کالمز

برق گرتی ہے تو بے چارے غریبوں پر

علی احمد جان

کہا جاتا ہے کہ پرانے وقتوں میں قدرت انسان پر حاوی تھی ۔۔۔۔۔ بارش، جنگلی جانور، دھوپ اور دیگر قدرتی بحرانوں 11026119_889431431079855_3477689665816063661_nسے انسان بھاگ نہیں سکتا تھا۔ وقت گزرتا گیا، انسان نے ترقی کے منازل طے کیے۔۔۔پہیہ ایجاد ہوا اور رفتہ رفتہ انسان قدرت پر حاوی ہونے لگا۔۔۔۔ پکے گھر بنائے گئے، آمدورفت کے ذرائع دریافت ہوئے۔۔۔۔ اس کے بعد  دھوپ، جنگلی جانور، بارش اور قدرتی آفات کے سامنے انسان اتنا بے بس نہیں رہا جتنا اس کے آبا واجداد تھے۔۔۔۔۔۔

 مگر ان دنوں بالعموم پورے ملک اور بالخصوص کراچی میں شید گرمی اور لو لگنے کے باعث ہلاک ہونے والے افراد اتنی بڑی تعداد دیکھ کر لگتا ہے غریب پر آج بھی قدرت حاوی ہے۔

کیونکہ شدید گرمی کی وجہ سے کوئی بھٹو، کوئی مخدوم، شریف، چوہدری یا خان ہلاک نہیں ہوا۔۔۔۔۔۔ وجہ یہ ہے کہ ان کے پاس کسی بھی قدرتی بحران کا مقابلہ کرنے کے وسائل موجود ہیں۔۔۔۔

اطلاعات کے مطابق عباسی شہید اور جناح اسپتال کے ساتھ ساتھ ایدھی سینٹر میں بھی متعدد لوگوں کی لاشیں لائی گئیں، ڈاکٹروں کے مطابق ان کی موت شدید گرمی اور لو لگنے کے باعث ہوئی ہے اور وزیراعلی بے نظیر کی سالگرہ منانے کے لیے لاڑکانہ تشریف لے جاچکے ہیں۔۔۔۔ اور ہمیشہ کی طرح ان غریبوں ، "کیڑے مکوڑوں” کی اموات سے بے خبر ہیں۔۔۔۔ عجیب بات ہے کہ ایک طرف برسوں قبل مرنے والوں کی سالگرہ منائی جارہی ہے، کیک کاٹا جارہا ہے، خوشیاں منائی جارہی ہے اور لاکھوں روپے پانی کی طرح بہایا جاتا ہے جبکہ  دوسری جانب لوگ لو لگنے سے مر رہے ہیں۔ 45 ڈگری سینٹی گریڈ کی شدید گرمی اور شہرمیں گھنٹوں بجلی غائب۔۔۔ اور پانی کی قلت ۔۔۔۔۔۔۔ بلاول بھٹو، مریم نواز، عمران خان اور دیگر جمہوری لیڈران  عوام کی اس صورت حال سے واقف ہیں؟ اگر ہاں تو یہ مجرمانہ خاموشی کیوں ہے اور اگر نہیں تو کیوں؟ سچ کہوں تو یہ سب تصور بھی نہیں کر سکتے ہیں کہ عام آدمی کی  زندگی کیسی یوتی ہے۔

پیپلزپارٹی وفاقی حکومت کو اس کا ذمہ دار ٹھہراتی ہے اور نئے پاکستان کے بانی کے سر پر ابھی تک دھاندلی کا بھوت سوار ہے، میڈیا رمضان کے خصوصی نشریات اور ایان علی کے معاملے میں مصروف ہے اور شوشل میڈیا پر نوجوانوں کو برما کے مسلمانوں کی دکھ کھائے جارہی ہے، پاک فوج  ملک سے "را” کو بھگانے اور اپنا امیج بہتر بنانے میں سرگرم عمل ہے، ملا اور شیخ مسواک کرنے کے اسلامی طریقے پر بحث کررہے ہیں اور جنت کے سرٹیفکٹ بانٹنے میں مصروف ہیں، ایم کیو ایم میڈیا ٹرائل سے پریشان اور مذہبی جماعتیں ماہ صیام کو مذہبی عقیدت سے منانے میں مصروف۔۔۔۔۔۔۔

حکومت کی نااہلی کی اس سے بڑی  مثال اور کیا ہوسکتی ہے کہ ملک کے سب بڑے شہر میں کوئی سرد خانہ نہیں جہاں لاشوں کو رکھا جا سکے جس کی آبادی دو کروڑ سے زیادہ ہے۔۔۔۔ ذلالت کی اس سے بڑی مثال اور کیا ہوسکتی ہے کہ یہاں غریب کی لاش کے لیے بھی جگہ موجود نہیں۔۔۔

زبان پر قفل لگے ہوئے ہیں ۔۔کوئی نہیں بولتا ہے  کہ مجرم کون ہے؟ اور مرنے والوں کا جرم کیاہے؟ لگتا ہے کہ ا ملک میں غریب ہونا ہی ان کا جرم اور گناہ ہے۔ برق گرتی ہے تو بے چارے غریبوں پر ۔۔۔آخر کیوں۔؟ اور کب تک؟

اس تمام صرت حال کو دیکھ کر اپنا یہ شعر شدت سے یاد آرہا ہے۔

اے  ابابیلو  غور  سے  دیکھو

زد میں کنکر کے گھر تمہارے ہیں

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button