتران چترال (مرحوم) اعلیٰ حضرت ناصرالملک اور مضفر الملک کے منتظم اعلیٰ آغا سعدی خان چعتائی کی ادب شناسی وعلم دوستی تھی۔( آغا سعدی صاحب اپنے پیشے کے لحاظ سے اتنے مضبوط آدمی تھے کہ مہتر چترال سر مظفر الملک کی علالت کے دوران مہتر چترال کی جانب سے مختلف سرکاری و نجی دستاویزات پر بحکمِ ہز ہائنس لکھ کے اپنے قلم سے خود دستخط کیا کرتے تھے ) اُس زمانے میں چترالِ خاص میں ادبی نشست اور مشاعرے ہوا کرتے تھے ۔
عنایت اللہ نے 1967 میں اپنے نام کے ساتھ فیضی ؔ کا تخلص لگا یا۔ عنایت اللہ نے اپنے تخلص کا بہت ہی پُر مغز استعمال کیا ہے اور اسی تخلص سے اپنی شاعری کی دنیا میں بھی جاندار مضامین پیدا کرکئے ۔ پہلی مرتبہ 14 اگست 1968 کو مشاعرے میں شرکت کی اوراُس مشاعرے کی صدارت آغا سعدی خان چعتائی نے فرمائی تھی اور اُس مشاعرے کا خاص مہمان اُس وقت کے ڈائریکٹر انفارمیشن قاضی سرور تھے جو کہ جمہور اسلام کھوار کو بھی چھاپتے تھے۔ گورنمنٹ ہائی سکول چترال کے آٹھویں جماعت کے طا لب علم عنایت اللہ سے عنایت اللہ فیضی بنے کے بعد اپنا پہلا کلام اپنے وطن کی نذر کرتے ہیں ۔ عنایت اللہ فیضی کی نظم کے پہلے اشعار کچھ یوں تھے ۔
؎ اوا جوان خوش وطانو + مہ ژان قربان خوش وطانو — الفت ایمان خوش وطانو + پائرا مہ ژان خوش وطانو
عنفوان شباب میں تو بڑے بڑوں کے ہوش اُر جاتے ہیں جیسے ؎ بستی کی لڑکیوں میں بدنام ہو رہا ہوں وغیرہ پر یہاں فیضیؔ اُسی بدنامی کے زمانے میں تو وطن سے عشق کرتا ہے اور یہی آپ کی سنجیدگی و متانت اور وطن دوستی کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔ چترال کے اُس تاریخی مشاعرے کے شرکأ میں کیسو کا مشہور مزاحیہ شاعر مولانا بچا خان ہما،مولانا حبیب اللہ فدا برینس، بابا ایوب چمرکن ، امیر خان میر ، جہانگیر جگر ، سید احمد حسین پروانہ سویر ، کرم الہی اور سُر قاضی ژانگ بازار کے علاوہ کئی ایک نوجوان شعرا نے بھی حصہ لیا لیکن حمید الرحمان حمید نے ترنم سے کلام پڑھ کر پوری محفل لوٹ لی ۔
چترال کے ادبی ماحول نے صاحب موصوف کی چھپی ہوئی ذہنی صلاحیتوں کو نکھارنے، سنوارنے اور جِلا بخشنے میں کلیدی کردار ادا کیا ۔ پہلے مشاعرے میں شرکت کے بعد ادب کی طرف صاحب موصوف کا رجحان کچھ زیادہ ہی بڑھ گیا ۔۱970 میں میٹرک کا امتحان پا س کرنے کے بعد علم و ادب کی پیاس بجھانے کی شدید خواہش نے ڈاکٹر صاحب کو کشاں کشاں پشاور پہنچا دیا ۔۱974 کو صاحب موصوف نے گریجویشن کی ۔اسی طرح 1978 میں اُردو زبان و ادب میں ماسٹر اور 1980 میں اسلامیات میں ماسٹر کرنے کے بعد شعبہ تعلیم کی طرف آئے۔
شروع شروع میں ڈاکٹر صاحب کوصحافت سے لگاؤ تھا کیوں کہ آپ مختلف اخبارات میں کام کرتے تھے ۔لیکن بعد میں جھکاؤ تعلیم کی جانب ہوا ۔یوں عنایت للہ فیضیؔ اُردو کی تدریس کو اپنا پیشہ بنالیا ۔ڈاکٹر صاحب کی دریس تدریس کا اپنا مزا تھا ۔ڈاکٹر صاحب صرف درسی کتاب ہی نہیں پڑھایا کرتے تھے بلکہ ہم نصابی سرگرمیاں جیسے ڈراما نگاری، شاعری، افسانہ نگاری، تنقیدی نشست اور بک رویوو و غیرہ کا بھی بڑے تپاک سے اہتمام کیا کرتے تھے ۔اُن سرگرمیوں کی وجہ سے طلبأ میں سوچنے کی صلاحیت کو تقویت مل جاتی تھی ۔ ڈاکٹر صاحب پڑھانے کے ساتھ پڑھتے بھی تھے ۔فیضی ؔ صاحب جس زمانے میں پامیر پبلیک سکول سے محلق کرائے کے ایک مکان میں رہائش پزیر تھے تو اکثر طلبا کالج چھٹی ہونے کے بعد اپنے گھروں کو جانے کے بجائے سیدھا آپ کے ساتھ آپ کے گھر آجاتے اور فیضی صاحب سے مختلف مسائل کے حوالے سے سوال و جواب کا سلسلہ شروع ہو جاتا ۔ فیضیؔ صاحب کی عادت یہ تھی کہ رات گئے تک پڑھتے رہتے چار گھنٹے سے زیادہ نہیں سوتے یہی سوال جب میں نے آپ سے پوچھا کہ دن کے چوبیس گھنٹوں میں سے صر ف چار گھنٹے نیند کرنا کیا محترم کی طبیعت پر گراں نہیں گزرتا؟ فرمانے لگے کہ انسانی دماغ کے لئے دس منٹ کا آرام بھی کافی ہے بشرطیکہ یہ آرامی پُر سکون ہو اور کسی قسم کا کوئی خلل نہ ہو ۔
میدان علم میں جہد مسلسل کے ساتھ موصوف آگے بڑھتے گئے یوں 1986میں ایریا اسٹیدی سنٹر پشاور سے ایم فل کی سرٹفکیٹ اور 1992 میں وسطی ایشیا اور خاص کر وخان پٹی کی تاریخ و تہذیب پر تحقیقی مقالے پر پی ایچ ڈی کی ڈگری لی ۔ کئی ایک بیرونی ممالک میں جاکر تحقیقی مقالے پیش کرکے بین الاقوامی سطح پر خوب جانتے جاتے ہیں ۔آپ کے بے شمار اخباری کالم مضامیں اور ریڈیو پروگرم ایسے ہیں جن پر کسی اور وقت گفتگو ہوگی تاہم اخباری کالموں میں ’’ دادبیداد‘‘ اور ’’ صدا بصحرا‘‘خاص اہمیت کے حامل ہیں ۔ ان کالموں پر مشتمل کتاب مستقبل قریب میں منظر عام پر آئے گی بہت ممکن ہے۔ کہ اُ س کتاب کو کسی یونیورسٹی میں درسی کتاب کی حیثیت حاصل ہوگی ۔
(تم سلامت رہو ہزار برس ہر برس کے ہوں دن پچاس ہزار )